مئی 1998 کے دن بھی کیا عجیب دن تھے کہ پوری قوم ایک ہی طرح کے جذبوں اور ولولوں سے سر شار تھی کہ ہم نے بھارت کے ایٹمی دھماکوں کا ہر صورت جواب دینا ہے اور اس کے لیے بڑی سے بڑی قربان دینے سے دریغ نہیں کیا جائے گا۔ اسی جوش و جذبے کے عالم میں 28 مئی 1998کا دن آن پہنچا کہ جسے ہماری قومی تاریخ میں ایک یادگار دن کا درجہ ملنے والا تھا کہ اس دن کی سہ پہر 3 بج کر 13 منٹ پر ہم نے چاغی کی پہاڑیوں میں 7 کامیاب ایٹمی دھماکے کر کے دنیا کے سامنے نہ صرف باضابطہ طور پر اپنی ایٹمی صلاحیت کا ثبوت مہیا کر دیا بلکہ اپنے ازلی اور ابدی دشمن بھارت کو بھی یہ باور کرانے میں کامیاب رہے کہ پاکستان اس کے مقابلے میں برتر ایٹمی صلاحیت کا مالک ہے۔بھارت 13 مئی 1998 کو پوکھران (راجستھان) میں ایٹمی دھماکے کرنے کے بعد اپنی کامیابی پر پھولے نہیں سما رہا تھا۔ اس کے تنگ نظر رہنما اور حکومتی عہدیدار پاکستان کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی دھمکیاں دے رہے تھے۔ پاکستان کی ایٹمی صلاحیت کے بارے میں انگلیاں اٹھ رہی تھیں۔ وزیرِ اعظم نواز شریف کی حکومت پر اندرونی طور پر بڑا دبا تھا کہ وہ ایٹمی دھماکوں کا فیصلہ کر کے بھارت کو منہ توڑ جواب دیں۔ عالمی رائے عامہ، جاپان سمیت G-8 ممالک، یورپی یونین اور امریکہ برطانیہ وغیرہ پاکستان کی طرف سے ایٹمی دھماکے کرنے کے سخت مخالف تھے۔ پاکستان کو دھماکوں سے روکنے کے لیے ترغیب، تحریص اور دبا کے سبھی حربے آزمائے جا رہے تھے۔ امریکی صدر بل کلنٹن بذاتِ خود وزیرِ اعظم نواز شریف پر دھماکے نہ کرنے کے لیے دبا ڈال رہا تھا۔ بل کلنٹن کی طرف سے دھماکے نہ کرنے کی صورت میں اربوں ڈالر امداد کی پیشکش، بصورتِ دیگر اقتصادی پابندیاں لگانے کے ہر دو آپشن موجود تھے۔ غرضیکہ یہ ایک بڑا نازک اور مشکل وقت تھا۔وزیرِ اعظم نواز شریف نے دھماکے کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں فیصلہ کرنا تھا۔ میاں صاحب نے مشورے کے لیے اخبارات کے مدیران اور سینئر صحافیوں کا اجلاس بھی بلایا۔ اس موقع پر نوائے وقت کے چیف ایڈیٹر مرحوم مجید نظامی نے میاں نواز شریف کے استفسار پر انہیں جواب دیا کہ میاں صاحب ایٹمی دھماکے کریں ورنہ قوم آپ کا دھماکہ کر دے گی۔ اور پھر 28 مئی 1998 کا دن آن پہنچا جب سہ پہر کے 3:13 منٹ پر چاغی کی پہاڑیوں کا رنگ بدلنا شروع ہوا۔ پاکستان سات کامیاب ایٹمی دھماکے کر چکا تھا۔ زیرِ زمین دھماکوں کے نتیجے میں بے پناہ توانائی اور حرارت کے اخراج سے پہاڑیوں کا رنگ پہلے کالا، پھر سرخی مائل اور آخر میں سفید ہو گیا۔حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام پاکستانیوں کے لیے ہمیشہ سے ایک رومانس کی حیثیت اختیار کیے رہا ہے اور وہ اس کے لیے اپنا تن من دھن سب کچھ قربان کرنے کے لیے ہمیشہ تیار رہے ہیں۔ اس کے لیے انہیں بے پناہ مصائب، مشکلات، رکاوٹوں اور دھمکیوں کا سامنا ہی نہیں کرنا پڑتا رہا ہے بلکہ اس پروگرام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے کئی برس تک لگاتار اور پیہم کوششیں اور جدوجہد بھی کرنا پڑی۔ کہوٹہ ریسرچ لیبارٹریز میں محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی زیرِ سرکردگی ہمارے سائنسدانوں اور ایٹمی ماہرین کی کوششیں بار آور ہوئیں اور 1984کے وسط تک ہم مطلوبہ معیار تک یورینئم کی افزودگی حاصل کرنے اور اسے ایٹم بم بنانے میں استعمال کرنے کے قابل ہو گئے۔ دنیا کو ہماری ان کوششوں اور ایٹمی صلاحیت حاصل کرنے کی لگن کا پورا علم تھا۔ سچی بات ہے ہم مانگ کر، چھین کر، چرا کر، خرید کر ہر صورت میں ایٹمی صلاحیت حاصل کرنے کے لیے مطلوبہ انفراسٹرکچر اور ہائی ٹیکنالوجی کے حامل پرزہ جات اور دیگر ساز و سامان مہیا کرنے کے مشن پر گامزن تھے۔ ہمیں اس مشن سے روکنے میں کوئی دھمکی، کوئی ترغیب اور کوئی تحریص کارگر ثابت نہیں ہو رہی تھی۔ بلاشبہ اس میں ہمارے ایٹمی سائنسدانوں سے لے کر ہماری سول اور عسکری قومی قیادت اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے ممتاز افراد سے لے کر پوری قوم کی ہمت، جرت، دلیری، عزم اور ایٹمی صلاحیت حاصل کرنے کا جنون اور یقین سب کچھ شامل تھا۔یہ درست ہے کہ پاکستان ایٹمی صلاحیت حاصل کرنے کے مشن پر گامزن تھا تو اسے قدم قدم پر رکاوٹوں، مخالفتوں اور دشمنوں کی سازشوں کا سامنا تھا۔ امریکہ سمیت عالمی طاقتیں پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی سخت مخالف تھیں تو بھارت اسرائیل کے ساتھ مل کر پاکستان کے ایٹمی پروگرام اور اس کے مرکز کہوٹہ کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے لیے پر تولتا رہا۔ ایسی اطلاعات بھی سامنے آتی رہیں کہ بھارت نے اسرائیلی طیاروں کی مدد سے کہوٹہ پر حملہ آور ہونے کی تیاری کر رکھی ہے۔ اسرائیلی طیاروں اور ہوا بازوں کی سری نگر پہنچنے کی خبریں بھی چھپتی رہیں لیکن ہمارے مضبوط دفاعی نظام اور ایٹمی پروگرام سے ہماری لازوال کمٹمنٹ کی بنا پر ایسا کچھ نہ ہوا۔یہاں اس حقیقت کا اظہارکرنا ضروری ہے کہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے متعلقہ ذمہ دار شخصیات، اداروں، حکومتی زعما اور مسلح افواج کے سربراہان نے اسے اپنے ایمان اور یقین کا حصہ سمجھ کر پروان چڑھایا اور اسکو کامیابی سے ہمکنار کیا۔ اکثر یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ ایک جمہوری وزیرِ اعظم نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھی اور دوسرے جمہوری وزیرِ اعظم نے دھماکے کر کے پاکستان کو ایٹمی قوت بنا دیا۔ یہ درست ہے کہ مرحوم ذوالفقار علی بھٹو کے دورِ حکومت 1975-76 میں کہوٹہ میں پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر پر جوش طریقے سے کام شروع ہوا۔ یہ بھی درست ہے کہ مئی 1998 میاں نواز شریف کے دورِ حکومت میں ایٹمی دھماکے ہوئے لیکن درمیان بھی بائیس، تیئس سال کیا ہوتا رہا۔ بھٹو کی حکومت تو جولائی 1977 میں ختم ہو گئی تھی۔ دنیا جانتی ہے کہ پاکستان نے 1984 تک ایٹم بم بنانے کی صلاحیت حاصل کر لی تھی اور اس کے کولڈ تجربات بھی کر لیے تھے۔ یہ جنرل ضیا الحق کا دور تھا۔ جنرل ضیا الحق ایک فوجی آمر اور غاصب سہی لیکن ماننا پڑے گا کہ اس نے بڑی ہمت، جرت، دلیری اور ثابت قدمی کے ساتھ ہر دبا کا مقابلہ کرتے ہوئے پاکستان کی ایٹمی صلاحیت کو کامیابی سے ہمکنار کیا۔ پھر غلام اسحاق خان جو ملک کے صدر رہے انہوں نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی دل و جان سے حفاظت کی۔ آرمی سربراہان جنرل مرزا اسلم بیگ، جنرل عبدالوحید کاکڑ و دیگر سمیت آئی ایس آئی کے سربراہان جن میں جنرل حمید گل کا نام سرفہرست ہے وغیرہ سبھی پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے اپنے اپنے ادوار میں پاسبان رہے اور قوم ان پر بجا طور پر فخر کر سکتی ہے۔
0 46 4 minutes read