منشیات یا نشہ ایک ایسی برائی ہیجو معاشروں کو برباد کر کے رکھ دیتی ہے.نشہ وقتی سکون تو دیتا ہے لیکن صحت اور پیسیکا نقصان ہوتا ہے.ایک بہترین معاشرہ نشے سے مکمل طور پر انکار کر دیتا ہے.دنیا کے تمام ممالک میں نشے پر پابندیاں عائد نظرآتی ہیں۔کئی ممالک میں منشیات کواتنا بڑاجرم گردانا جاتاہیکہ اس کی سزا موت تک بھی دی جاتی ہے.پابندیوں کے باوجود بھی منشیات کا پھیلابڑھتا جا رہا ہے۔تمام تر احتیاطی تدابیر کے باوجودابھی منشات میں کمی دیکھنے میں نہیں آتی بلکہ اس کا استعمال روز بروز بڑھ رہا ہے.نشہ کے استعمال میں ہونے والیلوازمات میں روز بروز جدت لائی جارہی ہے جس سے نشہ دوآتشہ ہو جاتا ہے.آج کل تو جدید قسم کے نشے باآسانی دستیاب ہیں.شراب،چرس،ہیروئن،نشہ آور گولیاں اور کئی قسم کیکیپسول نشہ کیلییاستعمال کیے جاتے ہیں۔اس کے علاوہ اور بھی کئی قسم کا مواد نشے کے لیے استعمال ہوتا ہے.پہلے پہل شاید شراب کو ہی نشہ نہیں سمجھا جاتا تھااور اب بھی کئی ممالک میں شراب یا الکحل کا استعمال قانونی طور پر جائز ہے.اسلام تمام نشوں سے روکنے کا حکم دیتا ہے.شراب کے بارے میں حکم آتا ہے،”اے ایمان والو!شراب اور جوا اور بت اور قسمت معلوم کرنے کی تیرناپاک شیطانی کام ہی ہیں،تو ان سے بچتے رہو تاکہ تم فلاح پا”القرآن(مائدہ۔آیت90)اسلام شراب کے ساتھ دوسری برائیوں سے بھی منع کرتا ہے.قرآن کے مطابق جہاں شراب کو شیطانی فعل کہا گیا ہے،وہاں جوا اور بت سمیت قسمت معلوم کرنے کے لیے تیروں کو بھی ناپاک اور شیطانی کام کہا گیا ہے.شراب ایک ایسا نشہ ہے جس سے انسان کا ذہن قابو بھی نہیں رہتا اورشرابی انسان جہاں اپنے آپ کو نقصان پہنچاتا ہے وہاں معاشرے کے لیے بھی نقصان دہ ثابت ہوتا ہے.شراب کا نشہ ہزاروں سال سے انسان استعمال کرتا ہواآرہا ہیاور اس کے علاوہ ایک دوسرا نشہ جس کاذکر تاریخ میں بھی ہزاروں سال قبل ملتا ہیاور وہ نشہ افیم کہلاتا ہے.ہزاروں سال قبل بھی انسان کو معلوم ہو گیا تھا کہ افیم کھانے سے انسان کو نیند بھی آتی ہیاورتھکاوٹ بھی محسوس نہیں ہوتی.پہلے پہل افیم کو اتنا نقصان دہ تصور نہیں کیا جاتا ہوگا لیکن جدید تحقیق بتاتی ہے کہ افیم انسان کوناکارہ بنا دیتی ہیاور ناکارہ افراد معاشرے کو ناکارہ بنا دیتے ہیں۔شراب اور نشہ آور چیزوں کیاستعمال کو روکنے کے لیے احادیث بھی موجود ہیں۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے”ہر نشہ آور چیز حرام ہے”(بخاری۔5585)اس حدیث سے یہ سبق ملتا ہے کہ ہر نشہ آور چیزحرام قرار دی گئی ہے،بلکہ دوسری حدیث میں معمولی سی مقدار کو بھی حرام قرار دیا گیا ہے.حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہیکہ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا”جس چیز کی زیادہ مقدارنشہ کا باعث ہو اس کی کم مقدار بھی حرام ہے۔( ترمذی) یہ بات تو صحیح ہے کہ اول اول معمولی سی مقدار نشے کے لیے استعمال کی جاتی ہیاور یہی مقدار بڑھتے بڑھتے بھاری ڈوز تک جا پہنچتی ہے.ایک وقت ایساآتا ہے کہ نشئی انسان کسی کام کا نہیں رہتا بلکہ وہ اپنےآپ کو برباد کر لیتا ہے۔بہتر یہی ہے کہ معمولی سی مقدار سے بھی اجتناب برتا جائے تاکہ نشے کو روکا جا سکے. شراب کو روکنیکا حکم اسلام میں آیا ہیاور شراب کو ام الخبائث یعنی برائیوں کی جڑ کہا گیا ہے(ترمذی)شراب معاشرے کو کھوکھلا کر دیتی ہے.شراب کے علاوہ کئی قسم کیایسے نشے ہیں،جو انسان اور معاشرہ کے لیے نقصان دہ ہیں بلکہ انسان اور معاشروں کو تباہ و برباد کر دیتے ہیں.کچھ نشے کم نقصان دہ ہوتے ہیں اور کچھ زیادہ نقصان دہ۔چرس،حشیش اور اس قسم کے نشے معمولی نقصان کا سبب بنتے ہیں لیکن بعض نشے بہت زیادہ نقصان کا سبب بنتے ہیں.ہیرین(وائیٹ پاڈر)بہت ہی نقصان دہ نشہ ہے.اس نشے کا استعمال کرنے والا معاشرے سے کٹ کر رہ جاتا ہیاور ساتھ ہی اپنے اپ کو برباد کر دیتا ہے.کوکین اورجدید نشے جولیکوئڈاور کیپسول یا گولیوں وغیرہ کی صورت میں دستیاب ہوتے ہیں،وہ شدید نقصان پہنچانے کا سبب بنتے ہیں.صمد بانڈ،گولیوں اورانجنکشن کی صورت میں بھی نشہ دستیاب ہے.عام میڈیکل سٹورزپریہ نشہ آوراشیا آسانی سے مل جاتی ہیں۔دنیا کے کئی ممالک میں میڈیکل سٹورزصرف ڈاکٹر کی تجویز کردہ پرچی پر ہی نشہ آورادویات فروخت کرتے ہیں،لیکن ترقی پذیر ممالک میں میڈیکل سٹورزپرعام نشہ آور چیزیں ڈاکٹر کی پرچی کے بغیر بھی مل جاتی ہیں۔میڈیکل سٹورزکے مالکان کو پابند کیا جائے کہ بغیر پرچی/تجویزکے کوئی گولی نہ دی جائے،خصوصاوہ ادویات جو نشہ لانے کا سبب بنتی ہیں،اس طرح نشہ اورمنشیات کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے.
منشیات کا پھیلا کا سبب انسانی لالچ ہے،کیونکہ زیادہ کمانے کی لالچ انسان کو مجبور کر دیتی ہے کہ وہ منشیات کو فروغ دے.جن ممالک میں منشات پر پابندی ہے ان ممالک میں بھی منشیات بک رہی ہوتی ہے،اس کی وجہ صاف ظاہر ہے کہ پیسہ کی لالچ ایسے گندے کام کرانے پر مجبور کرتی ہے.منشیات فروشی راتوں رات امیر بنانے کا سبب بنتی ہے.زیادہ منافع کا لالچ انسانی زندگیاں بھی دا پر لگا دیتا ہے۔منشیات کی روک تھام کے لیے ضروری ہے کہ اس کے لیے سخت سے سخت سزائیں دی جائیں.منشیات کا کاروبار دنیا میں تیزی سے پھیلتاہواکاروبار ہیاور اس کی روک تھام میں بڑی رکاوٹیں پیش آرہی ہیں۔اس کاروبار میں معاشرے کے بظاہر معزز نظر آنے والے افراد بھی ملوث ہوتے ہیں اور اعلی عہدوں پربیٹھے ہوئے افسران بھی ملوث ہو جاتے ہیں،یہاں تک کہ بڑے بڑے نامی گرامی سیاستدان بھی منشیات کیکاروبارمیں ملوث نظرآتے ہیں.اگر معاشرے کو منشیات سے پاک کرنا ہے تو بلا تفریق ہر ایک کو سزا دینی ہوگی جو بھی اس میں ملوث نظرآئے.بعض ایسی چیزیں/ نشہ آورادویات ہیں جو کہ مجبوری کی حالت میں استعمال کی جاتی ہیں،مثال کے طور پر سرجری کے وقت نشہ دیاجاتا ہے تاکہ مریض کو تکلیف کا احساس نہ ہویا شدید بیمار کو سکون پہنچانے کے لییبھی نشے کاعلاج تجویز کیا جاتا ہے۔مجبوری کی حالت میں تو درست ہے لیکن مستقل نشے کا استعمال نقصان دہ ہے.
ایک بات کا ادراک ہر ایک کو ہے کہ نشہ نقصان دہ چیز ہے.چینیوں کا افیم استعمال کرنے کا نشہ تاریخ میں مشہور ہے.انگریزوں نے ان کوافیم کے نشے پر لگا دیا تھا جس کی وجہ سے چینی قوم ناکارہ ہو کر رہ گئی تھی.چینی قوم نے جب نشے سے نجات پائی تو دنیا کی بہترین قوم بن کر ابھری.اس کے علاوہ کئی ممالک میں نشہ اس لیے بھی پھیلا دیا جاتا ہے کہ تاکہ وہ کمزور ہو جائیں یعنی نشہ کو بطور ہتھیار استعمال کیا جاتا ہے.نشہ معاشروں کو کھوکھلا کرنے کے ساتھ جرم کی طرف بھی دھکیل دیتا ہے.نشہ استعمال کرنے والے افراد کے پاس جب نشہ ختم ہو جائیتو ہر حال میں نشہ حاصل کرنا ضروری خیال کرتا ہیاور نشے کی طلب مجبور کرتی ہے کہ نشئی فرد جرم کر کے بھی رقم وصول کریاور حاصل شدہ رقم سے نشہ حاصل کرے.نشئی فرد رقم کیحصول کے لیے ہر قسم کا جرم کرنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے بلکہ قتل تک کا جرم بھی اس سے سرزد ہو جاتا ہے۔نشہ بازاپنا نقصان تو کرتا ہے ساتھ ہی اہل خانہ کے لیے بھی مصیبت کا سبب بن جاتا ہے.اگر ایک کمانے والا فرد نشہ کی طرف راغب ہو جائے تو اس کی فیملی دانے دانے کو محتاج ہو جاتی ہے.اگر وہ شادی شدہ ہے تو اس کے بچے تعلیم جیسی نعمت سے بھی محروم ہو جاتے ہیں
اور معاشرے میں اعلی مقام سے بھی محروم ہو جاتے ہیں.کہا جاتا ہے جہاں نشہ عام ہو وہاں جرائم کا گراف بھی زیادہ بلند ہوتا ہے،کیونکہ وہاں نشے کی لت آگے سوچنے کا موقع ہی نہیں دیتی کہ جرم کتنی برائی ہے.نشئی افرادڈکیتیوں کے علاوہ اغوااور غداری جیسے جرائم میں بھی ملوث ہو جاتے ہیں.اگر کسی معاشرے کوصحیح معاشرہ بنانا ہے تو منشیات سیانکار کرنا ہوگا.منشیات استعمال کرنے والا فردصحت کے مسائل کا شکار ہو کر موت کے منہ میں جلد ہی چلا جاتا ہے.منشیات سے انکارکا مطلب زندگی سے پیار ہے.معاشرے کو اگر منشیات سے پاک کرنا ہے تو سب کو مل کر ہی اٹھنا ہوگا،ورنہ معاشرہ جرائم کی دلدل میں دھنس جائے گا۔ اگرآپ کے خاندان کا کوئی فردیاکوئی عزیز نشے/منشیات کی لت کاشکارہو جائیتوبجائے لعن طعن کے،اس سے نشہ چھڑایاجائے.نشئی افراد فوری طور پر نشے کو چھوڑ نہیں سکتے،مگر ان کی کونسلنگ کر کیاور مناسب علاج کر کینشے جیسی لعنت سے چھٹکارا پایا جا سکتا ہے.نشہ چھوڑنے کے لیے ضروری ہے کہ حوصلے کا مظاہرہ کیا جائیاور نشے میں مبتلا فرد کوسمجھا بجھا کرنشے سے چھڑانے کی طرف راغب کیا جائے.اس کیلیے ضروری ہے کہ بہترین علاج گاہیں تعمیر کی جائیں جہاں نشئی افراد کا علاج اچھے طریقے سے ہو سکے.علاوہ ازیں حکومت بھی علاج گاہیں تعمیر کرے،جہاں نشئی افراد کا علاج مفت ہو سکے۔اس طرح معاشرے کو منشیات سے پاک کیا جا سکتا ہے.منشیات کا سدباب کرنے کے لیے ضروری ہے کہ حکومتیں سخت احکامات نافذ کریں اورعوامی حلقے بھی کردار ادا کریں.
0 47 6 minutes read