
بھارت میں شدید نفرت کے بیانیے کو فروغ دینے والے ، مذہبی لحاظ سے عوام کو تقسیم کرنے والے ، ہندو انتہا پسندی کو ہوا دینے اور اسے سپورٹ کرنے والے ، اقلیتوں کا قتل عام کرنے والے بھارت کے تا دم تحریر سابق اور آئندہ کے وزیراعظم نریندر مودی کو بھارت کے عوام نے کسی حد تک مسترد کر دیا ہے ۔ اگرچہ ان کی غیرمقبولیت اس قدر سامنے نہیں آئی ان کی خوش قسمتی سے ابھی تھوڑی بہت ہی ہوئی ہے لیکن ان کے غرور کو خاک میں ملانے کے لیے کافی ہے ۔ بھارت کے مہینوں پر محیط انتخابات کے سرکاری نتائج جاری ہو چکے ہیں جن کے مطابق543کے ایوان میں مودی کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (BJP) کل 240نشستیں جیتنے میں کامیاب ہو سکی جبکہ یہ جماعت اس قبل 2019کے انتخابات میں تین سو سے زائد نشستیں حاصل کر کے تنہا حکومت بنانے کی پوزیشن میں آگئی تھی مگر اب کی بار اس جماعت نے اپنی 63نشستیں کھو دیں ۔ انتخابات سے قبل یہ دعویٰ کرتے تھے کہ ہم چار سو سے زائد نشستیں حاصل کریں گے اور مودی نواز میڈیا بھی یہی دعوے کر رہا تھا کہ ان کی جماعت چار سو سے زائد نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو گی لیکن وہ سب دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے اور مودی جی اڑھائی سو کو بھی نہ پہنچ سکے۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کے اتحاد میں شامل درجنوں جماعتوں نے مل کر 292نشستیں حاصل کی ہیں اور وہ مل جل کر ایک مخلوط حکومت تشکیل دینے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
انتخابات سے قبل ان کے کھوکھلے دعووں یا سپنوں میں یہ پہلو بھی شامل تھا کہ ان کے مد مقابل ایک کمزور سی اپوزیشن ہو گی جس کی موجودگی میں وہ کھل کر ملک میں اپنی من مانیاں کریں گے اور انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہو گا ۔انہوں نے اس سے قبل بھارت میں جو اندھیر نگری مچائی ہوئی تھی وہ سب کے سامنے ہے کیونکہ بھارت میں مودی کی حکومت کے بعد انتہائی بد امنی رہی ، ملک میں اقلیتوں کا جینا محال ہو گیا۔ مسلمانوں کو خاص طور پر ان کے دور حکومت میں نشانہ بنایا گیا ، بھارتی مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا تھا ۔ مودی حکومت کے زیر اثر ہندو انتہا پسندوں نے مسلمانوں کو خوب ستایا اور انہیں ہر طرح سے کمزور کرنے اور دبانے کی کوشش کی، بہت سے مسلمان قتل ہوئے ، ان کے کاروبار تباہ کر دیے ، ان کی املاک کو نذر آتش کر دیا گیا۔
مودی سرکار کے زیر اہتمام بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سکول روا رکھا جاتا ہے ۔ ان کے خلاف ہندو انتہاپسند غنڈوں کو منظم کر کے کاروائیاں کی جاتی ہیں ۔ مختلف طریقے سے مسلمانوں کو ہراساں کیا جاتا ہے اور انہیں ہر طرح سے نقصان پہنچانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ مسلمانوں پر تشدد کر کے انہیں بے دردی سے شہید کر دیا جاتا ہے کسی مسلمان کو وہاں زبان کھولنے کی اجازت نہیں ہے۔ کہنے کو تو بھارت ایک سیکولر ریاست ہے اور دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلاتی ہے لیکن وہاں ہندوؤں کا نہایت زور ہے اور انتہا پسند جماعت بی جے پی برسر اقتدار ہے ۔ بابری مسجد کو صرف اس لیے شہید کیا گیا کہ ان کے مطابق وہ رام کی جنم بھومی تھی جس کے ثبوت کسی کے پاس نہیں ہیں ۔ وہاں کی عدالتیں بھی اس قدر اندھی ہو چکی ہیں کہ محض افسانوں کی بنیاد پر مسلمانوں کے خلاف فیصلے کر دیتی ہیں۔ الغرض بھارتی مسلمان نہایت متصب رویوں کا سامنا کر رہے ہیں جس کی نظیر تاریخ میں نہیں ملتی۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے رواں برس فروری میں دو رپورٹس جاری کی تھیںجن کے مطابق بھارت کی اس وقت کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (BJP) مسلمانوں کی املاک کو غیر قانونی طور پر مسمار کر رہی ہے جس میں نہ صرف مسلمانوں کے گھر وں بلکہ ان کے کاروبار وں اور عبادتگاہوں کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اسے ماورائے عدالت سزا قرار دیا ہے اور حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ جن مسلمانوں کے گھر اور کاروبار تباہ کر دیے گئے ہیں انہیں معاوضہ دیا جائے۔ رپورٹ کے مطابق یہ مظالم 5ریاستوں آسام، گجرات، مدہیہ پردیش، اتر پردیش اور دہلی میں ڈھائے جا رہے ہیں، یہ تمام وہ ریاستیں ہیں جن میںمودی کی جماعت برسراقتدار ہے ۔ رپورٹ کے مطابق اس وقت تک 617افراد چھت یا ذریعہ معاش سے محروم ہو چکے ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے سیکرٹری جنرل ایگنس کلامارڈ نے کہا ہے کہ ہندوستانی حکام کی جانب سے مسلمانوں کی جائیدادوں کی غیر قانونی مسماری جسے وہاں کے سیاسی قائدین اور میڈیا”بلڈوز انصاف” قرار دیتے ہیں، انتہائی ظالمانہ اور خوفناک ہے۔ انہوں نے اس سلسلے کو فوری بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے اور کہا ہے کہ حکام نے بار بار قانون کو پس پشت ڈال دیا،مکانات ، دکانوں اور عبادت گاہوں کو تفرت، ہراسانی، تشدد اور جے سی بی بلڈوزر کو ہتھیار بناتے ہوئے تباہ کیا ہے۔ یہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہیں جنہیں فوری بند کیا جانا چاہیے۔
مودی حکومت نے گجرات میں اپنی وزارت اعلیٰ اور مرکز میں وزارت عظمیٰ کے دوران مسلمانوں کو بہت ستایا ، اب اگر وہ ایک بار پھر بھاری اکثریت سے کامیاب ہو جاتے تو انہوں نے ہندوستان میںمسلمانوں کو رہنے نہیں دینا تھا۔ یہ تو اچھا ہوا کہ وہ اتنی بھاری اکثریت سے کامیاب نہیں ہو سکے اور نسبتاً ایک کمزور حکومت ان کا مقدر بنی جبکہ ان کے مدمقابل ایک مضبوط اپوزیشن ہو گی جو انہیں لگام دیے رکھے گی اور وہ بھارت میں من مانیاں نہیں کر سکیں گے۔ مودی دو مرتبہ ایک مضبوط حکومت کرنے کے بعد اب نہایت متکبر ہو چکا تھا اور غرور و تکبر میں بڑے بڑے دعوے بلکہ ڈینگیں مارنے لگا تھا ۔ لیکن قدرت کی لاٹھی بے آواز ہے ، نہ جانے کس مظلوم کی آہ لگ گئی کہ وہ سادہ اکثریت بھی حاصل کرنے میں ناکام رہے اور ایک کمزور اور مخلوط حکومت ان کا مقدر بنی۔