
اس سال موسمِ گرما اچانک شروع ہوا ہے۔ مئی کے آغاز میں موسم اچھا بھلا خوشگوار تھا مگر مئی کے پہلے ہفتے کے اختتام پذیر ہوتے ہی مئی کے مہینے میں پڑنے والی گرمی اچانک آن وارد ہوئی اور چند ہی دنوں میں گرمی اس قدر شدید ہو گئی کہ صوبہ پنجاب کے سکولوں میں قبل از وقت چھٹیوں کا اعلان کرنا پڑا۔ اس وقت پنجاب کے میدانی علاقوں میں درجہ حرارت 45 ڈگری سنٹی گریڈ کو چُھو رہا ہے جبکہ توقع کی جا رہی ہے کہ آئندہ چند روز تک درجہ حرارت بڑھ کر 50 ڈگری سنٹی گریڈ تک چلا جائے گا۔ پچاس سال پہلے جب ہم پرائمری سکول کے طالب علم تھے تو ہمارے نصاب کی کتاب میں مئی جون کی گرمی کے حوالے سے یہ شعر شامل تھا۔
مئی جون کا آن پہنچا مہینہ
بہا چوٹی سے ایڑی تک پسینہ
دیکھا جائے تو ماہ مئی کا موسم اس شعر کی عملی تفسیر بنا ہوا ہے۔
گرمی کی شدت میں روز بروز اضافہ کے ساتھ ہی کبوتر بازوں نے کبوتر بازی کے میچ کروانے کے لیے پر تولنا شروع کر دیئے ہیں۔ مئی جون اور جولائی طوالت کے لحاظ سے سال کے سب سے بڑے دن ہوتے ہیں۔ ان دنوں میں کبوتر باز اپنے کبوتروں کی اڑان کے مقابلے کرواتے ہیں۔ اس مرتبہ بھی وہ اپنے اپنے کبوتروں کو بادام اور مختلف کشتہ جات کھلا کر کبوتر اڑائی کے مقابلہ جات کے لیے کبوتروں کی تیاری میں مشغول ہیں۔ کبوتر بازی کے یہ مقابلے ہر سال شدید گرمی میں منعقد ہوتے ہیں۔ کبوتروں کو صبح سویرے اڑان کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے اور سارا دن ان کو اڑایا جاتا ہے۔ کبوتروں کو شام تک شدید گرمی میں فضا میں رکھا جاتا ہے۔ بعض اوقات کبوتر باز شور شرابہ اور ہلڑ بازی بھی کرتے ہیں۔ وہ کبوتروں کو ڈرانے کے لیے ہوائی فائرنگ اور پٹاخے بھی چلاتے ہیں تاکہ وہ نیچے نہ اتر آئیں۔ اکثر کبوتر گرمی اور پورے دن کی بھوک اور پیاس سے نڈھال ہوکر گر پڑتے ہیں۔ یہ معصوم جانور شدید گرمی میں مسلسل اڑان اور پیاس کی شدت سے ہلکان ہو کر اپنی جان سے جاتے ہیں مگر کبوتر باز اس قدر بے رحم اور ظالم ہوتے ہیں کہ ان ننھے جانوروں کی موت تو قبول کر لیتے ہیں لیکن انہیں
زمین پر اترنے کی اجازت نہیں دیتے۔ ان کی ضد، انا اور ہٹ دھرمی کے آگے معصوم پرندے جان کی بازی ہار جاتے ہیں مگر انہیں کوئی افسوس نہیں ہوتا۔ الٹا وہ فخر کا اظہار کرتے ہیں کہ ان کے کبوتر نے اپنی جان دے دی لیکن ہار نہیں مانی۔ کبوتر بازی کے ان مقابلوں کے موقع پر صرف کبوتر باز ہی ظالم نہیں ہوتے بلکہ سینکڑوں کی تعداد میں یہ مقابلے دیکھنے والے شائقین بھی اس ظلم اور سفاکی میں برابر کے شریک ہوتے ہیں۔ وہ سارا دن کبوتروں کی پرواز والے مقام پر موجود رہتے ہیں اور کبوتروں کو پرواز کرتے سارا دن دیکھتے رہتے ہیں۔ وہ کبوتروں کی اڑان، ان کے سٹیمنا اور متوقع نتائج پر تبصرے کرتے ہیں۔ یہ شائقین کبوتروں کی مختلف بازیوں پر رقمیں لگا کر جؤا بھی کھیلتے ہیں اور ان کی خواہش ہوتی ہے کہ جس کبوتر پر انہوں نے رقم لگائی ہے وہ سب سے آخر میں زمین پر اترے۔ یوں چند روپوں کی خاطر یہ شائقین بھی اس سفاکانہ اور ظالمانہ کھیل میں پوری طرح ملوث ہو جاتے ہیں۔ کئی مرتبہ ان مقابلوں کے دوران توتکار اور ہاتھا پائی بھی ہو جاتی ہے جو بڑھ کر خونیں لڑائی میں تبدیل ہو جاتی ہے۔
قانون نافذ کرنے والے ادارے اور وائلڈ لائف کو چاہیے کہ اس ظالم شوق پر پابندی لگائیں۔ کبوتر بازی کے مقابلے میں حصہ لینے والے کبوتروں کے مالکان اور شائقین کو پکڑ کر سارا دن بھوکا پیاسا شدید دھوپ میں بٹھایا جائے۔ بلکہ ہو سکے تو ان کی اولاد کو ان کی آنکھوں کے سامنے چند گھنٹے دھوپ میں کھڑا کیا جائے۔ شاید اسی طرح ان ظالموں کو معصوم پرندوں پر کیے جانے والے اپنے ظلم کی شدت کا اندازہ ہو سکے۔ ہر کبوتر باز کو چار چھ مہینے کے لیے جیل میں بھیجا جائے اور اسے ناقابلِ ضمانت جرم قرار دیا جائے۔
کبوتر بازی کی ملک بھر میں سختی کے ساتھ روک تھام کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اس سے نہ صرف ننھی جانیں بچ سکیں گی بلکہ کبوتر بازی سے ہونے والے لڑائی جھگڑے اور قتل و غارت سے بھی عوام کو بچایا جاسکے گا۔