کالم

اویغور نسل کشی

2014 سے چینی کمیونسٹ پارٹی (سی سی پی) کی زیر قیادت چینی حکومت نے سی سی پی کے جنرل سیکرٹری شی جن پنگ انتظامیہ کے دوران ایسی پالیسیوں پر عمل پیرا ہے جس میں ایک اندازے کے مطابق دس لاکھ سے زائد مسلمانوں کو بغیر کسی قانونی کاروائی کے حراستی کیمپوں میں قید کر رکھا ہے۔ ان قیدیوں میں اکثریت اویغور مسلمانوں کی ہے۔دوسری جنگ عظیم کے بعد نسلی اور مذہبی اقلیتوں کی یہ سب سے بڑی حراست ہے۔ ہزاروں مساجد کو تباہ یا نقصان پہنچایا گیااور لاکھوں بچوں کو زبردستی ان کے والدین سے جدا کر کے بورڈنگ اسکولوں میں بھیج دیا گیا ہے۔حکومت کی جانب سے حراستی کیمپوں میں قید اویغور باشندوں کے ساتھ انتہائی ناروا سلوک کیا جا رہا ہے۔ان سے جبری مشقت کروائی جا رہی ہے۔ان کی مذہبی رسومات کی حوصلہ شکنی کی جا رہی ہے۔اویغور باشندوں کو جبری نس بندی،جبری مانع حمل اور جبری اسقاط حمل جیسے ظلم کا سامنا کر نا پڑ رہا ہے۔چینی حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق 2015 سے2018 تک ہوتان اور کاشعر کے زیادہ تر اویغور علاقوں میں شرح پیدائش میں 60 فی صد سے زیادہ کمی واقع ہوئی ہے۔ اس عرصے میں پورے ملک میں شرح پیدائش 9.69فی صد کم ہوئی، جو 12.07 سے 10.09 فی 1000افراد پر آ گئی ہے۔ چینی حکام نے تسلیم کیا ہے کہ سنکیانگ میں 2018 میں شرح پیدائش تقریبا ایک تہائی کم ہوئی ہے لیکن ساتھ ہی چینی حکام نے جبری نس بندی اور نسل کشی کی خبروں کی تردید کی ہے۔سنکیانگ میں شرح پیدائش 2019 میں ملک بھر میں 4.2 فی صد کی کمی کے مقابلے مزید 24 فی صد گر گئی ہے۔ اسی سال جنوری میں اقوام متحدہ کی حقوق انسانی کونسل کے یونیورسل پیریوڈک ریویو، کے تحت چین کے انسانی حقوق کے ریکارڈ کا جائزہ لیا گیا۔ یہ ایک طریقہ کار ہے جہاں ملک ایک دوسرے کے انسانی حقوق کے ریکارڈ کی جانچ پڑتال کرتے ہیں۔ہر ملک کا پانچ سال بعد حقوق انسانی کونسل کی جانب سے جائزہ لیا جاتا ہے۔ دو ہزار اٹھارہ کے بعد یہ چین کا پہلا ریویو تھا۔ اقوام متحدہ کے اندازے کے مطابق دس لاکھ مسلمان سنکیانگ کے کیمپوں میں قید ہیں۔لیکن چین نے ہمیشہ ان الزامات کو مسترد کیا ہے۔اقوام متحدہ میں پاکستان اور دنیا کے 36 دیگر ممالک نے سنکیانگ میں مسلمانوں کے حوالے سے چینی حکومت کی پالیسیوں کی حمایت کی ہے۔جبکہ 22 ممالک نے چین کی مخالفت کی ہے۔اقوام متحدہ نے کہا تھا کہ اس کے پاس اس حوالے سے نا قابل تلافی ثبوت موجود ہیں کہ سنکیانگ میں ایغور نسل کے لوگوں کو ان کی مرضی اور بغیر کسی مقدمے کے حکومتی مراکز میں نظر بند کیا جا رہا ہے۔تاہم چین نے ان الزامات کع مسترد کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ ہنر سکھانے کے مراکز یا ووکیشنل ٹریننگ سنٹر ز ہیں جہاں مسلمانوں کی سوچ تبدیل کرتے ہوئے شدت پسندی سے نمٹا جائے گا۔ چینی حکام کا ماننا ہے کہ سنکیانگ کے مسلمانوں کو تربیتی مراکز میں رکھنا اسلامی شدت پسندی کے خاتمے کے لیے ضروری ہے۔دنیا بھر سے22 سفیروں نے اقوام متحدہ کو خط لکھا تھا جن میں زیادہ تعداد یورپی سفیروں کی تھی۔ ان خطوط میں سنکیانگ میں چینی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔اس کے جواب میں دینا کے37 ممالک نے انسانی حقوق کی کونسل کو خط لکھتے ہوئے انسانی حقوق کے حوالے سے چین کے پالیسیوں کی تعریف کی تھی۔اس خط میں لکھا گیا کہ سنکیانگ میں امن و امان بحال ہو گیا ہے اور یہاں تمام نسلی گروہون سے تعلق رکھنے والے افراد کو بنیادی انسانی حقوق حاصل ہیں۔چین نے اپنے اوپر لگنے والے تمام الزامات کی تردید کی ہے اور انسانی حقوق کی کونسل کے اجلاس کی اختتامی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چینی سفیر کا کہنا تھا کہ چین 37 ممالک سے ملنے والی حمایت کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button