کالم

کالی بھیڑیں اور کھوٹے سکے

کالی بھیڑیں اور کھوٹے سکے قیام پاکستان سے ہی اسکی جڑوں میں بیٹھے ہوئے ہیں کالی بھیڑوں سے مراد وہ نہیں جنکی طرف وزیر اعظم نے اشارہ کیا ہے بلکہ ہمارے ہاں کالی بھیڑیں وہ ہیں جنہوں نے پاکستان کی ترقی کی راہ میں روڈے اٹکائے جنہوں نے اچھے خاصے پاکستان کا بیڑہ غرق کردیا بلکہ ترقی کے اس پہیے کو الٹا گھمانا شروع کردیا جو ایوب خان دور تک بڑی تیزی سے اپنی منزل کی طرف جا رہا تھا رہی بات ہماری عدالتوں کی میں سمجھتا ہوں کہ اس وقت یہی ایک ادارہ ہے جس نے ملک کو بچا کررکھا ہوا ورنہ تواس وقت کوئی ادارہ اپنا کام درست کررہا ہے اور نہ ہی کوئی سیاستدان ہر طرف وعدوں کا ایک لالی پاپ ہے جو 25کروڑ عوام کو دیا جارہا ہے ہمارے پاس اصل کالی بھیڑیںتو پولیس میں ہیں جنکی غنڈہ گردی اور بدمعاشی سے جرائم ختم ہونے کی بجائے بڑھتے ہی جاتے ہیں جس ادارے میں خود چور بیٹھے ہو وہاں سے خیر کی توقع کیا رکھی جاسکتی ہے آپ کسی بھی پولیس لائن میں چلے جائیں کسی بھی تھانے کے اس رہائشی علاقے میں چلے جائیں جہاں پولیس کے شیر جوان رہتے ہیں وہاں انکے صندوق کے تالے ٹوڑ کر اپنے پیٹی بھائیوں کا سامان چوری ہونا معمول کی بات ہے ہماری صرف پولیس میں ہی اتنی کالی بھیڑیں ہیں جنکی وجہ سے معاشرہ تباہ ہورہا ہے اور انکی سرپرستی ہمارے حکمران کرتے ہیں رہی بات کھوٹے سکوں کی جو ہر محکمہ میں پوری تندہی سے ملک کی جڑیں کھوکھلی کرنی میں مصروف ہیں بانی پاکستان حضرت قائد اعظم نے ملک حاصل کرنے بعد، زیارت میں تیمارداری کے لئے آئے ہوئے مسلم لیگی وفد کے بارے میں اپنی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح کو بصد افسوس کہا تھا کہ یہ کھوٹے سکے ہیں۔ جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ انگریز کے خادم خاص،مخبر اور وفا دار تھے جنہیں انگریز نے تقسیم ہند کے وقت چار صوبے میںبے شمار اراضی سے نوازا تھا انہیں خطابات بھی دیئے گئے اور ان پر طرح طرح کی دیگر نوازشات بھی کی گئی تھیں اس وقت برصغیر کی فوج کا ایک حصہ، بیوروکریسی کی مختصر سی تعداد بھی پاکستان کو ملی تھی لاہور ہائی کورٹ کا ڈھانچہ بھی وطن عزیز کے حصے میں جوڈیشل سیٹ اپ کے طور پر دیا گیا تھا قائد اعظم نے کس ادارے یا گروہ کو کھوٹے سکے کہا تھا؟ شاید انہوں نے کسی کو بتایا ہوگا تاہم ملک کے قیام کے بعد انہیں مشورہ دیا گیا کہ ملحقہ ریاست کشمیرپر قبضہ کیا جائے جس پر اس وقت کے چیف آف آرمی سٹاف جنرل گریسی نے اتفاق نہ کیا مگر پاکستان نے کشمیر کے ایک حصے میں قبضہ کر لیا جس پر تنازعہ کشمیر پیدا ہوا اور اقوام متحدہ میں بھی گیا لیکن آج تک زیر غور چلا آ رہا ہے جب پاکستان بن گیا تو محسن قوم شدید علیل ہوگئے اور ہسپتال جاتے ہوئے سرکاری گاڑی میں خرابی کے باعث انتقال کر گئے ابھی ان کا کفن میلا نہیں ہوا تھا کہ ایک سویلین وزیری اعظم لیاقت علی خان کو سرِ عام جلسے میں قتل کر دیا گیا دونوں سانحات پرہمارے ادارے آج تک بے بس اور خاموش ہیں انکی وفات کے بعد ملک پر حکومتی سرکل چلنے لگا۔ کبھی بیوروکریٹس کبھی سویلین، کبھی فوجی اور کبھی ملک آئین کے بغیر چلتا رہااسی دوران الیکشن ہوئے قائد اعظم کے ساتھ اور قیام پاکستان کی بنیاد رکھنے والے مسلم لیگ کے کارکن شیخ مجیب الرحمن واضح اکثریت سے جیت گئے لیکن اقتدار کے پجاریوں نے اسے اقتدار حوالے کرنے کی بجائے ملک دو ٹکڑو ں میں تقسیم کرکے اقتدار بھٹو کے حوالے کردیا بعد میں اس عظیم سانحہ پر حمود الرحمن کمیشن بنا جسکی رپورٹ آج تک نہیں آئی جب بھٹو اپنے پورے جوبن پر تھا اور تو پھر 1977ء میں ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف منظم تحریک چلا کر اس کے اقتدار کو ختم کیا گیا ملک کی دائیں بازو کی سیاسی قوتوں، فوج اور عدلیہ کو اس کے خلاف استعمال کیا گیا اور پھر ضیائی مارشل لاء لگ گیا 1985ء میں غیر جماعتی بنیادوں پر ملک میں انتخابات کرا کر ایک نئی غیر سیاسی صف بندی کی گئی ان انتخابات نے ملکی قیادت کو سیاست کی بجائے برادری، گروہ اور پیسے کی بنیاد پر الیکشن جیتنے کی رسم متعارف کرائی جسے بعد ازاں سیاسی پارٹیوں نے بھی اختیار کیا جسکے بعد الیکٹبیل کی سیاست الگ ہوگئی اور کھجل خواری والی سیاست الگ ہوگئی الیکشن کے اخراجات کروڑوں روپے تک پہنچ گئے اور آج یہ الیکشن بڑے بزنس /انڈسٹری کی شکل اختیار کر گیا ہے عام ووٹرز سے پارلیمنٹیرین تک کی فروخت سرعام کسی جنس اور جانوروں کی طرح ہوتی ہے اور کسی حد تک مروجہ قانونی شکل اختیار کر گئی ہے ضیاء الحق کے بعد ملک میں دو بڑی جماعتوں نے عنان سیاست سنبھالی ایک پارٹی ذوالفقار علی بھٹو کے مشن کی تکمیل کی دعویدار تھی جبکہ دوسری ضیاء الحق کے مشن کی ایک ملک میں سیاسی جمہوری عمل کی دعویدار تھی جبکہ دوسری ذاتی، گروہی سیاستدانوں پر مشتمل تھی۔ دونوں کے اقتدار کا کھیل پہلے فیز میں 1999ء تک چلتا رہا جب ملک ایک دفعہ پھر مارشل لاء کی زد میں آگیا اور 2002ء میں فوجی حکمران نے مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کے ایک دھڑے کو ساتھ ملا کر ایک حکومت قائم کر دی مگر دونوں بڑی پارٹیوں نے مل کر 2008ء کے انتخابات میں حکومتی قبضہ واپس لے لیا اور اقتدار کی کرسی دونوں جماعتوں کے گھر پھر گھومنے لگی 2018ء کے انتخابات میں 1996ء میں معرض وجود میں آنے والی عمران خان کی قیادت میں ایک نئی سیاسی پارٹی پاکستان تحریک انصاف نے انہیں شکست دے کر حکومت حاصل کر لی۔ مگر اس کے خلاف روزِ اول سے ہی دونوں بڑی پارٹیوں نے مل کر جدوجہد شروع کر دی اندرونی اور بیرونی سازشوں نے عمران خان کو حکومت نہ کرنے دی بلکہ رہی سہی کسر کرونا نے پوری کردی اور پھر آخر کارمولانا فضل الرحمن کی قیادت میں پی ڈی ایم نے نہ صرف اقتدار مشترکہ طور پر حاصل کر لیا ہے بلکہ اپنی مشترکہ مخالف پارٹی کو میدان سے ہی نکال دیا ور پورا الیکشن دونوں جماعتوں کے درمیان ہوا اور دونوں نے دوسری اور تیسری پوزیشن حاصل کر لی یہ الگ بحث ہے کہ عوام کی اکثریت نے ان پارٹیوں کا ساتھ نہیں دیا۔ 1985ء سے سلطنت کے ستون انتہائی متنازعہ چلے آرہے ہیں۔ الیکشن کمیشن 1977-85 سے اب تک ایک الیکشن بھی ایسا نہیں کروا سکا جس پر انگلی نہ اٹھائی جا سکے۔ کئی بار تو تمام سیاسی جماعتوں نے الیکشن جانبدار، غیر شفاف اور دھاندلی زدہ قرار دیا ہے جیسا اب 2024ء میں ہوا مختلف ملکی غیر ملکی شخصیتوں، اداروں، بین الاقوامی فورمز اور بڑے ملکوں نے بھی الیکشن کو متنازعہ اور غیر شفاف قرار دیا ہے مگر ہمارے ادارے آنکھیں بند کرکے سنی ان سنی کر رہے ہیں جسکے کے بعدملکی تاریخ کی سب سے بڑی متنازعہ حکومت قائم ہوگئی ہے جس نے الیکشن کمیشن، افسرشاہی کے ساتھ ساتھ انتظامیہ اور عدلیہ کے کردار پر بھی بڑے بڑے بدنما داغ لگا دیئے ہیں اور ان کی جانبداری زبان زد عام ہے ایک کروڑ سے زائد بیرون ملک مقیم ووٹرز سے حق رائے دہی چھین لیا گیا ہے اس خدشے کے تحت کہ یہ ووٹ ایک مخصوص پارٹی کو نہ مل جائے اگر دیکھا جائے تو ہمارے ہاں کالی بھیڑیں اور کھوٹے سکے اصل میں وہی لو ہیں جو عوام سے انکا حق حاکمیت چھین کر کسی اور کی جھولی میں ڈال رہے ہیں اگر ہماری عدالتیں آزاد نہ ہوتی تو آج ملک میں اتنا بھی قانون نہ ہوتا جو تھوڑا بہت بچا ہوا ہے ان حالات کو دیکھتے ہوئے اس وقت ہر شخص کے ذہن میں ایک جیسے ہی سوالات ہیں کہ کیا ملک میں کبھی حقیقی جمہوریت آئے گی؟ کیا ملک میں کبھی شفاف، غیر جانبدار اور منصفانہ انتخابات ہوںگے؟ کیا کبھی سیاسی فیصلے منصفانہ ہوں گے؟ کیا کبھی فیصلے کا اختیار عام اور ووٹرز کو ملے گا؟ کیا کبھی خفیہ ہاتھ ملک کے اقتدار کے فیصلہ سے دستبردار ہوں گے جو اب تو تقریباً ننگے ہو چکے ہیں اورخاصے بدنام بھی ہو گئے ہیں؟ کہیں یہی تو وہ کھوٹے سکے نہیں جن کا ذکر قائد اعظم نے کیا تھا؟ کیا کبھی ان کھوٹے سکوں سے ملک کی جان چھوٹے گی؟ پا کیا ہم پر آج بھی کھوٹے سکے مسلط ہیں؟کیا ہمیں ان کھوٹے سکوں سے نجات کیلئے فرانس، سری لنکا جیسی جدوجہد کرنا ہوگی؟میں تو عام شہری ہوں مجھے کیا معلوم؟ شاید کوئی دانشور بتا دے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button