مقصد کو حاصل کرنے کیلے محنت ضروری ہے۔اللہ تعالی کا اصول ہے جو فرد یاقوم محنت اور کوشش کرے،اپنے مقصد کو پا لیتا ہے۔کتاب حکمت میں ہے،”انسان کو وہی کچھ ملتا ہے,جس کی کوشش کرتا ہے”(سور النجم۔39)ہاتھ پہ ہاتھ دھر کر کسی مقصد کو حاصل کرنا خواہش تو ہو سکتی ہے،کامیابی ممکن نہیں ہو سکتی۔اس کے لئے جی جان سے محنت اور کوشش کرنا پڑتی ہے۔اللہ تعالی نے اپنی لاریب کتاب میں ایک اور اصول بیان کیا ہے کہ”بے شک اللہ تعالی کسی قوم کی حالت بھی نہیں بدلتا،جب تک وہ خوداپنے آپ کونہ بدلے،یعنی اللہ تعالی مسلسل انسان پر واضح کر رہے ہیں کہ تمہیں اپنے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے محنت کرنا پڑے گی پھر خدا پر یقین،تب ہی تم کامیابی حاصل کر سکتے ہو۔ٹھیک ہے دعا بھی ایک اہم عنصر ہے،مگر محنت کے بغیر کامیابی کی امید رکھنا فضول ہے۔تن آساں کے لیے کامیابی کا حصول نا ممکن ہوتا ہے۔جتنی بھی خواہش کرے، لیکن محنت نہ کرے تو اپنے مقصد کو پا نہیں سکتا۔ٹھیک ہے کسی مقصد کو پانے کیلئے خیال کا آنا ضروری ہے،مگر اس کے لیے اگر محنت نہ کی جائے توخیال،خیال ہی رہتا ہے،کسی مقصد کے لیے کامیابی کا اصول نہیں بن سکتا۔اللہ پاک نے ایک اصول بنا دیا ہے کہ جو بھی شخص ہو، چاہے مسلم ہو یا غیر مسلم،اگر وہ محنت نہیں کرتا تو کامیاب بھی نہیں ہو سکتا۔ٹھیک ہے اللہ تعالی کی مدد بھی لازمی ہے،مگر مدد بھی اس وقت پہنچتی ہے جب خود انسان محنت کرے۔جنگ بدر میں حضور صلی اللہ وسلم اور صحابہ کرام کی مدد کو فرشتے اس وقت پہنچے،جب وہ میدان جنگ میں فیصلہ کن جنگ لڑ رہے تھے۔یہ فرشتوں کی مدد پہلے بھی آ سکتی تھی،مگر فرشتوں کی مدد اس وقت پہنچی جب کفر اور اسلام کاخطرناک معرکہ جاری تھا۔اس جنگ میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہ نے فرشتوں کی مدد اپنی آنکھوں سے دیکھی۔
لازمی بات نہیں کہ اللہ پاک صرف مسلمانوں کی مدد کرتا ہے بلکہ محنتی کفار کی مدد بھی کی ہے۔جس طرح یورپ نے معاشی اور مادی ترقی کی ہے۔یہ سب ان کی محنت کا انعام ہے۔جس طرح عالم کفر نے ٹیکنالوجی میں ترقی کی ہے۔یہ سب ان کی محنت مسلسل کے ثمرات ہیں۔راکٹ سے لے کر موبائل فون تک ایجادات مسلسل محنت اور لگن کی مرہون منت ہیں۔جب تک امت مسلمہ محنت کر رہی تھی،تو پوری دنیا میں ان کا طوطی بولتا تھا۔جب وہ محنت سے دور ہوئے،تو اغیار کے غلام بن گئے۔یہاں ایک یونانی فلاسفر اور خطیب کا ذکر کرنا ضروری ہے۔اس کا نام تھا ڈیموس ایتھنز۔وہ پہلے ہکلا کر بولتا تھا بلکہ بولنے میں بھی اس کو دشواری محسوس ہوتی تھی،لیکن اس نے مسلسل محنت سے ایسا مقام حاصل کرلیا،جب وہ مجمعوں میں بولتا تھا تو مجمعوں میں آگ لگا دیا کرتا تھا۔یہ مقام حاصل کرنے کے لئے اس کی مسلسل محنت اور لگن شامل حال تھی۔وہ منہ میں کنکریاں رکھ کر پہاڑ پر دوڑ کر چڑھتا تھ،اس سے اس کااسٹیمنا مضبوط بن جاتا۔کبھی دریا کے کنارے دوڑ کر سانسوں پر قابو پانے کی کوشش کرتا۔پھولتی سانسوں کے ساتھ خطاب شروع کر دیتا۔عوام نے پہلے پہل اپنی عادت کے مطابق اس کا مذاق اڑایا۔آوازے کسے گئے۔لیکن وہ ان باتوں سے بے پرواہ اپنی محنت سے منہ نہیں موڑرہا تھا۔آخر کار وہ اپنے مقصد کو پا گیا۔اس مقام تک پہنچنے کے لئے اس کے ک برس بیت گئے۔جب وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوا تو عوام کے ٹھٹ کے ٹھٹ اس کا خطاب سننے کے لیے جمع ہو جاتے۔اس کا خطاب سننے والے جھوم اٹھتے۔اگر وہ محنت جاری نہ رکھتا تو وہ معاشرے میں اعلی مقام نہیں پا سکتا تھا۔
یہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ بھی ضروری ہے،انہوں نے مسلسل محنت کرکے دنیا میں اسلام پھیلایا۔ان کی راہ میں ک مشکلات آئیں،سلسل رکاوٹیں آیں،بار بار جان جوکھوں میں ڈالی۔مگر اللہ کا پیغام انسان تک پہنچانے کے لیے کسی رکاوٹ یا پریشانی کو کسی خاطر میں نہ لائے۔ان کو گالیوں او نازیبا الفاظ کے زریعے ذلیل کیا گیا۔تشدد کیا گیا۔ لالچ کے ذریعے توڑنے کی کوشش کی گئی،مگر حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم اپنے مقصد پر ڈٹے رہیحتی کہ اپنے مقصد میں کامیابی حاصل کرلی۔لیکن اس کامیابی کے پیچھے حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی مسلسل محنت شامل حال رہی۔یہ ٹھیک ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ عام آدمی کا موازنہ کرنا درست نہیں ہے،مگر ہمارے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی ہمارے لیے نمونہ ہے۔جب وہ محنت کرنے سے نہ بچ سکے،تو ان کی زندگی ہمارے لیے ایک مثال ہے کہ ہم بھی محنت کرکے کسی مقصد کو پا سکتے ہیں۔
اللہ تعالی کے اپنے اصول ہیں۔اس نے انسان کو دنیا میں بھیجا کہ مقررہ مدت تک دنیا میں رہے۔اچھے یا برے اعمال کے ذریعہ جنت یا دوزخ حاصل کرلے۔اسی طرح اس دنیا میں بھی کامیابی کیلئے محنت کو انسان کی سرشت میں داخل کردیا۔اب اگر ایک طالب علم محنت نہ کرے اور اس بات کی توقع رکھے کہ وہ کامیاب ہو جائے گا،تویقینی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ وہ کامیابی حاصل نہیں کر سکتا،جب تک امتحان میں کامیابی کیلئے محنت کا پرچم نہ تھام ملے۔اسی طرح کوئی بھی فرد محنت کے بغیر کامیابی کی سیڑھی نہیں چڑھ سکتا۔
اب اگر موجدین کا ذکر کیا جائے تو نظر آتا ہے کہ کسی چیز کو ایجاد کرنے کے لئے ان کی مسلسل محنت شامل حال رہی ہے۔مارکونی,ایڈ یسن,گراہم بیل یا رائٹ برادران وغیرہ کی زندگیوں کا مطالعہ کیا جائے تو ان کی مسلسل محنت ہی ان کے مشن کی تکمیل کا سبب بنی۔اگر وہ مسلسل محنت نہ کرتے یاتھوڑی سی محنت کے بعد مایوس ہوکر بیٹھ جاتے تو اتنے بڑے اعزازات ان کے ماتھے کا جھومر نہ بنتے۔
تاریخ میں کئی ایسے افراد بھی گزرے ہیں,جنہوں نیایسے حالات اورماحول میں آنکھ کھولی،جہاں اعلی مقام تو کیا معمولی مقام حاصل کر نا بھی مشکل تھا،لیکن مسلسل محنت سے دنیا میں اعلی مقام تک جا پہنچے۔مثال کے طور پر ابراہم لنکن،جو کہ ایک غریب موچی کے گھر میں پیدا ہوئے تھے،مگر مسلسل محنت نے ان کو تاج امریکہ پہنا دیااور انہوں نے امریکہ کو دنیا میں اعلی مقام دلوانے میں اہم کردار ادا کیا۔اس طرح ہزاروں مثالیں مل سکتی ہیں کہ معمولی سے مقام میں پلنے والے بچے محنت سے ہی کامیاب قرار پائے۔
محنت،مسلسل محنت ہی انسان کو کامیابی دلا سکتی ہے۔جو افراد یا قومیں محنت سے گھبراتی ہیں،وہ دنیا میں اعلی مقام حاصل ہی نہیں کر سکتے۔کسی مقام تک پہنچنے کے لئے مسلسل محنت ضروری ہے۔محنت ہی سے بیمار قومیں ہوں یا افراد،انہوں نے شفا پاء ہے۔یوں کہا جاسکتا ہے کہ”محنت ہی ضروری ہیکسی مقصدکوپانے کیلیے”۔
0 34 4 minutes read