
بینظیرانکم سپورٹ پروگرام(BISP)جولائی 2008 میں شروع ہوا تھا.یہ غربت کی شرح میں کمی کرنے کے لییشروع کیا گیا تھا.حکومتیں اپنی عوام کی سہولیات کے لیے مختلف قسم کے منصوبیشروع کرتی رہتی ہیں.اس قسم کے فلاحی منصوبیعوام کی مدد کے لییاہم کردار ادا کرتے ہیں.یہ منصوبہ خواتین کی بہتری کے لیے شروع کیا گیا تھااور اس سیلاکھوں خواتین کے خاندان مستفید ہوئے اور ہو بھی رہے ہیں.یہ ایک ایسا منصوبہ تھا جس کیذریعے براہ راست نقد رقم خواتین کو دی جاتی تھی.مختلف این جی اوز نے بھی بی آئی ایس پی سے ڈیٹا لے کر غریب خواتین کی مدد کی.این۔آر۔ایس۔پی(NRSP)جو ایک این جی او ہے,اس تنظیم نے مکانات بھی غریب خواتین کو تعمیر کر کے دیے،بکریوں کے ذریعے بھی مدد کی نیزقرض بھی دیے.بی۔آئی۔ایس۔پی پروگرام میں شامل ہونیکیلیے ایک سروے کے ذریعیخاندانوں سے ڈیٹا اکٹھا کیا جاتا ہے اور اسی ڈیٹاکی بنیاد پرغریب خواتین کی مدد کی جاتی ہے.اس سروے میں بھی کئی قسم کی خامیاں پائی جاتی ہیں اور 15 سال سے زیادہ عرصہ ہو گیا ہے ان خامیوں کو دور کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے،لیکن مکمل طور پر خامیاں دور نہیں کی جا سکیں۔سروے کے بعدسکورنگ کوڈ کے ذریعے غریب خواتین کومنتخب کیا جاتا ہے.پہلے سروے گھر گھر جا کرکیا جاتا تھا،لیکن اب سروے سینٹرز میں جا کر کروانا پڑتا ہے.اس سروے کے لییکئی خواتین کو دور درازکیعلاقوں سے سفر کر کیسینٹرزپرآنا پڑتا ہے،ایک تو سفر کی اذیت،دوسرا گرم موسم،تیسرا کرایہ اور مزید اخراجات،اورچوتھا خواتین کوبعض اوقات رشوت بھی دینا پڑتی ہینیز کبھی کبھار تین تین، چار چار دن تک سروے نہیں ہوتا،جس کی وجہ سے ان کی تکالیف میں اضافہ ہو جاتا ہے.اس کے لیے بہتر طریقہ یہی ہے کہ آن لائن سسٹم شروع کر دیا جائیاورشہری خود اپنے سروے کا اندراج کریں،اس طرح بہت بڑی تکالیف اور بھاری اخراجات سے بچا جا سکتا ہے.ڈیٹا کولیکٹر(سروے کرنیوالا)بھی انہی باتوں کا اندراج کرتا ہے جو خواتین بتاتی ہیں،لہذا بہترین طریقہ یہی ہے کہ آن لائن سسٹم کے ذریعے شہری خود اندراج کریں۔اگر اس طرح نہیں ہو سکتا توحکومت کو چاہیے کہ گھر گھرسروے کرائے.
جوغریب خواتین سرویکے بعد رقم لینے کی حقدار ہو جاتی ہیں ان کو وظیفہ آسانی سے ملنا مشکل ہو جاتا ہے۔ایک خاتون جب رقم وصول کرنے کے لیے جاتی ہے تو اس کومشکلات کا دریا عبور کرنا پڑتا ہے.کسی بھی سنٹرپررش بہت ہوتا ہیاور دو تین ڈیوائس کام کر رہی ہوتی ہیں،جس کی وجہ سیخواتین ذلیل و خوار ہو رہی ہوتی ہیں.بعض اوقات پانی کی عدم دستیابی خواتین کی تکالیف میں اضافے کا سبب بنتی ہیاورپنکھے وغیرہ کا انتظام نہ ہونے کی وجہ سیخواتین شدیداذیت سہنے پر مجبور ہوتی ہیں۔خواتین ہی تکالیف برداشت نہیں کرتیں،ان کے ساتھ آئے ہوئے مرد حضرات بھی ذلیل و خوار ہو رہے ہوتے ہیں.رشوت بڑے دھڑلے سے لی جاتی ہیاور رشوت نہ دینے والی خواتین رل رہی ہوتی ہیں.رشوت بھی مختلف طریقوں سے لی جاتی ہے،کبھی پیسے دیتے وقت پانچ سو،ہزار روپے کی ڈنڈی مار لی جاتی ہے،کبھی ایڈوانس رقم وصول کر لی جاتی ہیاور کبھی سنٹر سے باہر ایجنٹ وصول کر لیتا ہے۔سفارش یا رشوت کے بغیرکام ہونا مشکل ہے.شایدکوئی خوش نصیب خاتون ہو جس کو بغیر رشوت اور جان پہچان کے رقم آسانی سے مل جائے۔راقم کودو تین دن پہلیعیسے خیل سنٹرپرجانے کا اتفاق ہوا،یہاں خواتین کی بڑی تعداد موجود تھی اور دھوپ کے ساتھ گرمی میں شدید پریشان ہو رہی تھیں،مگر سرویکرانے کیلییمجبورا بیٹھی ہوئی تھیں۔بعد میں گورنمنٹ ہائی سکول عیسی خیل گیا جہاں بی۔آئی۔ایس۔پی کی رقم خواتین کو مل رہی تھی،لیکن یہاں بھی حال بہت ہی ابتر تھا.مختلف علاقوں سے خواتین آئی ہوئی تھیں اور ان کے ساتھ مردبھی تھے.کئی خواتین کے پاس چھوٹے چھوٹے بچے تھے,کئی خواتین بیمار تھیں اور کئی خواتین ضیف العمر تھیں،لیکن مجبورا سینٹر پرآئی ہوئی تھی۔گرمی کی شدت ان کی تکالیف میں اضافہ کر رہی تھی.بعض خواتین کو بتایا جاتا تھا کہ آپ کا انگوٹھا نہیں لگ رہا،اس لیے آپ کو رقم نہیں مل سکتی اور رقم مخصوص طریقے کے ذریعے ملے گی۔مخصوص طریقے سے ملنے والی رقم کا ذریعہ بھی بہت ہی لمبا چوڑا ہے.کیا اس طرح نہیں ہو سکتا کہ جن خواتین کیانگوٹھے نہیں لگتے اور ان کی رقم موجود ہیتوآسان طریقے سے دے دی جائے۔بعض اوقات بینک بھی رقم دینے سے انکار کر دیتے ہیں کیونکہ کیش کی کمی یا کسی اور وجہ کا بہانہ بنا دیا جاتا ہے.
سروے کرنا اور رقم کاحصول دونوں طریقے عوام کے لئے سخت تکلیف دہ ہیں.حکومتیں اس طرح کے منصوبے بنا کر عوام کو باعزت اورآسان طریقے سے ریلیف پہنچاتی ہیں،مگریہاں تکالیف میں اضافہ کردیاجاتاہے۔یہ وظیفہ باعزت طریقے سے بھی دیا جا سکتا ہے۔آسان طریقہ یہ ہیکہ اے ٹی ایم کے ذریعیرقم دی جائے.ریٹیلررشوت طلب کرتے ہیں،اگر اے ٹی ایم کے ذریعے رقم دی جائے تو رشوت کا امکان مشکل کی حدتک ناممکن ہو جائے گا.فرض کیا اے ٹی ایم کے ذریعے ابھی دینا مشکل ہیتو ریٹیلرکی سخت چیکنگ کی جائے تاکہ وہ رشوت نہ لیسکیں۔ریٹیلرزحضرات کا بھی کہنا ہے کہ ہمیں ڈیوائس حاصل کرتے وقت بھاری رشوت دیناپڑتی ہے اور بعد میں بھی ادائیگی کرنے پر مجبور ہیں،اس لیے ہم رشوت لیتیہیں۔اس نظام کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے لیکن پاکستان میں رشوت کا چلن اتنا عام ہو چکا ہے کہ اس پر قابو پانا مشکل ہوگا.ضرورت اس امر کی ہیکہ ریٹیلرز حضرات کی تعداد بڑھائی جائیتاکہ خواتین بغیر کسی مشکل کے رقم حاصل کر سکیں.خواتین کی پریشانی کا خیال کیا جائیاور مخصوص جگہ بعض اوقات بہت ہی دور ہوتی ہیں،لہذا جتنا ممکن ہو سکے خواتین کو گھر کی دہلیز پررقم مہیا کرنے کا بندوبست کیا جائییا اے ٹی ایم کے ذریعے رقم دی جائے یا کوئی اورآسان طریقہ بھی اختیار کیا جا سکتا ہے۔
بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام پر تنقید بھی کی جاتی ہے.ایک تو اس بات پر تنقید کی جاتی ہیکہ پورے ملک کی غریب خواتین کو وظیفہ نہیں ملتالہذاپورے ملک کی غریب خواتین کو وظیفہ ملنا چاہیے۔دوسری اس وجہ سے بھی اس پروگرام کوتنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے کہ عوام کو بھکاری بنایا جا رہا ہے.یہ رقم دوسرے منصوبوں پر خرچ کی جاتی،اگر اسی طریقے سے رقم دینا ضروری ہیتو باعزت طریقہ اختیار کیا جاناچاہیے۔اس منصوبہ کی حمایت میں یہ دلیل دی جاتی ہے کہ کئی لاکھ خواتین اس منصوبے سے فائدہ اٹھا رہی ہیں.اگرملک کی ترقی کا سوچنا ہے تواللوں تللوں پر خرچ کی جانیوالی رقم کاآڈٹ کیا جائیاورآئندہ وہ مراعات روک دی جائیں جواشرافیہ کو دی جا رہی ہیں.جتنی رقم کرپشن کی نظر ہو رہی ہے,یہ رقم اس کا عشر عشیر بھی نہیں.اس بات میں وزن نظرآتا ہیکیونکہ پاکستان غریب ملک ہونے کی وجہ سے بھاری قرضوں میں جکڑا ہوا ہیاور یہ قرضے اشرافیہ کی عیاشیوں میں اڑ جاتے ہیں اور ادائیگی پاکستانی عوام کو کرنا پڑتی ہے۔حکومتوں کے منصوبے عوام کی بہتری کے لیے ہوتے ہیں نہ کہ ان کو ذلیل و خوار کرنے کے لیے،ضروری ہے کہ جلد از جلدبہتر طریقے اپنا لیے جائیں.بی۔آئی۔ایس۔پی کوایک شاندارمنصوبہ بنایاجائے۔