
سعودی عرب اور ایران آپس میں پڑوسی ہیں اوردونوں مذہبی لحاظ سے اسلامی ریاستیں ہیں.چاہیے تو یہ تھا کہ ان کےآپس میں دوستانہ تعلقات ہوتے,لیکن ان میں اختلافات پائیجاتے ہیں۔اختلافات کی بہت سی وجوہات ہو سکتی ہیں لیکن سب سے بڑی وجہ فقہی اختلاف ہے۔سعودی عرب ایک سنی ریاست ہے اورایران شیعہ نیزممکن ہے سیاسی لحاظ سے بھی اختلاف موجود ہوں۔ان کے اختلافات کا فائدہ امریکہ اور کچھ دوسرے ممالک اٹھا رہے ہیں.سعودی عرب کوایران سے ڈرا کرتیل جیسی دولت سیفائدہ اٹھایا جا رہا ہے.یہ دو ریاستیں اسلامی دنیا میں ایک اہم مقام رکھتی ہیں اور دونوں ریاستوں کیحامی پائے جاتے ہیں.شیعہ کمیونٹی ایران کو ترجیح دیتی ہے اور سنی سعودی عرب کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں.یہ اختلافات اسلامی دنیا کو نقصان پہنچا رہے ہیں.ان اختلافات کو ختم کرنے کی کوشش ہی نہیں کی گئی یا کوشش کی گئی ہے تو مخالفین نے اس کوشش کو پائیہ تکمیل تک پہنچنے ہی نہیں دیا.یہ اختلافات بعض اوقات شدت اختیار کر لیتے ہیں.تقریباکچھ عرصہ قبل سعودی عرب کی تیل کمپنی آرامکو کی تنصیبات پر حملہ کر دیا گیا تھااور اس کا الزام سعودی عرب نے ایران پر لگا دیا تھا.سعودی عرب اس بات کا دعوے دار تھا کہ ایران نے حملہ کیا ہیاور اس حملیسے کافی نقصان پہنچا،ایران اس بات سے انکاری تھا کہ اس نے حملہ کیا.اس بات کا خدشہ پیدا ہو گیا تھا کہ کہیں جنگ نہ چھڑ جائے.ان ممالک کی جنگ خطے کی تاریخ ہی تبدیل کر دیتی اوراس میں کافی خون بہنے کیعلاوہ کافی بھاری نقصان ہوتا.فضل خدا جنگ تو نہ چھڑی لیکن تعلقات خراب ہوتے گئے.ان حالات میں کچھ عرصہ بعدچین کی کوششوں سے سعودی عرب اور ایران کیدرمیان کچھ تعلقات بحال ہوئے۔تعلقات کی بحالی کو امن پسندوں نے کافی پسند کیا اور اسلامی دنیا میں بھی خوشگوار حیرت دوڑ گئی.توقع ہو گئی تھی کہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان جمی برف پگھل رہی ہیاور کچھ عرصہ کے بعد تعلقات بہتر پوزیشن پرآجائیں گے۔تعلقات اس سٹیج پر تو نہ پہنچے جن کی توقع تھی مگرخراب بھی نہ ہوئے. ایران اور سعودی عرب کے بہتر تعلقات صرف ان دونوں ممالک کی بہتری کے لیے نہیں بلکہ عالم اسلام میں بھی بہتری پیدا کر سکتے ہیں.ان دونوں ممالک کے محبان ان کی بات تسلیم کر لیتے ہیں،اس طرح تفرقہ بازی پرکچھ قابو پانے میں مدد مل سکتی ہے۔فرقہ وارانہ اختلافات کوبھلا کرآگے بڑھا جا سکتا ہے. ان تعلقات کو امریکہ ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں کر سکتا۔امریکہ ایران کیتعلقات صرف سعودی عرب سے ہی خوشگوار نہیں دیکھنا چاہتا،بلکہ دوسرے ممالک کو بھی تنبیہ کرتا رہتا ہے.ایران کو عالمی پابندیاں مضبوطی کی طرف بڑھنے نہیں دے رہی ہیں اور ایران کے ان حالات کا ذمہ دار امریکہ ہے،کچھ اتحادی ممالک بھی ایران کی اس حالت کے ذمہ دار ہیں۔امریکہ جس طرح چاہتا ہے کہ ایران کے تعلقات بشمول سعودی عرب،کسی کے ساتھ بھی بہتر نہ رہیں،چین کی کوشش ہے کہ امریکی اثرورسوخ ختم ہو جائے اور ایران کیتعلقات سعودی عرب سمیت دوسریممالک کے ساتھ بہتر ہو جائیں۔ایران کو اسرائیل بھی خطرہ سمجھتا ہیاور چاہتا ہے کہ ایران ختم ہو جائے یا اتنا کمزور ہو جائے کہ اسرائیل کے لیے خطرہ نہ بن سکیاور اسرائیل کے دبا پر امریکہ دشمنی میں مزید شدت لےآتا ہے۔سعودی عرب اور ایران کے تعلقات خطے میں خوشگوار تبدیلی لانے کا سبب بن سکتے ہیں.یہ دو ممالک مزید ممالک کے ساتھ مل کرایک یونین/ بلاک بنا سکتے ہیں۔پاکستان،چین،روس،سعودی عرب،ایران اورکچھ دوسرے ممالک مل کر ایک مشترکہ یونین بنا لیں تو خطے میں امریکی اثرو رسوخ ختم ہو سکتا ہے.امریکی اثرورسوخ کے خاتمے کا مطلب ہوگا کہ خطے میں مثبت تبدیلی آگئی ہے.سعودی عرب کیالزامات ہیں کہ ایران سعودی عرب مخالف گروہوں کو سپورٹ کرتا ہے.اگر سعودی عرب کے ان الزامات میں حقیقت ہے تو ایران کو اس قسم کی سرگرمی سے بازآجانا چاہیے.اگر سعودی عرب کسی ایسی منفی سرگرمی میں ملوث ہے تو سعودی عرب کو بھی اپنا قبلہ درست کر لینا چاہیے.یہ ممالک اپنے ساتھ دوسرے ممالک کوملاکرخطے کی بہتری کے لیے جدوجہد کر سکتے ہیں۔چھوٹے موٹے معاملات چلتے رہتے ہیں اور ایسے معاملات کا حل ہمیشہ جنگ نہیں ہوتا بلکہ مذاکرات کے ذریعے بھی ان کو حل کیا جا سکتا ہے۔چھوٹے معاملات ہی نہیں،بڑے معاملات کو بھی مذاکرات کے ذریعے حل کیا جا سکتا ہے.ایران کا سب سے بڑا مسئلہ بین الاقوامی پابندیاں ہیں۔ان پابندیوں کوایران پر ختم کرنے کے لیے سعودی عرب اہم کردار ادا کر سکتا ہے.سعودی عرب خود بھی تعلقات بڑھا سکتا ہے اور دوسرے ممالک سے بھی تعلقات بہتر بنانے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہینیز چین کی حمایت بھی مل سکتی ہے. چین کی ٹیکنالوجی میں ترقی کا فائدہ ایران سمیت سعودی عرب اٹھا سکتے ہیں.کعبہ اور روضہ رسول ہونے کی وجہ سے اسلامی دنیا میں سعودی عرب کو ایک اہم مقام حاصل ہیاور اسی وجہ سے دنیا بھر کے مسلمان سعودی عرب کو اچھی نگاہ سے دیکھتے ہیں.معاشی طورپر تیل کی دولت سے مالا مال سعودی عرب امت مسلمہ کو اکٹھا کر سکتا ہے.یہ اتحاد امت مسلمہ کو عروج پر پہنچا سکتا ہے۔امت مسلمہ میں بڑھتے اختلافات نے غیروں کو موقع دے دیا ہیکہ وہ فائدہ اٹھائیں۔کہیں جنگ چھیڑ دی گئی ہے،کہیں جمہوریت کے نام پرمسلمانوں پر قابو پایا جا رہا ہے،کہیں قرضوں کے جال میں جکڑا جا رہا ہیاور کہیں ڈرا کروسائل لوٹے جا رہے ہیں۔ان مسائل پر قابو پایا جا سکتا ہے اگر اتفاق ہو جائے.تمام اسلامی ممالک مل کرایک نئی تاریخ بنا سکتے ہیں اوراس اتحاد میں غیر مسلم بھی شامل ہو سکتے ہیں جواسلامی اتحاد کی پالیسیوں سیاختلاف نہ کریں.پاکستان سعودی عرب اور ایران کو ایک میز پر لا سکتا ہے.پاکستان کے دونوں ممالک کے ساتھ خاصے خوشگوار تعلقات ہیں اور ان تعلقات کی بدولت ایک ممکنہ تبدیلی لائی جا سکتی ہے.پاکستان کے پاس ایٹمی قوت ہونے کی وجہ سے دنیا میں اس کی خاص اہمیت ہے.یہ تینوں ملک مل کردنیا میں ایک انقلابی تبدیلی لا سکتے ہیں.تبدیلی تب لائی جا سکتی ہے جب یہ ملک مسئلے کے حل کے لیے سنجیدہ ہوں.ایران کیتعلقات پاکستان کے ساتھ تو بہتر ہیں اور سعودی عرب کے ساتھ مزید بہتر بنائے جا سکتے ہیں.تعلقات عملی طور پر بھی نظرآنے چاہیے،صرف لفظی طور پر نہ ہوں.اگرسعودی عرب ایران سے خطرہ محسوس کرتا ہیتو ایران کو چاہیے کہ سعودی عرب کے شکوے دور کرے.سعودی عرب کو بھی چاہیے کہ خود کو مضبوط کرے۔سعودی عرب بھی نام نہاد دشمنی کا چولا اتار پھینکے۔اب زیادہ دیر نہیں کرنی چاہیے کیونکہ پہلے بھی کافی نقصان ہو چکا ہے.