کالم

لوڈشیڈنگ کی نعمت

قارئین محترم!میرے آج کے اداریے کا سٹائل ذرا ہٹ کہ ہے،اگر آپ کو اچھا لگے تو دو تین منٹ ہنس لینا بس میرا کالم لکھنے کا مدعا پورا ہو جائے گا۔اگر برا لگے تو صبر کر لینا کیونکہ اللہ صبر والوں کے ساتھ ہے۔اور اگر کوئی فیلنگس نہ ہوں تو شکر ادا کریں کہ اللہ نے آپ کو آگہی کے شعور سے محروم رکھا۔یہ شعور آگہی بھی بڑی قیامت خیز شے ہے۔جسے اللہ تعالیٰ عطا کر دے وہ بھی پریشان اور جسے اللہ نہ عطا کرے وہ معاشرے میں میری طرح للو سمجھا جاتا ہے۔بات ہو رہی تھی لوڈ شیڈنگ کی اس کے ان گنت فوائد ہیں۔انفوائد سے آپ کم حقہ مستفید ہو سکتے ہیں۔کیونکہ آپ بھی اس ملک کے باسی ہیں جہاں لوڈ شیڈنگ جیسی عظیم نعمت ہم سب کو میسر ہے۔اس کا ہلا فائدہ یہ ہے کہ اندھیرے کی وجہ سے بچے بلاوجہ کتابوں کے ساتھ دماغ کھپائی سے بچ جاتے ہیں۔دوسرا فائدہ کھانا کھاتے وقت نوالہ منہ اور ناک دونوں سے اندر ٹھونسا جا سکتا ہے۔تیسرا فائدہ یہ ہے کہ روشنیوں کی چکا چوند سے نظر خراب ہونے کا خدشہ رہتا ہے۔روشنی میسر ہی نہ ہو تو نہ نظر کی خرابی کی شکایت اور نہ ڈاکٹروں کی فیس بھرنے کا جھنجھٹ۔لوڈ شیڈنگ نئے نویلے شادی شدہ جوڑوں کے لئے کسی نعمت عظیم سے کم نہیں۔اس کی وضاحت میں نہیں کرتا کیونکہ آپ ماشاء اللہ سمجھدار ہیں۔ذرا سا موقع ملا تو میاں بیوی آنے والے وقت کے لئے منصوبہ ہائے جات مرتب کرتے ہیں۔اس کے علاوہ اس کے اور بھی بہت سے فائدے ہیں۔ خاوند بیچارہ چیختا رہتا ہے کہ مجھے ملک شیک پینا ہے لیکن لوڈشیڈنگ کے باعث اس کی یہ خواہش دل میں ہی دم توڑ جاتی ہے۔اس طرح وہ ملک شیک کا تصور پی کر گزارہ کر لیتا ہے۔اس طرح فروٹ کی بھی بچت اور بیوی کو بھی فرصت کے لمحات میسر آجاتے ہیں۔لوڈ شیڈنگ کے دوران نمازکی ادائیگی بھی بڑی عجیب ہوتی ہے۔ظالموں کو اتنا احساس بھی نہیں ہوتا کہ نمازی قبلہ رخ ہو کر نماز ادا کرتے ہیں اور اچانک لائٹ چلی جاتی ہے۔جب رکعت ختم ہوتی ہے تو منہ شمال کی طرف ہوتا ہے۔بعضاوقت سر کسی سخت چیز سے ٹکرا کر لہولہان بھی ہو جاتا ہے۔اور اگر زیادہ لوگ نماز ادا کر رہے ہوں تو کسی کا یر دوسرے کے کندھے پر اور کسی کا سر دوسرے کی پیٹھ ر جا ٹکراتا ہے۔اللہ ان لوڈ شیڈنگ کے ذمہ داران کو ہدایت فرمائے۔بعض اوقات لوڈ شیڈنگ میں جب اپنے چھوٹے بچے کو اٹھاتے ہیں،تو بوسہ دینے پر پتہ چلتا ہے کہ یہ تو محترمہ پالتو مانو بی ہیں۔ذرا سوچئیے اس وقت کا کیا عالم ہو گا۔گزشتہ روز کھانے کے ٹیبل پر حسب معمول بجلی چلی گئی۔راقم کو شدید پیاس لگی ہوئی تھی۔جب تک ٹارچ وغیرہ کا بندوبست ہوتا مجھ سے رہا نہ گیا۔میں نے جنگ سے ٹینگ کا گلاس بھرا اور سارا ڈکار گیا۔بعد میں جب دل کو کچھ کچھ ہونے لگا تو پتہ چلا کہ وہ ٹینگ نہیں تھا بلکہ سالن بنانے کے لئے گریبی گرائنڈر میں ڈال کر رکھی ہوئی تھی۔اس رات میں ساری رات واش روم میں استراحت کرتا رہا۔لگ رہا تھا کہ آنتیں ابل کہ باہر آنے والی ہیں۔اللہ کا کرم تھا کہ اس گریبی میں نمک مرچ ہی تھے ابھی مصالحے نہیں ڈالے گئے تھے۔ایک رات لود شیڈنگ کی دوران میرے ایک دوست نے چائے سمجھ کر چلی ساس کا سارا کوپ اندر انڈیل دیا۔بعد میں الٹیان کر کر کہ موصوف کی طبیعت بحال ہوئی۔وضو کے لئے میں نے سحری کے وقت پانی لیا اور وضو بنانے لگا۔جب منہ میں پانی ڈالا تو اس میں حشرات الارض کے بیشمار نمونے تھے۔شکر ہے کہ باتھ روم سے پہلے فارغ ہو کر آ گیا تھا۔ایک روز مجھے تیز بخار ہو گیا۔گھر والوں نے ذکام اور بخار کا دیسی علاج تجویز کیا۔اس وقت بھی لود شیڈنگ تھی۔نہ پوچھئے کیا گزری،مجھے انڈے بوائل کر کہ دئیے گئے۔میں نے پہلے انڈے کا خول اتارا اور نمک لگا کر نوش کرنے لگا۔کچھ ہی لمحے میں پتہ چلا کہ انڈا زائیگوٹ کے مراحل سے گزر کر ایمبریو تک پہنچ چکا ہے۔جس میں ننھا منا سا مرغا بھی تھا۔جس کی ہڈیاں ابھی سن بلوغت تک نہیں پہنچی تھیں۔مگر خون بکثرت موجود تھا۔اس کے بعد میں نے دیسی طریقہ علاج کو لوڈ شیڈنگ کے ساتھ نہ کرنے کا حتمی فیصلہ کر لیا۔ایک روز میرے ایک دوست قہوہ نوش فرما رہے تھے،اچانک لوڈشیدنگ ہو گئی۔دوست محترم نے قہوے کو منہ کے بجائے ناک میں گھسیڑ دیا۔اس کا نقصان یہ ہوا کہ میرے بیڈ،قالین،غالیچے جو میری بیگم نے بڑے شوق سے خرید فرمائے تھے،وہ سب کے سب قہوے سے تر بتر ہو گئے۔اس پر میری بیگم کی تیوریاں چڑھ گئیں۔مجھے شدید شرمندگی ہوئی۔اور دوست کے سامنے اچھی خاصی عزت افزائی بھی۔بھلا اس میں بتائئے میرا کیا قصور۔اے اس ملک کے حکمرانو رب کعبہ کا واسطہ جامع پالیسی بنا کر عوام کو لوڈ شیڈنگ کے عذاب سے نجات دلائو۔قومیں مریخ اور عطارد فتح کرنے کے چکر میں ہیں،اور آپ لوڈ شیڈنگ پر قابو نہیں پا سکتے۔اس حکمرانی کا کیا فائدہ؟؟اس سے بہتر ہے کہ آپ گھر جا کر اپنے بیوی بچوں کی خدمت کریں۔بوڑھے مان باپ کی دعائیں لیں۔کم از کم لوگوں کی بد دعائوں اورگالم گلوچ سے آپ کی خلاصی ہو جائے گی۔اللہ آپ کو لوڈ شیڈنگ کے عزاب سے ائر کنڈیشنر کمروں میں بیٹھ کر قابو پانے کی توفیق عطا فرمائے۔دنیا کے کسی بھی ملک میں اتنی لوڈ شیڈنگ نہیں ہوتی جتنی کہ ہمارے وطن عزیز میں۔لیکن اس پر قابو کون کرے؟وزرائ،مشیران فوج کی ظفر موج،اور بجلی کے اعلیٰ آفیسران تو گرمی میں ائیر کندیشنر کے مزے لوٹ ہو رہے ہوتے ہیں۔اور سردیوں میں ٥٠٠٠ واٹ کے ہیٹر سے اپنے بدن کو گرمی دے رہے ہوتے ہیں۔تا کہ وہ ملک کی خدمت کر سکیں۔ایسی صورتحال میں لوڈ شیڈنگ کا ملبہ یا اور کوئی مناسب لفظ ہو تو وہ لگا دیں،تو وہ بیچارے عوام پر ہی گرے گا۔دعا کریں ایک وقت آئے ان جعلی حکمرانوں کی ڈوریں عوام کے ہاتھ میں ہوں اور وہ انہیں ہانک ہانک کر گلی گلی پھیریں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button