کالم

یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہوگی(1)

میں نے بحریہ ٹاؤن کے متعلق لکھنے کا کیوں سوچا یالکھ رہا ھوں اسکی وجہ خالصتا اپنے جذبات کا اظہار، اور اسادارے سے جذباتی لگاؤ اور تعلق ہے جو 2002 میں یونیورسٹیسیفارغ ہونے کے بعد شروع ہوا اور اب تک جاری ہے۔
ہر طالب علم جب اپنی تعلیم مکمل کرتا ہے تو اسکے کچھ خواب ہوتے ہیں اسکے سامنے ایک سہانا مستقبل، اور اسکے پیچھے والدین کی انتھک محنت اور خون پسینہ بہا کے لگایا گیا سرمایاہوتا ہے۔ ان توقعات کے ساتھ کہ پڑھ لکھ کر ڈگری حاصل کرنے کے بعد انکا بیٹا یا عزیز ایک اچھی نوکری حاصل کرے گا یا بزنس شروع کر کے اپنے فیملی یا خاندان کے لیے بہتر روزگار کر پائے گااور معیار زندگی بلند کرے گا۔
زرعی یونیورسٹی پشاور سے فراغت کے بعد جب پہلی دفعہ نوکری کے لیے انٹرویو دینے نکلا تو میرے بھی ایسے ہی خیالات اور جذبات تھے۔
سفاری ولاز 01؛بحریہ ٹاؤن کے ایک چھوٹے سے آ فس کی انتظار گاہ میںبیٹھے اپنی باری کا انتظار کرتے ایک بزرگوار بابا جی کو بہت تیزی کے ساتھ دھمکی آویز واویلا کرتے،کوسنے دیتے،عجب او غریب القابات سے نوازتے،پچھے مڑ مڑ کر دیکھتے لیکن تیزی کے ساتھ سڑکھاتں اترتے دیکھا تو معلوم ہوا موصوف ملک ریاض صاحب کی وساطت اور تعلق سے کسی کام کے سلسلے میں آ ئے ہیں اور چرٹ منس سے قریبی تعلقات کے زعم میںوائس چیف ایگزیکٹوکموڈور(ر) محمد الابس کو دھمکا یا تڑی لگا بیٹھے ہیں اور اب ری ایکشن کے نتیجے میں اسی رفتار کے ساتھ سڑیھا ں پھلانگ رہے ہیں اور ذرا سوچوں میری حالت کہ ان بابا جی کے بعد کموڈور الالس صاحب نے میرا انٹرویو بھکرانا تھا۔
خیر ڈرے سہمے اپنی زندگی کا پہلا لیکن مختصر ترین انٹرویو دیا جسکا دورانیہ2 منٹ سے بھی کم تھا اور اگلے دن آ فر لیٹر بھی مل گیا اور 23جنوری 2002 کو میں نے بحریہ ٹاؤن کے ساتھ اپنے سفر کا آ غازاس نیت کے ساتھ کیا کے کچھ ماہ تجربہ حاصل کرنے،عملی طورپر کچھ سیکھنے کے بعد باقی ہم عصروں کی طرح کہیں یورپ یاخلیجی ممالک نکل جاؤں گا بہتر روزگار کے لیے۔لیکن یہ چند ماہ 22 سالوں پہ محیط ہوتے گے اسکی وجہ جہاں۔میرے باس کموڈور الیاس کی سحر انگیز شخصیت تھی وہیںچیئرمین، بحریہ ٹاؤن، ملک ریاض کی کچھ خاص اور نیا کر گزرنے کی لگیں جس نے ادارے کاایسا ماحول بنایا کے میرٹ اور محنت کے بل بوتے آ پ جتنی چاہیں ترقی کر سکتے ہیں۔ ہارٹیکلچر آفیسر سے شروع ہونے والاسفر جو ابھی ڈائیریکٹر تک پہنچ چکا اور جاری ہے اس عرصے میں ہر وہ جائز خواہش جو دل میں تھی پوری ہوئی زندگی بھی اپنوں کے ساتھ دکھ سکھ میں شریک ہوتے اپنے ہی ملک میں ہی گزری اور اللہ پاک نے اتنا نوازا کہ شاہد میں اس وقت اگر بیرون ملک چلا گیا ہوتا اس کا نصف بھی نہ حاصل کر سکتا۔
میرے جیسے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں ہیں جنھوں نے بحریہ ٹاؤن کے ساتھ کیرئیر شروع کیے، ملک میں رہے اپنا مثبت کردار ادا کیا، اپنی تعلیم اور مہارت استعمال کی، ادارے کے لیے کام کیا، اسے کامیاب بنایا اور خود بھی ہر وہ چیز حاصل کی جسکی تمنا تھی۔
میں جب آج ملک ریاض کو ملک سے باہر دیکھتا ہوں وہ وطنواپسی میں مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں اور بحریہ ٹاؤن کوکچھ لوگ اور طاقتیں نوچنے کے در پہ ہیں اور ملک میں تمام شہروں میں پراجیکٹس کو مختلف حیلے بہانوں، ہتھکنڈوں اورسیاست سے نقصان پہنچا کر ساکھ مجروح کی جارہی ہے اورکوشش کی جا رہی ہے کہ ملک ریاض کو جھکا کر مخصوص مفادات حاصل کیے جا سکیں یہ سوچے بنا کے یہ اب صرف مل کریاض کا معاملہ نہیں بلکہ لاکھوں لوگوں کی بالواسطہ یابلاواسطہ روزگار کا مسئلہ ہے جسکا وسیلہ اللہ پاک نے بحریہ ٹاؤن کوبنایا ہے، اسکے علاوہ لاکھوں لوگوں کو بھی نقصان ہو گا جوبحریہ ٹاؤن ویلفیر کے مختلف منصوبوں چاہے وہ مفتدسترخوان ہوں، ہسپتال یا دیگر فلاحی منصوبے سے فائدہ اٹھاتے یا مستفید ہوتیہیں۔
بحریہ ٹاؤن کہنے کو تو ایک کمپنی ہے، ہاوسنگ سکیم ہے لیکن اگرایک مخصوص زاویے سے دیکھا جائے تو یہ منی پاکستان بھی ہے یہ وہ ادارہ ہے جس نے پاکستانیوں کا معیار زندگی بلند کیا اورایک بالکل نیا ٹرینڈ سیٹ کیا، نئی راہیں متعین کیں، نئے معیار بنائیاور ہاوسنگ کو مکمل طور پر ایک انڈسٹری میں بدل دیا۔ پاکستان میں بہت سی صنعتیں جو زبوں حالی کا شکار تھیں اور بندش کے قریب تھی ان میں جان پڑ گی اور وہ دن رات چلنے لگیں جسنہ صرف ملکی معیشت مضبوط ہویی بلکہ بیروزگاری کا بھی خاتمہ ہوا۔ ہزاروں پڑھے لکھے نوجوانوں کو نوکریاں ملی۔ مزدور، مستری، مالی، سویپر غرض ہر طبقے کے افراد کو روزگار ملا اورپہلی دفعہ بیرون ملک حتی کے یورپی ممالک سے بڑی تعداد میں ماہرین اچھی تنخواہوں بھی نوکری پر رکھے گئے جس سے نہ صرف کام کا معیار بلند ہواسے بلکہ ملکی ٹیلنٹ کو بھی سیکھنے اور پھلنے پھولنے کا موقع ملا اس طرح ہمارے نوجوانوں نے اپنے نالج اور مہارت میں اضافہ کیا اور ظاہر ہے اس سے فائدہ ملک کا ہی ہوا۔
اسکے ساتھ ساتھ چیرمین بحریہ ٹاؤن نے ویلفیئر کے بہت سے منصوبے بنائے جو ابتدائی طور پر پروجیکٹ کے اردگرد کے علاقوں کے عوام کی بہتری کے لیے تھے لیکن ادارے کی کامیابی اور پھیلاؤ کے ساتھ ساتھ ان منصوبوں کا فائدہ اور دائرہ اختیار بھی پورے ملک میں پھیلتا گیا۔ پھر ایسا وقت بھی آیا کہ سیلاب ہو، آندھی یا طوفان، زلزلہ ہو، آگ لگے یا کوئی اور قدرتی آفت یا حادثہ سب کی نظریں بحریہ ٹاؤن رہ ہوتی ہیں جو صف اول میں رہ کر اپنے تمام تر وسائل استعمال کرتے ہوئے ہم وطنوں کی خدمت میں پیشپیش رہتا ہے۔مفت علاج شروع ہوئے، دسترخوان سجے،اجتماعی شادیاں کروانے کے کام اور دیگر فلاحی منصوبے ابتدائی طور پر ملک ریاض نے شروع کیے، انکی کامیابی اور افادیت دیکھ کر دیگر لوگوں اور اداروں نے بھی اس پر کام کیا اور ضرورتمندوں اور غریب عوام کا فائدہ ہوا۔
حقیقت میں دیکھا جائے تو آ ر ڈی اے،سی ڈی اے، ڈی ایچ اے اور دیگرسوسائٹیوں کی موجودگی میں بحریہ ٹاؤن کا بننا اور پھر اپنی بقا قائم رکھنا ہرگز ہرگز آسان نہیں تھا۔
ملک صاحب کے وژن اور خواب کو آگے بڑھانے اور کامیاب کرنے میں بہت سے ظاہری اور بے شمار ایسے لوگوں کا خون پسینہ اور محنت شامل تھی جو نظر نہیں آتے۔ میرے نزدیک ابتدائی کامیابی اورمقبولیت سفاری ولاز 01 سے ہوئی جو کموڈور (ر) محمد الیاس صاحب کی قیادت میں بنے اور اس دور میں ایک ایسا معیار سیٹ کیا گیا جو مشعل راہ بنا۔ پروجیکٹس کا بروقت مکمل ہونا اورصارف یا رہائشیوں کو منتقلی ہی کامیابی کی واحد وجہ اور دلیل تھی۔ یہی وہ چیزتھی جس نے عوام کا اعتماد جیتا اور بحریہ ٹاؤن کی ساکھ بنی اور پھر کامیابیوں، کامرانیوں کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہواجسکی نظیر نہیں ملتی اس ابتدائی ٹیم میں دیگر لوگ بھی شامل ہوتے گئے، پروجیکٹ پھیلتا گیا ایک سے دوسرے شہر اور پھرپورے ملک میں ہی منصوبے شروع ہوئے اور پھر لوگوں کا اعتماداس حد تک بڑھا کے بحریہ ٹاؤن کا دس روپے والا فارم بھی لوگ آنکھیں بند کر کے لاکھوں میں خریدنے لگے اسکی وجہ صرف اورصرف لوگوں کا اعتماد تھاکہ بحریہ ٹاؤن میں لگایا سرمایا نفع بخش بھی ہے اور قابل اعتماد بھی اور سونے پے سوہاگہ بروقت چیز بھی مل جاتی ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔(جاری)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button