آج دنیا میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کی بدولت تیزی سے آگے بڑھتی ہوئی ترقی کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ آئی ٹی کسی بھی ملک میں جدت، استعداد کار اور اقتصادی ترقی کے پیچھے ایک مضبوط قوت ہے۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان کی حالیہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستانی یونیورسٹیوں سے سالانہ تقریبا 25 ہزار گریجویٹ ہونے والے طلبا میں سے صرف 10فیصد ایسے ہیں جو مارکیٹ میں روزگار حاصل کرنے کی ضروری مہارتوں کے حامل ہیں، باقی 90فیصد وہ ہیں جو آئی ٹی کے شعبے میں ملازمت کے قابل نہیں ہیں۔ یہ ہوش ربا انکشافات ہیں جنہیں سننے کہ بعد تو ذمہ داران کی راتوں کی نیند اڑ جانی چاہیے تھی لیکن روز مرہ ملکی معاملات میں تبدیلی کی ہوا میں کوئی واضح فرق نظر آتا دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ تعلیمی میدان میں آئی ٹی کے شعبے میں پیچھے رہ جانے سے ملکی ترقی کی راہ میں ایک اہم رکاوٹ حائل ہے۔ اگر ہم اپنے پڑوسی ملک کے آئی ٹی سیکٹر کا ذکر کریں تو پتہ چلتا ہے کہ انڈیا آئی ٹی کی سالانہ ایکسپورٹ 194 بلین ڈالر ہے جبکہ پاکستان کی سالانہ آئی ٹی ایکسپورٹ کا حجم 1.9بلین ڈالر ہے۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ آئی ٹی کے شعبہ میں کتنا پوٹینشل ہے۔ آئی ٹی کے شعبے میں بہت سے عوامل رکاوٹ ہیں جن کی وجہ سے یہ شعبہ آگے نہیں بڑھ رہا۔ انٹرنیٹ کی بات کریں تو پتہ چلتا ہے کہ پاکستان اقوام عالم میں سب سے سست انٹرنیٹ سپیڈ رکھنے والا ملک ہے۔ اس کے باوجود آزادی اظہار رائے پر مختلف ادوار میں پابندیاں لگائی جاتی رہیں جو آئی ٹی کے شعبہ میں ترقی کی راہ میں اہم رکاوٹ ہے۔ پاکستان میں گوگل اور اقتصادیاتی حکمت عملی کی مشترکہ کوششوں سے رپورٹ مرتب کی گئی جو یہ بتاتی ہے کہ پاکستان میں تقریبا 54 فیصد لوگوں کے پاس اینڈرائیڈ سیل فون ہیں ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کی استعداد کار کو اگر اسے رئیل ٹائم وسعت دے دی جائے یا بھر پور فائدہ اٹھایا جائے تو 2030 تک سالانہ آمدن میں تقریبا 60 بلین ڈالر تک اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح باہر کے ممالک سے آئی ٹی کے شعبے میں انویسٹ کرنے والی کمپنیوں یا دیگر لوگوں کو بین الاقوامی سطح پر نافذ العمل پالیسی اور قوانین کے مطابق ملک میں سرمایہ کاری کرنے کے مواقع فراہم کیے جائیں تو آئی ٹی کے شعبے کو دوام بخشا جا سکتا ہے۔پاکستان کے تعلیمی اداروں میں فراہم کی جانے والی آئی ٹی ایجوکیشن دیکھیں اور یہ جانے کی کوشش کریں کہ ہم وہ نتائج کیوں نہیں دے سکے جسکی ملک کو اشد ضرورت ہے تو پتہ چلتا ہے کہ موجودہ تعلیمی نظام کارگر نہیں ہم فرسودہ تعلیمی نصاب کو لے کر آگے بڑھ رہے ہیں۔ آئی ٹی یونیورسٹیوں میں پڑھایا جانیوالا نصاب فرسودہ ہو چکا ہے جو پاکستان کی صنعتوں کے موجودہ معیارات اور تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہے۔ اس گہرے خلا سے انڈسٹری اور جامعات کے درمیان کاروباری مفادات میں تعاون پر فروغ ہے نہ ہی کوئی مفاہمتی بورڈ تشکیل دیا گیا ہے جس سے باہمی تعاون کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔ اس کیساتھ ساتھ جامعات میں نصاب سے متعلقہ پریکٹیکل سکلز سکھانے کے بجائے نصاب کو پڑھانے پر ترجیح دی جاتی ہے۔ اسی طرح سوفٹ سکلزکی تربیت بغیر آئی ٹی انڈسڑی کی ضرورت کیمطابق ضروری سوفٹ وئیر کی مہارتیں سیکھنا بہت ضروری ہے جیسے پروبلم سالونگ، ٹیم ورک، مواصلات اور پیشہ ورانہ ماحول سے موافقت اہم ہیں۔ مناسب لیب، ورکشاب، انٹرن شپ پروگرام اور پراجیکٹ پر مبنی سیکھنے کی کمی یا عدم دستیابی گریجویٹس کی عملی مہارتوں میں کمی لاتی ہیں جو کسی بھی افرادی قوت کو پیشہ ور بنانے کیلئے ضروری ہیں۔ آئی ٹی کے شعبہ میں تدریسی عملے کا معیار اور متعلقہ شعبے میں تجربہ نہ ہونا تعلیمی معیار میں کمی کی بڑی وجہ ہو سکتی ہیں۔ یونیورسٹیوں میں ریسرچ اور ڈویلپمنٹ کے مواقع محدود ہیں انہیں بڑھانے کی ضرورت ہے کیونکہ ریسرچ ڈویلپمنٹ کے بغیر ترقی کا سفر اکثر و بیشتر ادھورا رہ جاتا ہے اور ترقی کے درست راستے کی سمت کا تعین نہیں ہوتا۔ طلبا ان محدود مواقع کی وجہ سے فیلڈ سے متعلقہ مسائل حل کرنے کی مہارتیں اور صلاحیتیں سیکھ نہیں پاتے۔ کیرئیر کونسلنگ کی کمی ہے اور اس شعبے میں آنے والے نئے طلبا کو آئی ٹی میں تعلیم سے روزگار کی طرف منتقل کرنے میں مدد ملتی ہے۔ عام طور تعلیمی میدان میں متعلقہ شعبے کو اپنانے میں فیصلہ کرنا آسان ہو جاتا ہے جو اس کے آنے والے کل میں اسے بطور آئی ٹی ایکسپرٹ اور کامیاب زندگی گزارنے میں معاون ہوتا ہے۔ یونیورسٹی سطح پر مضبوط کیرئیر کونسلنگ کی کمی ہے جو ملازمت کا تعین کرنے اور طلبا کوکیرئیرت لاش کرنے میں انتہائی کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ اسی طرح پاکستان میں آئی ٹی کو مزید فروغ دینے کے لئے پبلک سروسز کی فراہمی کے حامل اداروں کو آئی ٹی پر منتقل کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سے پاکستان کی نہ صرف معیشت بہتر ہو گی بلکہ عوام کو بہترین سروسز کی فراہمی سے عوام الناس کا اداروں پر اعتماد بھی بحال ہو گا اور سب سے بڑھ کر انسانی مداخلت ختم ہو گی جس کی وجہ سے نظام میں مزید شفافیت آئے گی جو ملکی ترقی کیلئے وقت کی ضرورت ہے۔پاکستا ن میں آئی ٹی یونیورسٹیوں کو آئی ٹی گریجویٹس کے مستقبل کو روشن بنانے میں ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ ملک میں صنعت کی ترقی کی رفتار کے ساتھ ساتھ جامعات میں نصاب کو ہم آہنگ کرنے اور اس کا باقاعدہ جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ طلبا کی عملی تربیت کی استعداد کار میں اضافہ کرنے کے ساتھ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ طلبا نے فیلڈ کے لیے درکار تجربہ حاصل کر لیا ہے۔ ان قدامات پر عمل پیرا ہو کر ملک میں آئی ٹی گریجویٹس کو درپیش چیلنجز پر قابو پانے اور گریجویٹس کو مارکیٹ میں جاب حاصل کرنے کے قابل بنا یا جا سکتا ہے تاکہ ملک میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری کی شرح میں بھی کمی لائی جا سکے۔
0 30 4 minutes read