کالم

نااہل حکمران اور قرضوں کا عذاب

پاکستانی قوم کی بدقسمتی یہ ہے کہ بغیر کچھ کھائے پیئے قرض کے دلدل میں دھنستی چلی جارہی ہے آج تک معلوم نہ ہوسکاہے کہ آخریہ قرض کی رقم چلی کہاں جاتی ہے مگریہ سب کو معلوم ہوتاہے کہ اب یہ قرض اس ملک کے ہونہاروں نے ہی اتارناہے۔یوں کہا جاسکتاہے کہ پاکستان کو جو سب سے بڑا چیلنج ہے وہ قرضوں کی معیشت ہے۔ اس قوم کے لیے قرض ایک بھیانک جن کی شکل اختیارکرچکاہے اب خبریہ ہے کہ آئندہ بجٹ کی تیاری کے لیے مذاکرات آئی ایم ایف کے ساتھ ہورہے ہیں۔ ان مذاکرات سے باخبر ذرائع ابلاغ کے نمائندے جو تفصیلات بیان کررہے ہیں، اس میں کوئی نئی بات نہیں نہ ہی اس سے اس قوم کی تقدیر بدلنے والی ہے بلکہ اب نتیجہ یہ نکلنے والا ہے کہ مزید بجلی کے نرخ بڑھ جائینگے، پٹرول اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ کیا جائے گا، اس ملک کی کرنسی ایک مرجھائے ہوئے کاغذ کاٹکڑابن چکی ہے اس پر روپے کی قدر ہے کہ مسلسل گرتی ہی چلی جارہی ہے اور ممکن ہے کہ ڈالر 350 روپے سے زائد ہوجائے گا۔لوگوں کے پاس روزگار نام کی کوئی چیز نہیں ہے فیکٹریاں مہنگائی اور بجلی کے بے جا بلوں کے باعث بن پڑی ہیں انڈسٹریز مالکان سر پکڑ کررورہے ہیں لیکن اس کے باوجود ایف بی آر کو یہ حکم ہے کہ عوام سے زیادہ سے زیادہ ٹیکس لیا جائے اور کسی کو نہ بخشا جائے اس کے لیے کسی کے گھر کوتالا لگے یاپھراس کی سم بند کرنا پڑے۔ عام آدمی کا جینا دشوار سے دشوار ہوتاجارہاہے، اب توعالم یہ ہے کہ تاجروں اور صنعت کاروں کے لیے ساز گار ماحول ایک خواب بن چکاہے۔ قیمتوں میں اضافہ اور ذرائع آمدنی کے فقدان نے پوری سماجی زندگی کو الٹ کررکھ دیا ہے۔ اس پر بجلی کے بل تو عوام کے لیے ایک عذاب مسلسل بن چکے ہیں۔ دوسری طرف چولہوں میں گیس تو موجود نہیں ہے مگر گیس کمپنیاں بھی بجلی کمپنیوں کی طرح عوام کو لوٹنے میں مصروف عمل ہیں۔ہم نے دیکھا کہ اس مسئلے پر آزاد کشمیر میں احتجاجی مظاہرے پھوٹ پڑے تھے۔مگرفی الحال پاکستان کی عوام اس وقت ستو پی کرسورہی ہے یہ جانتے ہوئے کہ ایک طرف بجلی کے ناقابل برداشت بل ہیں اور دوسری طرف سخت گرمی کے موسم میں لوڈشیڈنگ نے لوگوں کی زندگی عذاب بنارکھی ہے، صرف کراچی شہر میں بعض علاقوں میں لوڈشیڈنگ کا دورانیہ 20 سے 22 گھنٹے تک پہنچ گیا ہے۔ یعنی لوگوں کو بجلی بھی نہیں مل رہی ہے اور انہیں اس کی قیمت بھی دینی ہے اور وہ بھی کئی ٹیکسوں کے ساتھ آئی ایم ایف کی تازہ جاری ہونے والی رپورٹ میں قرضوں کا حجم 87 ہزار ارب روپے سے زائد ہونے کا خطرہ ظاہر کیا گیا ہے۔ قرضوں کی اس مصیبت سے جان چھڑانے کے لیے نہ سیاسی جماعتوں کے پاس کوئی حل ہے اور نہ ہی حکومت کواس میں کوئی دلچسپی نظرآتی ہے بتایا جارہاہے کہ آئندہ مالی سال حکومت پاکستان کے قرضوں میں 10 ہزار 433 ارب روپے اضافے کا خدشہ ہے جس کے بعد قرض بڑھ کر87 ہزار346 ارب روپے ہونیکا امکان ہے ایک زرائع کے مطابق پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان مذاکرات میں قرضوں کے فریم ورک پر بات چیت جاری ہے، وفاقی بجٹ 25-2024 میں پاکستان کے قرضوں میں اضافہ ہونے کا امکان ہے۔ یوں تو پاکستان قرضوں کے چنگل میں کئی دہائیوں سے پھنسا ہوا ہے تاہم حالیہ برسوں میں قرضوں میں ہونے والے اضافے اور پاکستان کی سکڑتی معیشت کی وجہ سے اب ان قرضوں کی واپسی اور ان پر سود کی ادائیگی ایک بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔ حکومت جب سے آئی ہے ایک بھی عوام کے لیے فلاحی پروجیکٹ نہ دکھاسکی ہے اس کے برعکس پی ٹی آئی کے لوگوں کی پکڑ دھکڑ پرزیادہ دھیان دیاہواہے عمران خان جیل میں ہونے کے باوجود ن لیگ اور پیپلزپارٹی کے لیے ڈراونا خواب بناہواہے جس کی وجہ سے حکومت کی جانب سے انتقامی رویے بڑھ رہے ہیں جس پرملک میں سیاسی عدم استحکام کے خدشات مزید بڑھ گئے ہیں جس سے ملکی معیشت کے متاثر ہونے کا خطرہ ہے جو ملک کے قرضوں کی واپسی کو مزید مشکل بنا دے گی۔حال ہی میں ہم نے دیکھا کہ بجلی کے بِلوں نے اس ملک کے کروڑوں صارفین کی چیخیں نکلوا دی ہیں بجلی بلوں میں بے حس حکمرانوں نے بے تحاشہ اضافہ کیا ہے۔ آئی ایم ایف کے احکامات پر ہر قسم کے ٹیکسوں اور مہنگائی کو بالواسطہ انداز میں ایک دفعہ پھر بجلی کے بلوں کے ذریعے عوام پر مسلط کر دیا گیا ہے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ لاکھوں افراد اب بجلی کے بغیر زندگی گزارنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں کیونکہ بجلی جیسی بنیادی ضرورت بھی اب ان کے لیے ایک عیاشی بن چکی ہے۔ مہنگائی کے اثرات اشیائے خوردو نوش سمیت ہر شے پر مرتب ہو رہے ہیں۔ہمیں یہ حقیقت جان لینا ہوگی کہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سمیت روس، امریکا اور دیگر سامراجی طاقتوں کی معیشتوں کی بنیاد سرمایہ دارانہ نظام ہے جس کی جکڑ اس وقت پوری دنیا میں موجود ہے۔اور اب اس نظام کے اندر رہتے ہوئے پاکستان کی معیشت کا بحران کبھی بھی ختم نہیں ہو سکتا کیونکہ اس بحران کے اصل زمہ دار نااہل حکمران ہیں جو ان سامراجی قوتوں کی وجہ سے ہی ہم پر مسلط ہیں۔قرضوں کی اب تک کی تازہ ترین رپورٹ یہ ہے کہ پاکستان کو 30 جون 2024 تک مالی سال کے اختتام تک دس ارب ڈالر کا قرضہ واپس کرنا ہے جس کے لیے یہ عوام پر بھی ہر ظلم توڑنے کے لیے تیار ہے اور آئی ایم ایف کا ہرحکم بجالانے کے لیے تیارہے ان مسلسل قرضوں کی وجہ سے پاکستان کی پوری معیشت تہس نہس ہوچکی ہے اب حل یہ ہے کہ معیشت کے چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے کسی حد تک سیاسی استحکام ضروری ہوتا ہے
جبکہ اس کے لیے عوام دوست

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button