کالم

ملک سے فرار کی بجائے، اپنے حصے کی شمع جلائیں

ہمارے ملک کا ایک بڑا طبقہ نوجوانوں پر مشتمل ہے لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ ان میں سے اکثر نوجوان مایوسی اور بے یقینی کا شکار ہیں، اس مایوسی اور بے یقینی کی وجہ یہ ہے کہ ملک کے سیاسی و معاشی حالات نہایت ابتر ہیں، ملک میں وسائل نہیں ہیں یا وسائل ہیں تو انہیں درست طریقے سے کام میں لانے والے نہیں ہیں اور اگر لانے والے ہیں تو انہیں موقع نہیں فراہم کی جا رہا کہ وہ ان وسائل کو کام میں لا کر ملکی ترقی میں اپنا حصہ ڈالیں۔ نوجوان بڑی بڑی ڈگریاں لیے پھر رہے ہیں لیکن روزگار کے مواقع نہیں ہیں۔ اوپر سے سیاسی حالات روز بروز ابتر ہوتے جا رہے ہیں اور ہر گزرتے دن کے ساتھ سیاستدانوں اور نام نہاد قومی رہنماؤں کی نااہلیاں بڑھتی جا رہی ہیں ایسے ہی ہر آنے والا سیاستدان گزر جانے والوں سے زیادہ ہی غیر سنجیدہ اور مطلب پرست ہے ۔ یہ تمام عناصر ملکی معیشت کی مضبوطی میں بہت بڑی رکاوٹ ہیں۔ان وجوہات کی بنا پر نوجوان پریشان اور مایوس ہیں اور ملک چھوڑ کر فرار ہو جانا چاہتے ہیں لیکن کوئی راستہ سجھائی نہیں دیتا۔ اگر ملک چھوڑ جانا آسان ہوتا تو یقینا ملک میں چند ایک نوجوان ہی رہ جاتے ۔ یہ بہت بڑا المیہ ہے اور ارباب فکر و نظر کے لیے مقام فکر ہے ۔میرے پاس اکیڈمی میں کئی نوجوان مختلف کورسز کے لیے آتے ہیں جن میں سے اکثر کو یہ کہتے ہوئے سنا گیا ہے کہ کسی طرح باہر چلے جائیں ، کچھ کہتے ہیں اس ملک میں کچھ نہیں ہے ان نوجوانوں کی زندگی کا ایک بڑا خواب ہے کہ جیسے تیسے ملک چھوڑیں اور بیرون ملک میں پناہ لے لیں۔ اس میں غلطی ہمارے نظام کی بھی ہے اور معاشرے کی بھی کہ ایک تو ان نوجوانوں کو ترغیب نہیں دی جاتی کہ آپ اس ملک کا حصہ ہیں اگر ملک کے حالات ٹھیک نہیں ہیں تو انہیںآپ نے کس طرح ٹھیک کرنا ہے ؟ آپ کی کیا ذمہ داریاں ہیں ، آپ اس ملک کی ترقی میں کس طرح اپنا حصہ ڈال سکتے ہیں؟ ملک کو چھوڑ کر بھاگنا تو کوئی حل نہیں ہے بلکہ ہر شخص کو چاہیے کہ اپنے حصے کی شمع جلائے تبھی اجالے ہوں گے۔ مگر نوجوانوں کی درست رہنمائی اور تربیت نہ ہونے کی وجہ سے وہ ملک سے فرار چاہتے ہیں جس کی وجہ سے وہ ملک میں رہتے ہوئے کوئی کام کاج نہیں کرتے بلکہ ہر وقت بیرون ملک مقیم ہونے کی ہی سوچتے رہتے ہیں۔اتنی بڑی تعداد میں نوجوانوں کا کسی ملک کو چھوڑ جانا لمحہ فکریہ ہے کیونکہ ملک میں باصلاحیت نوجوان نہیں رہیں گے تو ملک ترقی کیسے کرے گا ؟باصلاحیت نوجوانوں کے لیے ہمارے ملک میں مواقع نہیں ہیں جس کی وجہ سے وہ دل برداشتہ ہو کر دیگر ممالک جہاں انہیں ترقی کے مواقع نظر آتے ہیں وہاں کوچ کر جاتے ہیں اور ان ممالک کے لیے اپنی صلاحیتوں کو وقف کر دیتے ہیں لیکن جس ملک نے انہیں پالا پوسا جس ملک نے انہیں صلاحیتیں دیں جہاں انہوں نے تعلیم حاصل کی اس ملک کے لیے وہ کچھ نہیں کر پاتے۔ قوموں کی تنزلی اور زوال کی یہ ایک بہت بڑی نشانی اور ان کے لیے خطرے کی گھنٹی ہوا کرتی ہے اور ہمارے لیے بھی یہ بہت بڑی خطرے کی گھنٹی ہے کہ ہم اگر اس صورتحال پر قابو نہیں پاتے اور نوجوان اسی طرح ملک کو چھوڑ کر جانے کے چکر میں ہوں گے تو ملک کیسے ترقی کرے گا؟ ہمارے ملک کی صورتحال تو ایسی ہے کہ دیگر ممالک سے تو کوئی یہاں پر اپنی خدمات فراہم کرنے کے لیے نہیں آئے گا ۔ اس لیے ہمیں کوشش کرنی ہے کہ اپنے ملک کے اندر جو باصلاحیت نوجوان ہیں کم از کم انہیں بہترین مواقع فراہم کریں تاکہ وہ ملکی ترقی کے میں اپنا کردار ادا کریں اور اپنی صلاحیتوں کو اپنے ملک کے لیے استعمال کریں۔اس مسئلے کو حل کرنا حکومت اور عوام دونوں کی ذمہ داری ہے ۔ عوام کی ذمہ داری یہ ہے کہ نوجوان اپنے ملک کے لیے اپنی صلاحیتیں وقف کرنے کی حتی الامکان کوشش کریں چاہے آمدن کچھ کم ہی کیوں نہ ہو کیونکہ اگر ہم اپنے ملک کا مستقبل سنوارنا چاہتے ہیں تو ہمیں کچھ قربانیاں تو دینی پڑیں گی ۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ملک کا مستقبل بھی بہتر ہو اور ہمیں قربانیاں بھی نہ دینی پڑیں تو ایسا نہیں ہو سکتا ۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے بیرون ممالک کی بہترین اور پرکشش تنخواہوں اور مراعات کو ٹھکرایا صرف اس لیے کہ وہ اپنے ملک کے لیے کچھ کرنا چاہتے تھے وہ جانتے تھے کہ ملک میں انہیں کس قدر مسائل کا سامنا ہو گا اور یہاں پہلے سے بیٹھے کرپٹ افسران ان کے راستے میں کس قدر رکاوٹیں پیدا کریں گے اس کے باوجود انہوں نے ملک کے لیے سب کچھ برداشت کیا جس کا نتیجہ یہ نکلاکہ ملک ایٹمی قوت بن گیا اور وہ محسن پاکستان کے طور پر ہمارے دلوں میں زندہ ہیں اور ہمیشہ رہیں گے۔ لہٰذا ملک کے لیے کچھ کرنا ہے تو اس کے لیے ہمیں بھی قربانیاں دینی ہوں گی جن کے بعد یہ ملک ترقی کرے گا محض کوسنے یا فرار اختیار کرنے سے حالات سدھرنے والے نہیں ہیں۔اس کے علاوہ زیادہ ذمہ داری حکمرانوں پر عائد ہوتی ہے کہ وہ پہلے تو تعلیمی نظام کو درست کریں اور تعلیمی نظام ایسا بنائیں جو نوجوانوں کو صرف رٹا لگوانے کی بجائے انہیں ہنر مند بنائے اور ان کی صلاحیتوں کو نکھارنے کے قابل ہو ۔ اس کے بعد نوجوانوں کو ملک کے اندر ہی روزگار کے بہترین مواقع فراہم کریں تاکہ وہ اپنے ملک کے اندر رہتے ہوئے اس ملک کو ترقی دے سکیں اور اپنی صلاحیتوں کو اپنے ملک کے لیے ہی استعمال کریں نہ کہ بیرون ممالک میں جا کر ترقی یافتہ ممالک کو مزید تقویت پہنچائیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button