اسلام آباد: حکومت نے جو بجٹ اہداف مقررکیے ہیں ان کے تحت ملکی اقتصادی ترقی کا تخمینہ 3.6 فیصد جبکہ افراط زرکا ہدف 12 فیصد مقررکیا گیا ہے لیکن اینول پلان کوآرڈینیشن کمیٹی زیربحث آنے والی باتوں سے لگتا ہے کہ عوام تیسرے سال بھی مہنگائی تلے سسکتے رہیں گے۔
ملکی ترقی اور افراط زر کے ہدف کے حصول کا انحصار سیاسی اور روپیہ کے استحکام کے علاوہ اس بات پر ہوگا کہ حکومت بروقت آئی ایم ایف سے بیل آوٹ پیکیج لینے میں کامیاب ہوتی ہے یا نہیں۔
اینول پلان کمیٹی نے سال 2024-25 کیلیے جس منصوبے کی منظوری دی ہے اس کے تحت اگلے سال بھی بیرونی ادائیگیوں کے باعث پاکستانی روپیہ اور زرمبادلہ کے ذخائر دباوکا شکار رہیں گے۔
سابق وزیرخزانہ حفیظ اے پاشا کا کہنا ہے کہ حکومت کی طرف سے لگائے جانے والے ٹیکسوں اور آئی ایم ایف کے اندازوں کے مطابق اگلے سال بھی پاکستان میں میں افراط زریا مہنگائی کی شرح 19سے20 فیصد رہنے کا امکان ہے۔
حکومت نے وفاقی پبلک سیکٹر ڈیویلپمنٹ پروگرام ( پی ایس ڈی پی) کیلیے 1.22 ہزار ارب روپے مختص کردیئے ہیں، جن میں سے 59 فیصد انفراسٹرکچر اسکیموں کیلئے مختص کیے گئے ہیں، پالیسی میں بڑی تبدیلی کرتے ہوئے حکومت نے ترقیاتی بجٹ کو آئین اور این ایف سی سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی ہے۔
اینول پلان کوآرڈینیشن کمیٹی (APCC) جس نے یہ فیصلے کیے ہیں، نے اراکین پارلیمان کے صوابدیدی اخراجات کے بجٹ کو ختم کرنے کی منظوری بھی دی ہے، 1.221 کا مجوزہ بجٹ رواں سال کے نظرثانی شدہ بجٹ سے 64 فیصد جبکہ اصل بجٹ سے 30 فیصد زیادہ ہے، رواں سال کیلیے حکومت نے 950 ارب روپے کا بجٹ منظور کیا تھا، لیکن اس دوران اخراجات کا تخمینہ 746 ارب روپے لگایا گیا ہے۔
تفصیلات سے پتہ چلتا ہے کہ APCC کا تجویز کردہ بجٹ ضروریات 2.5 ہزار ارب روپے سے 51 فیصد کم ہے، یہ تخمینہ وزارت منصوبہ بندی اور ایگزیکیوٹیو ایجنسیوں نے لگایا تھا، واضح رہے کہ وزیراعظم شہباز شریف کی مداخلت پر ہی وزارت خزانہ نے مجوزہ بجٹ کو 1 ہزار ارب روپے سے بڑھا کر 1.22 ہزار ارب روپے کیا ہے، اب نیشنل اکنامک کونسل اگلے ہفتے اپنے اجلاس میں APCC کی تجاویز کا جائزہ لے گی اور ان کی منظوری دے گی۔
نیشنل اکنامک کونسل کے اجلاس کی صدارت وزیراعظم شہباز شریف کریں گے، امکان ہے کہ وزیراعظم کی بیجنگ سے واپسی کے بعد جون کو بجٹ کا اعلان کر دیا جائے گا، انفراسٹرکچر ڈیویلپمنٹ کی مد میں 877 ارب روپے تجویز کیے گئے ہیں، جو رواں مالی سال کے مقابلے میں 59 فیصد زیادہ ہیں۔
انفراسٹرکچر ڈیویلپمنٹ کے اندر سب سے زیادہ 378 ارب روپے انرجی سیکٹر کیلیے رکھے گئے ہیں، جو رواں سال کی نسبت 212 فیصد زیاد ہیں، جبکہ ٹرانسپورٹ سیکٹر کیلئے بجٹ میں 44 فیصد کمی دیکھی جارہی ہے، جو رواں سال 245 ارب روپے تھے، تاہم مجوزہ بجٹ میں 173 ارب روپے تجویز کیے گئے ہیں، واٹر سیکٹر کیلئے 92 فیصد اضافے سے 284 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے۔
حکومت نے سوشل سیکٹر کا بجٹ این ایف سی کے مطابق کرنے کیلیے اس شعبے کے بجٹ میں 59 فیصد کی زبردست کمی کی ہے، اور اس کو 120 ارب روپے سے کم کرکے 83 ارب روپے کردیا ہے، حکومت نے ارکان پارلیمان کی اسکیموں کا بجٹ مکمل طور پر ختم کردیا ہے، صحت کا بجٹ 53 فیصد کمی کے ساتھ 17 ارب روپے، تعلیم کا بجٹ 61 فیصد کمی کے ساتھ 32 ارب روپے( جس میں سے ایچ ای سی کیلئے 21 ارب روپے) رکھے گئے ہیں۔
آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان کیلئے بجٹ بغیر کسی تبدیلی کے 51 ارب روپے رکھا گیا ہے، جبکہ خیبرپختونخوا کے ضم شدہ اضلاع کیلئے بھی بجٹ میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی ہے اور 57 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، APCC نے وزارت خزانہ کو تجویز دی ہے کہ وہ ہر سہہ ماہی میں 25 فیصد بجٹ جاری کرنے کی پالیسی وضع کرے، تاکہ فنڈز کی بروقت دستیابی کو ممکن بنایا جاسکے۔
واضح رہے کہ حکومت کو شدید مالی مشکلات کا سامنا ہے اور حکومت کے پاس پہلے سے موجود سکیموں کو فنڈز دینے کے مناسب وسائل نہیں ہیں، پہلے سے منظور شدہ سکیموں کو مکمل کرنے کیلیے 9.8 ہزار ارب روپے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔
0 45 3 minutes read