کالم

انڈین الیکشن میں مودی کو جھٹکا

انتخابات میں واضح اکثریت حاصل کرنے میں ناکام ہونے کے بعد ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی نے بدھ کواتحادیوں کے ساتھ مل کر حکومت اور73سالہ مودی کوتیسری مرتبہ وزیراعظم بنانے پر اتفاق کیا ہے۔بی جے پی کے دعووں اور ایگزیٹ پولز کی توقعات کے برعکس انڈیا کے پارلیمانی انتخابات میں حیرت انگیز نتائج نے مودی کوبڑاجھٹکادیاہے اور کانگریس کی قیادت میں اپوزیشن اتحاد مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی کو نمایاں طور پر کمزور کرنے میں کامیاب رہا ہے۔دنیاکاسب سے بڑاالیکشن انڈیامیں ہواجو 19اپریل کوشروع ہوااورسات مرحلوں کے بعد یکم جون کواختتام کوپہنچا ۔دنیاکی سب سے زیادہ آبادی والے ملک کے 96.8 کروڑ رجسٹرڈ ووٹرز میں سے 64.2 کروڑ ووٹروں نے اپنے حق رائے دہی کا استعمال کیا۔نڈیا میں 57 لوک سبھا سیٹوں کے لیے ووٹنگ کے ساتویں مرحلے کے اختتام کے ساتھ ہی 18ویں لوک سبھا کی کل 543 سیٹوں کے نتائج آگئے ہیں ،تقریبا ساڑھے دس لاکھ پولنگ بوتھ پر مبصرین اور مائیکرو مبصرین کی موجودگی میں 70-80لاکھ سے زائد افراد نے ووٹوں کے گنتی کے عمل میں حصہ لیا۔ بی جے پی نے اس مرتبہ نیشنل ڈیموکریٹک الائنس(این ڈے اے)اتحادسے الیکشن میں حصہ لیا،جبکہ تقریبا دو درجن جماعتوں نے کانگریس سے ہاتھ ملا کر انڈین نیشنل ڈویلیپمنٹل انکلوسیو الائنس بناکرالیکشن میں حصہ لیا جس کا مخفف انڈیا بنتا ہے۔نتائج کے مطابق بی جے پی کی قیادت میں(این ڈی اے نے 543 میں سے 292 نشستوں پرکامیابی حاصل کی ہے اور کانگریس کی قیادت میں اپوزیشن انڈیا اتحاد کو 234 نشستیں ملی ہیں۔ واضح رہے کہ انڈیا میں سیاسی جماعتوں یا ان کے اتحادیوں کو مرکز میں حکومت بنانے کے لیے کم از کم 272 نشستیں درکارہوتی ہیں۔
ماضی کی بات کریں تواس سے قبل 2019 کے انتخابات میں نریندر مودی نے این ڈی اے کے اتحادسے الیکشن میں حصہ لیاتھاجس نے کل 353 نشستیں حاصل کی تھیں۔جس میں سے بی جے پی نے تنہا 303 سیٹیں جیتی تھیں جبکہ کانگریس کو صرف52 سیٹیں ملی تھیں۔ کانگریس کی قیادت والی یو پی اے اتحاد نے کل 92 سیٹیں حاصل کی تھیں۔جبکہ 2014 میں ‘مودی لہر’ کی وجہ سے بی جے پی کو 282 اور این ڈی اے کو 336 سیٹیں ملی تھیں اور بی جے پی مضبوطی کے ساتھ حکومت میں آئی تھی۔ دوسری جانب 10 سال تک کامیابی کے ساتھ حکومت کرنے والی کانگریس کواس وقت صرف 44 اوران کے اتحاد یو پی اے کو 59 سیٹیں ملی تھیں۔بی جے پی نے گزشتہ انتخابات میں کامیابی کے بعد ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر، کشمیر میں دفعہ 370 کو ہٹانے اور تین طلاق روکنے کا قانون متعارف کرانے جیسے اپنے وعدوں کو پورا کیا ہے۔ اب کی بار ون نیشن ون الیکشن اور یکساں سول کوڈ کے تحت اقلیتوں کے شادی اور وراثت کے قوانین کو ختم کرنے کا اعلان کیاہے ون نیشن ون الیکشن وعدے کے تحت بی جے پی پارلیمانی اور ریاستی اسمبلی کے انتخابات ایک ہی وقت میں کروانا چاہتی ہے۔اس کے علاوہ مودی نے اپنی انتخابی مہم میں اس مرتبہ بھی فرقہ وارانہ مسائل کو اٹھایا اورپاکستان کے خلاف بھی زہراگلا جبکہ اپوزیشن اپنے مہم کے لیے اپنے نکات پر قائم رہی جیسے کہ 30لاکھ نوکریوں کا وعدہ، غریبوں کو 10 کلو گرام مفت راشن دینے اور غریب خاندانوں کو ہر سال ایک لاکھ روپیہ دینے کا وعدہ۔بھارتی انتخابات کے نتائج کے مطابق کانگریس پارٹی 24 ریاستوں اور یونین ٹیرٹریز میں اراکین منتخب کرانے میں کامیاب ہوئی ہے تاہم مدھیہ پردیش، انڈمان اور نکوبارجزائر میں اس بارکھاتہ نہیں کھول سکی۔کانگریس اس بار راجستھان، گجرات، چندی گڑھ، ناگا لینڈ، لکشدویپ اور منی پور میں بھی کھاتہ کھولنے میں کامیاب رہی تاہم کرناٹک میں کم نشستیں ملنے سے اسے مایوسی کا سامنا ہوا۔مودی نے مقبوضہ کشمیرکی آئینی حیثیت ختم کرکے کشمیریوں کولولی لاپ دیامگرحالت یہ تھی کہ مودی کی سیاسی جماعت بھارتیا جنتا پارٹی 1996 کے بعد پہلی بار مقبوضہ کشمیر میں الیکشن میں حصہ نہیں لیااورجے پی کے اتحادیوں نے مقبوضہ جموں و کشمیر اور لداخ کی 6 میں سے صرف 2 نشستیں جیتی ہیں۔بی جے پی کو اپنے گڑھ اتر پردیش میں شکست کا سامنا ہوا جہاں سماج وادی پارٹی اور کانگریس کو 43 نشستیں ملیں، اسطرح بابری مسجد کی جگہ رام مندر بنانے والی بی جے پی کو ایودھیا میں بھی شکست کاسامناکرناپڑاحالانکہ مودی نے اسی رام مندرسے اپنی الیکشن مہم شروع کی تھی ۔بھارتی ریاست اترپردیش میں 2017 سے بی جے پی کی حکومت ہے، اس ریاست میں لوک سبھا کی 80 نشستیں ہیں اور یہ 24 کروڑ آبادی کے ساتھ بھارت کی سب سے زیادہ آبادی والی ریاست ہے۔ حالیہ انتخابات میں راہول گاندھی اور نریندر مودی دونوں ہی یہاں سے الیکشن لڑرہے تھے۔2019 میں حکمران اتحاد این ڈی اے نے یہاں سے 64 نشستیں حاصل کی تھیں جن میں سے 62 نشستیں اکیلے بی جے پی نے جیتی تھیں تاہم آج 2024 میں صورتحال مختلف ہے۔ بی جے پی 33 اور اس کے اتحادی دیگر 3نشستوں پرکامیاب قرار پائے۔ خود مودی کے حلقے وارانسی میں بھی کانگریس کے امیدوار اجے رائے نے بی جے پی کے ووٹ بینک کو نقصان پہنچایا۔ 2019میں یہاں سے نریندر مودی کی جیت کا فرق 5 لاکھ ووٹوں کا تھا جو حالیہ انتخابات میں ڈیڑھ لاکھ ہی رہ گیا۔ اس کے برعکس راہول گاندھی اپنے حلقے رائے بریلی سے 3 لاکھ 90 ہزار ووٹوں کے فرق سے جیتے۔اسی طرح بی جے پی کی سمرتی ایرانی جنہوں نے 2019 کے انتخابات میں راہول گاندھی کو 55 ہزار ووٹوں سے شکست دی تھی اس بار کانگریس کے امیدوار کشور لعل کے مقابلے میں ہار گئیں۔
کانگریس اور اس کے اتحادی مہاراشٹرا میں بھی اہم کامیابیاں حاصل کی ہیں وہیں بی جے پی اور اس کے اتحادی وہاں بھی شکست ہوئی ہے نتائج کے مطابق ریاست کی 48 نشستوں میں سے 29 اپوزیشن کا انڈیا الائنس جیت حاصل کرچکا ہے جن میں 13 نشستوں پر اکیلے کانگریس کو برتری حاصل ہے جبکہ بی جے پی صرف 9 نشستیں حاصل کر پائی۔
اب کی بار،4سوپار،کانعرہ بی جے پی کے گلے پڑا کیوں کہ کانگریس نے بی جے پی کو اسی کے ہتھیار سے کاری ضرب لگائی اور اب کی بار چار سوپار کا بی جے پی کانعرہ ووٹر کیلئے خوف کی علامت بنادیا، کانگریس اوران کے اتحادی عوام کویہ باور کرانے میں کامیاب رہے کہ اگر بی جے پی کو چار سو نشستیں مل گئیں تو وہ آئین بدل دے گی اور کوٹہ سسٹم ختم کردے گی جوکہ د لتوں اور اقلیتوں کے لیے تشویش ناک بات تھی جس کے ردعمل میں دلتوں اوراقلیتوں نے اپنے ووٹ کے ذریعے مودی کے پلان کوناکام بنایا۔
مودی کا ہندو قوم پرست ایجنڈا انہیں بھاری اکثریت نہیں دلاسکا اگرچہ مودی تیسری مرتبہ وزیر اعظم کے عہدے کا حلف اٹھا کر بھارت کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو کے ریکارڈ کی برابری توکرلیں گے لیکن وہ سیاسی لحاظ سے پہلے کے مقابلے میں نہایت کمزور ہوں گے۔نریندر مودی کو اب بی جے پی کی کئی متنازعہ پالیسیوں اور اقدامات کے سلسلے میں توازن برقرار رکھنا پڑے گا۔ اتحادی پارٹیوں، جن کے اپنے مفادات ہیں، کی طرف سے دباو کی وجہ سے وہ ایسا کرنے کے لیے مجبور ہوں گے۔ بی جے پی کو اپنے انتخابی منشور میں کیے گئے کئی وعدوں کو بھی التوا میں ڈالنا پڑسکتا ہے۔اوروہ ماضی کی طرح حکومت نہیں کر پائیں گے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button