قارئین! کہا جاتا ہے کہ جب سے انسانیت کا آغاذ ہوا تب سے ہی بعض کام سائنسی قوانین کی بنیاد پر کئے جاتے رہے۔ جہاں تک Established historyکا تعلق ہے تو باقاعدہ سائنس کا آغاذ فلسفے سے ہوا۔ تاریخ کے مطالعے سے یہ بات مشاہدے میں آتی ہے کہ باقاعدہ فلسفے پر کام کی ابتداء یونان سے ہوئی۔اس وقت ان فلسفیوں کا کہنا تھا کہ ما بعد الطبیعات کے علم تک بھی رسائی ممکن ہے۔ اسی کوشش میں انہوں نے ہزار سال تک whyاورhowدونوں پر کام جاری رکھا۔ لیکن جب فلسفی یہ جان گئے کہ howکا جواب جاننا ممکن نہیں کیونکہ انسانی حواس خمسہ جو کہ مشاہدات کے ذریعے وہ چیزیں جاننے کی کوشش کر رہے ہیں جس تک رسائی انسان کے اعضائے خمسہ کے بس سے باہر ہے تو انہوں نے اپنی عاجزی کا اظہار کرتے ہوئے یہ کہا کہ اب howیعنی کیوں کا جواب انسان کی عقل سے ماوراء ہے تو انہوں نے خود کو صرف whyیعنی کیسے تک کا جواب تلاش کرنے تک محدود کر لیا۔ اللہ تعالیٰ کو سائنسدانوں کی عاجزی اور اعتراف پسند آیا جس کے نتیجے میں گزشتہ دو ڈھائی صدیوں میں سائنسدانوں نے مادے پر کام شروع کیا۔ اس کی ترکیب،اس کے اجزاء اور قوانین کے مطالعے سے سائنسدانوں نے دنیا کا نقشہ بدل ڈالا۔ آج ہم کیمسٹری،بیالوجی،فزکس،میتھ اور دیگر کئی ایک سائنسز کے ذریعے وہاں کھڑے ہیں جس کا تصور آج سے تین صدیاں قبل محال تھا۔ قارئین! سوئی سے لے کر بلب تک اور بڑے بڑے جہازوں سے لے کر چاند اور پھر مریخ تک کی رسائی مادے کے مطالعے ہی سے ممکن ہوئی۔ میڈیکل سائنسز اور انجنئیرنگ نے دنیا میں ایسی تبدیلیاں لائی کہ خود انسان ورطہ ء حیرت میں مبتلاء ہے۔ آج کل بائیو ٹیکنالوجی اور space sciencesکی وجہ سے انسان نے نہ صرف لا علاج بیماریوں کو قابل علاج بنا ڈالا بالکہ اب انسان مریخ پر ڈیرے ڈالنے کے خواب دیکھ رہا ہے۔ انٹر نیٹ اور فوٹو ٹیلی کمیونیکیشن کے باعث ہم گھر بیٹھے ساری دنیا کی سیر کر سکتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں سائنسی ایجادات کی تہلکہ خیزی نے ساری دنیا کوایک چھوٹی سی بستی یعنی global villageبنا ڈالا۔اگر آج سے دو سوسال قبل کے کسی انسان کو موجودہ دور یعنی 2024ء میں لایا جائے تو وہ یہ سب کچھ دیکھ کر یقیننا اپنا دماغی توازن کھو بیٹھے گا۔قارئین! شروع میں جب psychologyکی ابتداء ہوئی تو پھر سائنسدان غلطی کھا گئے اور اسے روح یعنی soulکی سائنس کہا۔ لیکن جتن کرنے کے بعد جب سائنسدان روح کی حقیقت کو نہ سمجھ سکے تو پھر انہوں نے psychologyکو human behaviourکا نام دیا۔ایک معمولی سی بات چونکہ میں خود بایولوجی کا طالب علم ہوں ،تو عرض کرتا چلوں کہ سائنسدانوں نے اس میدان میں بھی سب حدود پار کرنا شروع کی ہوئی ہیں۔جانداروں کے ایک ایک عضو کی تشریح کر ڈالی۔اگر آپ بایولوجی کی کتب شمار کرنا چاہیں تو دنیا بھر کی لائبریریز میں کروڑں کتابیں پڑی ہوئی ہیں۔دلچسپ بات یہ کہ سائنسدانوں نے بایو لوجی کی تعریف تو کچھ یوں کیBiology is the study of life,,،،لیکن حیرت انگیز بات یہ ہے کہ دنیا بھر کی کروڑوں کتب میں کہیں بھی Lifeکو defineنہیں کیا جا سکا۔قارئین! مندرجہ بالا تحریر میں راقم نے سائنس کی لا جواب خدمات کا اعتراف کیا۔اور کرنا بھی چاہئے کیونکہ جس دور میں ہم رہ رہے ہیں اگر سائنسی ایجادات نہ ہوتی تو ہماری ساری کی ساری luxriesچھن جاتی۔ ہم وہی cave manیا پھر زیادہ سے زیادہtribal civilizationمیں رہ رہے ہوتے۔ لیکن دوسری جانب موت کے بعد کیا ہونا ہے؟روح کیا ہے؟ زندگی کی تعریف کیا ہے؟ ان سب سوالوں کے جواب دینے سے سائنسدان قاصر ہیں۔ پھر چونکہ بحیثیت انسان ہمیں خدا نے یہ شرف بخشا کہ ہم تحقیق کرتے ہیں،کوئی بھی سوال پیدا ہو تو اس کے جواب ڈھونڈنے کی جستجو میں زندگیاں صرف کر دیتے ہیں۔ قارئین! میں مذہب کا بھی طالب علم ہوں۔ کیونکہ موت میرا مسئلہ ہے اور مجھے اس بات کی جستجو ہے کہ موت کے بعد کیا ہو گا۔نفسانی علوم کیا ہیں؟ جنت اور دوزخ کا cocept کیا ہے؟ان سب سوالوں کے جواب میں نے آخری درجے کی کوشش کر کہ دیکھ لی کہ سائنس کی کسی شاخ یا کسی کتاب سے ہی مل جائے،لیکن جب مایوسی ہوئی تو یہ عقدہ کھلا کہ سائنسدانوں نے whyپر تو کام کیا لیکنhowکو کیوں چھوڑ دیا۔ کیونکہ جو بھی مسئلہ howکے ضمرے میں آتا ہے اس کا جواب سائنس کے پاس نہیں بالکہ مذہب کے اندر موجود ہے۔ اسی سلسلے میں خدا نے حضرت آدم کو زمین پر اپنا نائب بنا کر بھیجا اور یہ سلسلہ خاتم الانبیاء حضرت محمدۖ تک جاری رہا۔ان کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کرام کو خدا نے کیوں مبعوث کیا؟ جب آپ اس پر غور کریں گے تو آپ کو موت کے بعد کیا ہوگا کا جواب ملے گا۔زندگی کی تعریف ملے گی۔ روح کیا ہے آپ جان سکیں گے۔ اگرچہ سب انبیاء کرام نے توحید کو درس اول کے طور پر پیش کیالیکن جب رسولوں اور نبیوں کے سلسلے پر مہر ثبت کر دی گئی اور حضرت محمد ۖکو آخری نبی بنا کر ساری دنیا کو انہی سوالات کے جواب دینے کے لئے مبعوث فرمایا تو تصور کیجئے کہ ایک امی نبیۖجو نہ لکھنا جانتے تھے اور نہ پڑھنااور چالیس سال تک وہ محمد بن عبداللہ بن کر مکے کے اندر لوگوں میں موجود رہے لیکن ان چالیس سالوں میں انہوں نے ایک مرتبہ بھی یہ ذکر نہیں کیا کہ ان پر کوئی کتاب اترے گی یا وہ نبوت و رسالت کے منصب پر فائز ہوں گے۔ اور چالیس سال تک وہ کہیں کسی جگہ چھپ کر نہیں بیٹھے رہے بالکہ عام انسانوں کی طرح انہوں نے تجارت کی،بکریاں چرائیں،لوگوں کے ساتھ لین دین کیا،حضرت خدیجہ سے شادی کی،ان کے ہاں بچے پیدا ہوئے۔ اور پھر وہ عظیم معجزہ ہو گیا جب نبی اکرمۖ نے یہ اعلان کر دیا کہ اللہ نے انہیں نبوت و رسالت کے درجے پر فائز کر دیا ہے اور ان پر قرآن وحی کی صورت میں جبرائیل امین لاتے ہیں۔قارئین! ذرا تصور کیجئے کہ الہامی مذاہب جن کو مختلف ادوار میں مختلف نام دئیے گئے آخر کار اسلام پر جا کر اختتام پذیر ہوئے۔ یہ بات نہیں تھی کہ پہلے انبیاء جیسا کہ موسیٰ کلیم اللہ نے یہودیت کی تعلیم دی یا عیسیٰ روح اللہ نے عیسائیت کو اپنا مذہب کہا۔ مذہب تو حضرت آدم سے ہی اسلام ہی تھا۔لیکن مختلف انبیاء کرام کے پیرو کاروں نے اس کو مختلف نام دئیے۔سادہ لفظوں میں اگر کہا جائے کہ اسلام کے پہلے نبی حضرت آدم صفی اللہ تھے اور آخری نبی حضرت محمدۖ تھے تو بات آسان ہو جائے گی۔ اس کی دلیل کے لئے اتنا کافی ہے کہ ہمارے جد امجدحضرت ابراہیم خلیل اللہ نے کہا تھا کہ مجھے ,,مسلم حنیف،، بنا کر بھیجا گیا ہے۔ یعنی کہ ہمارے دادا ابراہم خلیل اللہ نے اس بات کا اعتراف کیا کہ ان کو اسلام کی ترویج کے لئے مبعوث فرمایا گیا۔
قارئین! اب معمولی سا سائنس اور مذہب کا تقابلی جائزہ لیں۔جس بات کا جواب سائنس نہیں دے سکی اس کا جواب مذہب نے کھول کھول کر بیان کیا۔مثلا سائنس اس سوال کا جواب دینے سے قاصر تھی کہ موت کے بعد کیا ہوگا،مذہب نے وضاحت کی کہ میں نے انسانوں کو اختیار دے کر دنیا میں بھیجا۔ یہ اختیار اچھائی اور برائی کا تھا۔ اس کی تعلیمات مختلف ادوار میں انبیاء کرام کے ذریعے سے انسان تک پہنچائی گئیں۔وہ یہ کہ جس نے دنیا کو امتحان گاہ سمجھ کر اللہ تعالیٰ کے احکامات کی بجا آوری کی تو اسے ابدی زندگی یعنی جنت بدلہ دیا جائے گا۔اور جس نے اختیار اور ارادے کے باوجود گمراہی اختیار کی اس کے لئے جہنم کی آگ بھڑکا ئی جا چکی ہے۔
پھر زندگی کی تعریف اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں کی,,میں نے جنوں اور انسانوں کو اس لئے پیدا کیا تا کہ یہ میری بندگی اختیار کریں،،۔اس کے بعد جس روح کو سائنسدان جتن کرنے کے بعد بھی نہیں جان سکے اس کے بارے میں ارشاد خداوندی ہے کہ,,اور جب میں نے آدم کو نک سک کر سنوار دیا تو اس میں لطیف پھونک ڈال دی،، اور یہی روح ہے۔
قارئین! ابھی یہ بحث اتنی طویل ہے کہ اس اداریے میں اس کو سمونا ممکن نہیں،لیکن اتنا عرض کرتا چلوں کہ چونکہ اب نبوت کا سلسلہ ختم ہو چکا،اور قرآن ہمارے بیچ میں معجزے کی شکل میں قریبا پندرہ سو سال کے باوجود ایک حرف کی تبدیلی کے بغیر محفوظ ہے۔ دنیا کے بڑے سے بڑے ادیب کو اٹھا کر پڑھئے،ان میں حضرت اقبال ہوں،غالب ہو،شیکسپئرہو،کارل مارکس ہو۔۔آپ کسی بھی کتاب کی maximumعمر سو سال لگا سکتے ہیں۔سوسال کے بعد آپ اس کتاب کے اندر کئی غلطیوں کی نشاندہی کر سکتے ہیں۔پھر یہ اعجاز قرآن مجید کو کیسے حاصل ہوا کہ ایک امی نبیۖ پر اللہ کی طرف سے اترنے والا کلام ایک حرف کی غلطی سے مبرا ہے۔ ذرا سوچئے کہ اللہ نے خود کہا ,,ہم نے ہی اس قرآن کو نازل کیا اور ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے،،۔ اور جس کتاب کی حفاظت کی ذمہ داری خدا خود لے تو نعوذ باللہ اس میں رد و بدل کی گنجائش کہاں رہتی ہے۔ یہاں سائنس کے دیوانے لا جواب ہو جاتے ہیں کہ ختم نبوت کے بعد بھی اگر کوئی بات وجہ نزع بن جائے تو قرآن مجید اس تنازعے کے خاتمے کے لئے آج بھی روز اول کی طرح زندہ و جاوید کلام کی صورت میں ہمارے پاس محفوظ ہے۔اور اسی لئے تو اسے فرقان بھی کہا گیا۔ فیصلہ آپ کیجئے کہ سائنس زیادہ پائیدار علم ہے یا مذہب؟؟
0 47 6 minutes read