کالم

غزہ اور رفح کی صورت حال نیز جنگ رکنی چاہیے

کئی مہینوں سے اسرائیل غزہ پربمباری کر رہا ہیاور اس بمباری نے ہزاروں افراد کو شہید کر دیا ہے.7اکتوبر 2023سیشروع ہونے والی جنگ میں 35ہز800فلسطینی شہید ہو چکے ہیں اور 80ہزار11 افراد زخمی ہو چکے ہیں اور کئی ایسے افراد ہیں جو ریکارڈ پر نہیں ہیں، لیکن شہید اور زخمی ہو چکے ہیں نیز قیدیوں کی تعداد بھی زیادہ ہے.اس انسانی المیے کی طرف توجہ نہیں دی جا رہی اور اسرائیل کو موقع دیا جا رہا ہے کہ ایک نسل کو پوری طرح تباہ و برباد کر دیا جائے.اس کے باوجود کچھ افراد ایسی بھی ہیں جو ہیں تو غیر مسلم لیکن فلسطینیوں کے حق میں آواز اٹھا رہے ہیں۔اسرائیلی بمباری سے اتنی تبایی مچ چکی ہیکہ اگر جنگ رک بھی جائیتو فلسطینیوں کو بحال ہونے میں کئی سال لگیں گے.ان کے گھر اور عمارتیں تباہی کا شکار ہو کر کھنڈرات میں تبدیل ہو چکی ہیں.تباہ شدہ مکانات اور عمارتیں انسانی درندگی کامنظر پیش کر رہی ہیں ۔اتنے افراد کی ہلاکت نے انسانیت کو بھی شرمسار کر رکھا ہے.اسرائیلی جارحیت نے تمام اصول و قوانین پس پشت ڈال رکھے ہیں اوراس کے جو سہولت کار ہیں،وہ بھی اسرائیل کے جرم میں برابر کے شریک ہیں.انسانیت سسک رہی ہے اور ظلم اپنی پوری قوت سے جاری ہے.امت مسلمہ کی خاموشی بھی سوالیہ نشان بن چکی ہے۔افسوس ہوتا ہییہ دیکھ کر کہ امت مسلمہ تماشے دیکھ رہی ہیاور غزہ کے علاوہ رفح پراسرائیل بمباری کر کیاپنی من مانی کر رہا ہیاور اس کو نہ تو کسی بات کا خوف ہے اور نہ کسی کا ڈر ہے.
ان حالات میں کچھ افراد، انسان دوست اقدامات اٹھاتینظرآتے ہیں توکچھ خوشی محسوس ہوتی ہے۔یورپ کے تین ممالک آئرلینڈ،ناروے اور اسپین نے فلسطین کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا ہے.ان ممالک کی طرف وضاحت آئی ہے کہ 28مئی سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کر لیں گے۔جس کے ردعمل میں اسرائیل نےآئرلینڈ اور ناروے سے اپنے سفیر واپس بلالیے ہیں اوراسپین سے واپس بلانے والا ہے.امریکہ سمیت کئی ممالک کی جامعات میں بھی طلبہ احتجاج کر رہے ہیں کہ غزہ میں شروع جنگ کو روکا جائے.جنوبی افریقہ نے عالمی عدالت انصاف میں ایک مقدمہ جنگی جرائم کیحوالے سے دائر کیا ہے.عالمی عدالت نے اسرائیل کو حکم دیا کہ فوری طور پرآپریشن روک دیا جائیاوربلا رکاوٹ انسانی امداد تک یقینی بنانے کے لییرفح کراسنگ کوکھلا رکھا جائے.عالمی عدالت نیکہاہے کہ اسرائیل کو رفح میں کوئی ایسی کروائی نہیں کرنی چاہیے جس سیغزہ میں رہنے والوں کے لیے ایسے حالات پیدا ہو جائیں جو ان کی مکمل یا جزوی تباہی کا باعث بنیں۔عدالت کے باہرفلسطینیوں کے حامی مظاہرین جھنڈے اور بینر لیے موجود تھے اورآزاد فلسطینی ریاست کا مطالبہ کر رہے تھے۔اسرائیل نے ان احکامات کو ماننیسے انکار کر دیا ہیاور امریکہ کے صدر جوبائیڈن نے بھی کھلم کھلا اور دو ٹوک الفاظ میں بین الاقوامی فوجداری عدالت کے دائرہ اختیار کو تسلیم نہ کرنے کا اعلان کر دیا.عالمی عدالت انصاف میں فوجداری مقدمات اور جنگی جرائم پرمشتمل مقدمہ چلایا گیا ہیاور واضح شواہدبھی مقدمے کے دوران پیش کیے گئے.اسرائیل بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں اڑا رہا ہیاور اس کا یہ فیصلہ تسلیم نہ کرنا اسے ہٹ دھرم بھی ثابت کر رہا ہیاور انسانیت کا دشمن بھی ثابت کر رہا ہے.عالمی عدالت انصاف کے احکامات کوکوئی اہمیت نہیں دی جا رہی ہے۔
شدید افسوس کا مقام ہیکہ امت مسلمہ خاموش رہ کرتماشائی بنی ہوئی ہے.غزہ پر مسلسل فضائی اور زمین حملے جاری ہیں۔ایک رپورٹ کے مطابق صرف گزشتہ روز 50 فلسطینی شہید ہو گئے ہیں.ان شہدا میں بچوں کی تعداد بھی زیادہ ہے.غزہ میں خوراک کی بھی شدید کمی ہے،جس کی وجہ سے کئی افراد بھوکے مر رہے ہیں.اس کے علاوہ اسپتالوں کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے.غزہ کی سب سے بڑے اسپتال الاقصی میں ایندھن کی کمی ہیجس کی وجہ سے اسپتال کیبند ہونے کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے.الجزیرہ کے مطابق اسپتال کے میڈیکل ڈائریکٹر نے کہا ہیکہ بجلی پیدا کرنے کے لییایندھن کی شدید کمی ہو گئی ہے.بجلی کی عدم دستیابی کی وجہ سے کافی اموات ہو سکتی ہیں.خصوصا وہ افراد جو آئی سی یو میں ایڈمٹ ہیں یا ڈائلائسز پر ہیں،وہ فوری طور پر موت کے منہ میں جا سکتے ہیں.یہ بھی بتایا گیا ہے کہ تقریبا ڈیلائسز کے650 سے زائد مریض ہیں نیزاسپتال میں بھی 600 سے زیادہ زخمی اور مریض موجود ہیں اور ان کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے.اب ایندھن کی کمی کی وجہ سے بجلی پیدا نہیں ہوتی ہے اور ان کے مرنے کے امکانات پیدا ہو چکے ہیں.غزہ میں تقریبا 36 بڑے ہسپتالوں میں صرف ایک تہائی اسپتال جزوی طور پر کام کر رہے ہیں۔بد نصیبی کی بات یہ ہے کہ ان اسپتالوں میں میڈیکلی سہولیات بھی نہ ہونے کے برابر ہیں اور ادویات کی بھی شدید کمی ہے.زخمیوں کوفوری طور پر مناسب علاج کی ضرورت ہے تاکہ یہ زندہ رہ سکیں.امت مسلمہ کم از کم زخمیوں کو ہی ریلیف پہنچا دے.بین الاقوامی قوانین کے مطابق جنگ کے دوران ہسپتالوں کو نشانہ بنانا منع ہے،مگر یہ قوانین صرف غیر مسلموں کے لیے ہیں یہاں مسلمان شہید ہو رہے ہیں.بین الاقوامی قوانین کی پاسداری نہ کرنا اسرائیل کا ایک بڑا جرم ہے،مگر طاقت کے جوش میں بین الاقوامی قوانین کو جوتے کی نوک پر رکھا جا رہا ہے.
فلسطینی مسلمانوں کا بہت ہی نقصان ہو چکا ہے.دن رات ہونے والی بمباری شہادتوں اور زخمیوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ کر رہی ہے.کچھ دن پہلیجنگ بندی کے مذاکرات ہوئے تھے مگر اسرائیل نے تسلیم کرنے سے انکارکردیا۔اسرائیل کی سلامتی کے نام پر ایک دوسرے گروہ کی نسل ختم کی جا رہی ہے.صیہونی فوج نیایک بیان دیا ہے کہ وہ جنگ روکنے کے لیے حماد کے ساتھ جنگ بندی اور قیدیوں کی رہائی کی معاہدے پر تعطل کا شکار مذاکرات دوبارہ شروع کرنے پر تیار ہے.لیکن لگتاہیکہ یہ مذاکرات اسرائیل صرف اس لیے کرنے کے لیے تیار ہے کہ جواسرائیلی فلسطینیوں کی قید میں ہیں،ان کو باآسانی چھڑایا جا سکے۔اس جنگ میں سول آبادی کے ساتھ عبادت گاہوں کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے
,ساتھ بچے بھی شہید ہو رہے ہیں.غزہ کی سول اورڈیفس سوسائٹی کی رپورٹ کے مطابق 23 مئی کے24 گھنٹوں کے دوران فضائی حملوں میں صرف غزہ میں 15 بچوں سمیت 26 افراد شہید ہوئے۔اب جنگ کتنا عرصہ جاری رہتی ہے،اس کے بارے میں کچھ کہا نہیں جا سکتا مگر اسرائیل کیرجحان کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ یہ لمبے عرصے تک رہنے والی جنگ ہے.اس جنگ کااختتام کرناہوگا۔اسلامی ممالک کے حکمران اگر فلسطینیوں کی مدد نہیں کر سکتے تو کم از کم جنگ بندی تو کرا سکتے ہیں.غزہ اجڑ چکا ہیاور رفح بھی بربادی کی طرف گامزن ہے.اموات کی شرح مسلسل بلند ہو رہی ہیاور بچے بھی شہادت کے درجے پر فائز ہو رہے ہیں.ان حالات میں جنگ بندی فوری طور پر ہو جانی چاہیے.بچے ہوئے افراددوبارہ اپنے ٹوٹے پھوٹے گھروں کو اباد کر سکتے ہیں.اسرائیل فلسطین پر غیر قانونی قبضہ کر چکا ہے،اس کے علاوہ وقتا فوقتا یہودی آباد کاروں کو ان بستیوں میں بسا لیا جاتا ہے جہاں مسلمان رہتے ہیں اور مسلمانوں سے زبردستی گھر خالی کرا لیے جاتے ہیں.غزہ کے رہنے والوں کوجنگ بندی کے بعد بھی کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا.عمارتیں تباہ ہو چکی ہیں،گھر تباہ ہو چکے ہیں،بازار کھنڈرات میں بدل چکے ہیں،مسجدیں شہید کی جا رہی ہیں اور اسپتالوں کو بھی برباد کیا جا رہا ہے،دوبارہ تعمیربھاری اخراجات کی متقاضی ہے.جنگ زدہ غزہ کے مظلوموں کے پاس اتنا سرمایہ کہاں ہوگا کہ وہ اپنی عمارتیں اور مکانات دوبارہ تعمیر کر سکیں.جنگ بندی فوری طور پر ہو جائے تو اب بھی کافی انسان بچ سکتے ہیں.
جو کام ہم مسلمانوں نے کرنے تھیکہ ظالم مزید ظلم سے بازآ جائیں،وہ جنوبی افریقہ جیسے ممالک کر رہے ہیں.مسلمانوں کواس سے بڑھ کر کام کرنا ہوگا تاکہ جنگ بندی ہونے کے ساتھ غزہ میں مکمل امن آجائے۔اسرائیل اور امریکہ پر دبا ڈال کر جنگ بندی کرائی جا سکتی ہے.مسلمانوں کو جرات کرنی ہوگی کہ اسرائیلی جارحیت کا منہ توڑ جواب دے سکیں۔اپیلوں اور احتجاجوں سے جنگ رکنے کا امکان بہت ہی کم ہے۔اس کے لیے کوئی سخت قدم اٹھانا ہوگا تب ہی اسرائیل جنگ بندی پر مجبور ہوگا.جاری جنگ اس وقت جاری رہے گی جب تک اسرائیل اپنا مفاد حاصل نہیں کر لیتااوراپنے مفاد کے لیے فلسطینیوں کو موت کے گھاٹ اتارا جا رہا ہے.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button