کالم

فلسطینیوں کیلئے مغربی ممالک کی نرم ہوتی رائے

سات اکتوبر کے حماس کے حملے کے بعد سے اسرائیل نے فلسطینیوں پر بے انتہا ظلم ڈھایا تمام کے تمام شہروں کو تباہ کر کے رکھ دیا کوئی سکول کوئی گھر کوئی ہسپتال ایسا نہیں جو اسرائیلی بربریت سے محفوظ ہو انہوں نے فلسطینیوں کے بچوں ، خواتین ، بوڑھوں اور جوانوں سب پر بلا امتیاز بمباری کی اور سب کو ظلم کا نشانہ بنایا اور سب کو قتل کیا تقریبا 40 ہزار کے قریب فلسطینی شہید ہو چکے ہیں اور لاکھوں بے گھر ہیں اور زخمیوں کی تعداد بھی لاکھوں میں ہے ۔ اس سب کے ذمہ دار اسرائیلی اور یہودی ہیں یا پھر ان کے ساتھ وہ مغربی ریاستیں امریکہ اور یورپی ممالک جو ان کی بلاجواز حمایت کر رہے ہیں اور ان کی پیٹھ تھپتھپا رہے ہیں ، جنہیں اتنے بڑے مظالم نظر نہیں آرہے اور جو اب بھی فلسطینیوں کے قتل عام کے حق میں ہرزہ سرائی کر رہے ہیں ۔چند روز قبل ایک امریکی رکن پارلیمنٹ ٹم والبرگ نے غزہ کے معصوم مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی کرتے ہوئے غزہ پر ناگا ساکی اور ہیروشیما کی طرح ایٹم بم گرانے کی تجویز پیش کی ہے۔ ان سے کسی نے یہ سوال کیا کہ امریکا غزہ میں امداد فراہم کرنے کے لیے عارضی بندرگاہ پر کیوں اپنے ڈالر خرچ کر رہا ہے تو اس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ یہ صدر جوبائیڈن کا فیصلہ ہے لیکن میرا خیال ہے کہ ہمیں غزہ کی امداد کے لیے ایک پیسہ بھی خرچ نہیں کرنا چاہیے۔ پھر انہوں نے مزید دل کی بھڑاس نکالتے ہوئے مسلمانوں کے خلاف اندر کے بغض کو اگلتے ہوئے کہا کہ غزہ پر ناگا ساکی اور ہیروشیما کی طر ح ایٹمی بم گرا دینا چاہیے تاکہ اسے جلد ختم کیا جا سکے۔
اس قسم کے متعصب ترین لوگوں میں اب ایسے لوگ بھی ابھر رہے ہیں جو فلسطینیوں کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں یا اب رکھنے لگے ہیں ، فلسطینیوں پر ہونے والے نہایت دلخراش مظالم کو دیکھتے ہوئے ان میں سے ہی کچھ لوگ ایسے ہیں جن کے دل پگھلنے لگے ہیں ۔ امریکہ اور برطانیہ جنہوں نے اسرائیل کو گود میں پالا اور اب بھی اس کی مکمل حمایت جاری رکھے ہوئے ہیں وہاں کے طلباء یونیورسٹیوں میں فلسطینیوں کے حق میں احتجاج کر رہے ہیں اور گرفتاریاں دے رہے ہیں ، یہ احتجاج امریکہ کی یونیورسٹیوں سے شروع ہوا اور اب یہ برطانیہ تک پہنچ چکا ہے۔ چند روز قبل برطانیہ کی مشہور زمانہ آکسفورڈ یونیورسٹی میں بھی طلباء نے فلسطینیوں پر مظالم کے خلاف احتجاج کیا اور گرفتاریاں دیں۔
چند روز قبل عالمی فوجداری عدالت (International Criminal Court) اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو کے وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے جس پر ظاہر ہے کہ اسرائیل سیخ پا ہو گیا اور لگا عالمی عدالت کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے ۔ حالانکہ عالمی عدالت نے اسرائیلی وزیراعظم اور وزیرخارجہ ہی نہیں بلکہ حماس کے رہنماؤں کے بھی گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے ہیں۔ بہر حال اسرائیل کی تو چیخیں نکلنی ہی تھیں ساتھ ہی امریکی بھی آگ بگولہ ہو گئے اور عالمی عدالت کے اس فیصلے پر تنقید کے ساتھ ساتھ عالمی عدالت پر پابندیوں کی دھمکیاں بھی دینے لگے۔ اسرائیل اور امریکہ کا مؤقف یہ ہے کہ اسرائیل کو حماس کے ساتھ نہ ملایا جائے۔ یہ مؤقف بالکل درست ہے اس لحاظ سے کہ اسرائیل نے جس قدر جنگی جرائم کیے ہیں حماس نے نہیں کیے۔ حماس کی کاروائیاں تو جنگی جرائم کے زمرے میں ہی نہیں آتیں لیکن انہوں نے اسرائیل کے خلاف جس قدر کاروائیاں کی ہیں وہ اسرائیل کے جرائم کے مقابلے میں تو عشر عشیر بھی نہیں ہے ۔ اسرائیل تو ایسے جنگی جرائم کا مرتکب ہوا ہے کہ انسانیت کیا درندے بھی شرما گئے ہوں گے، جس طرح انہوں نے غزہ میں فلسطینیوں کا قتل عام کیا ہے اور بلا جواز شہری آبادیوں میں رہائشی عمارتوں پر بمباری کی ہے ، حماس کی تلاش کے بہانے فلسطینیوں کی نسل کشی کرنے کی کوشش کی ہے حالانکہ سبھی جانتے ہیں کہ جہاں جہاں انہوں نے اندھا دھند بمباری کی ہے وہاں حماس کی موجودگی کے کوئی شواہد اسرائیل کے پاس نہیں تھے۔ محض حماس کے جنگجوؤں کی تلاش کے بہانے فلسطینیوں پر اتنے مظالم ڈھائے کہ پرائے تو پرائے اپنے بھی چیخ اٹھے اور اسرائیل پر پابندیوں اور نیتن یاہو کی گرفتاری کی حمایت کرنے لگے ۔امریکی قیادت میں جو ممالک اسرائیل کو سپورٹ کرتے ہیں ان میں سے اہم ممالک فرانس اور جرمنی نے عالمی عدالت کے فیصلے کی حمایت کی ہے اور کہا ہے کہ اگر اسرائیلی وزیراعظم ہمارے ممالک میں داخل ہوئے تو عالمی عدالت کے فیصلے کی روشنی میں انہیں گرفتار کیا جائے گا۔ یہ یقینا فلسطینیوں کی ایک بڑی سفارتی کامیابی ہے۔
اسی طرح چند یورپی ممالک نے فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرنے کا بھی اعلان کر دیا ہے ۔ ان ممالک میں اسپین ، ناروے اور آئرلینڈ جیسے اہم ممالک شامل ہیں۔ ناروے کے وزیراعظم جونس گاراسٹور نے فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرنے کے فیصلے کی تصدیق کی ہے اور کہا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کیے بغیر امن قائم نہیں ہو سکتا۔ ناروے کے وزیرخارجہ نے کہا ہے کہ وہ 28مئی کو فلسطین کو ریاست کے طور پر تسلیم کرنے کا اعلان کریں گے، اسی طرح اسپین نے بھی اعلان کیا ہے کہ 28مئی کو فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرنے کا اعلان کریں گے۔آئرلینڈ کے وزیراعظم سیمون ہیرس نے بھی فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ آئرلینڈ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرے گا۔
یہ فلسطینیوں کی قربانیوں اور ڈٹ جانے کا نتیجہ ہے کہ وہ لوگ جو اسلاموفوبیا میں پیش پیش تھے وہ فلسطین کے لیے نرم گوشہ رکھنے لگے ہیں جبکہ اسرائیل جیسے ظالم اور جابر جسے ان ممالک کے دوست کے طور پر سمجھا جاتا ہے اور وہ ممالک یہودیوں کے ساتھ مسلمانوں سے کئی گنا زیادہ محبت اور قربت رکھتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ کئی یورپی ممالک میں ہولوکاسٹ کے خلاف کچھ کہنے اور بولنے پر پابندی ہے جبکہ ان کے دعوے کے مطابق وہاں ہر ایک کو تحریر و تقریر کی آزادی حاصل ہے اس کے باوجود وہ ہولوکاسٹ (یہودیوں کے قتل عام) کے خلاف کچھ لکھ یا بول نہیں سکتے۔ لیکن اب بے پناہ اسرائیلی مظالم نے ان ممالک کو بھی اسرائیل کے اقدامات کے خلاف آواز اٹھانے اور عالمی عدالت کے اسرائیلی وزیر اعظم اور وزیرخارجہ کی گرفتار ی کے فیصلے کی حمایت پر مجبور کر دیا ہے اور وہ ممالک بھی فلسطینیوں کے لیے آزاد ریاست کے قیام کے بارے میں سوچنے لگے ہیں ۔ رفتہ رفتہ مغربی ممالک کی رائے تو فلسطینیوں کے حق میں ہموار ہو رہی ہے لیکن اسلامی ممالک سو رہے ہیں جبکہ یہ ایک بہترین موقع ہے جس سے فائدہ اٹھا کر فلسطینیوں کے حق میں مزید ممالک کی حمایت حاصل کی جا سکتی ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button