کالم

وہ جو چپ چاپ ملکی دولت سمیٹتے رہے؟

ملک کی معیشت جب لڑکھڑا رہی ہو تو ترقی کیا ہو گی؟ عوام کے دن کیسے پھریں گے قرضے لے لے کر نظام مملکت تادیر نہیں چلایا جا سکتا لہذا معاشی حالات بہتر کرنے کے لئے ضروری ہے کہ خلوص نیت سے خزانہ بھرنے کی کوئی سبیل نکالی جائے اور ان وجوہات کو بھی دور کرنے کی کوشش کی جائے کہ جنہوں نے آج ہماری حالت ایک بھکاری سے بھی بد تر کر دی ہے۔ان دنوں دبئی میں جو ہمارے کرتا دھرتاں کی ملکیتی جائیدادوں کا انکشاف ہوا ہے وہ انتہائی ہوشربا اور جھنجھوڑ دینے والا ہے اے کاش! اگر وہ ملک میں موجود ہوتیں تو ان سے ہزاروں بے روزگاروں کو روزگار ملتا مگر شاید ان کھرب پتیوں کو یہ اندیشہ لاحق تھا کہ یہاں کے حالات ان کے موافق نہیں ہوں گے لہذا کیوں نہ اپنی دولت کسی دوسرے ملک میں لے جا کر محفوظ کر لی جائے جبکہ ان ہی نے حالات کو بہتر بنانا تھا کیونکہ اس وقت زیادہ تر وہی لوگ اقتدار میں ہیں جنہوں نے دبئی میں جائیدادیں بنائیں۔عوام کی خواہش ہے کہ اگر یہ مالکان اپنی قیمتی ترین جائیدادیں فروخت کرکے سارا پیسا ملک میں لے آتے ہیں تو ہماری آئی ایم ایف سے جان چھوٹ سکتی ہے مگر ان کی یہ خواہش کبھی پوری نہیں ہو گی کیونکہ انہوں نے عوام کا سرمایہ اس خیال سے بیرون ملک منتقل نہیں کیا کہ اسے واپس لایا جائے وہ تو اب بھی چپ چپیتے دھیرے دھیرے اپنے کام میں لگے ہوئے ہیں لہذا ان سے امیدِ روشن مستقبل فضول ہے۔مستقبل روشن اس نظام کو بدلے بغیر ممکن نہیں کیونکہ موجودہ نظام حیات میں قومی دولت سمیٹنے کی باقاعدہ گنجائش موجود ہے لہذا اہل اقتدار و اختیار کو ہدف تنقید بناتے کے بجائے اس سفاک نظام سے نجات حاصل کرنے کے لئے پر امن جد وجہد کی جائے اگرچہ ان کی راہ میں مشکلات آئیں گی مگر یہ تو ہو گا۔ پوری دنیا میں جہاں پرانے نظام تحلیل ہوئے وہاں کے لوگوں نے برسوں بلکہ صدیوں تک جد وجہد کی۔ بہر حال اب یہ معلوم ہو چکا کہ ہماری اشرافیہ عوام دوست نہیں کہ جس نے کھربوں اپنے دامن میں سمیٹ کر وطن عزیز کو مقروض بنا دیا ہے یہ قرضہ ہر بچہ اور بڑا لاکھوں میں ادا کر رہا ہے اس کے باوجود عوام کو آسانیاں اور راحتیں نہیں مل رہیں اس کے بر عکس اشرافیہ جدید ترین آسائشوں سے لطف اندوز ہو رہی ہے اس نے مال و متاع اس قدر اکٹھا کر لیا ہے کہ اس کی آنے والی نسلوں کے لئے کافی ہے۔اب جب عوام کو کھربوں کی خبر ملی ہے تو وہ انگشت بدنداں ہیں ان کی طرح دوسرے ملکوں کے لوگ بھی حیرت زدہ ہیں کہ جب پاکستان میں غربت بے روزگاری اور مہنگائی کی اخیر ہوچکی ہے تو ان کے حکمران طبقات کیسے کھربوں کے مالک بن گئے۔ ان سے کیوں نہیں پوچھا جاتا کہ اتنا سرمایہ تم لوگوں نے کہاں سے لیا؟گزارش یہ ہے کہ ان سے کوئی کیسے پوچھے کہ آئین اور قانون کو تو انہوں نے موم کی ناک سمجھ رکھا ہے پھر جنہوں نے اگر پوچھنا بھی ہے تو وہ خود بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتے رہے ہیں اس کے ثبوت اب واضح طور سے دیکھے جا سکتے ہیں یہی وجہ کہ اشرافیہ سے عوام کی نفرت عروج پر پہنچی نظر آتی ہے انہیں اب عوام سے زیادہ توقع نہیں رہی کہ وہ ان کے لئے ایسے اقدامات کرے گی کہ جس سے ان کی تقدیر بدل جائے گی۔انہیں نا انصافی اور بے روزگاری سے چھٹکارا مل جائے گا تعلیم اور صحت کی سہولتیں ترقی یافتہ ملکوں کے عوام کی طرح میسر آسکیں گی اب تو وہ اس بات سے بھی سخت نالاں ہیں کہ ان کی رائے کو یکسر رد کر دیا گیا ہے کہ یہ تو جاہل ہیں گنوار ہیں انہیں کیا معلوم کسے منتخب کرنا ہے اور کسے نہیں کرنا لہذا ان کا غصہ ہر فورم سے ظاہر ہو رہا ہے مگر حکمران طاقت سے معاملات کو دیکھنا چاہتے ہیں جو کہ اب ممکن نہیں۔آزاد کشمیر کی مثال ہمارے سامنے ہے وہاں کے عوام نے کھل کر اپنی نفرت کا اظہار کیا وہ جو نعرے لگا رہے تھے وہ یہاں بیان نہیں کیے جاسکتے سوشل میڈیا پر سب موجود ہے ان کے اس احتجاج نے اگرچہ اہل اقتدار کو جھنجھوڑا ہے اور وہ ان کے مطالبات ماننے پر مجبور ہو گئے ہیں مگر انہیں یقین اس وقت آئے گا جب باضابطہ ان پر عمل درآمد ہو گا کیونکہ موجودہ حکمران ایک نئی طرح کے مینڈیٹ کے ساتھ سامنے آئے ہیں لہذا ان کے اقدامات پر بھی آخری مرحلے ہی میں یقین کیا جا سکتا ہے۔بہر کیف ہماری معاشی حالت انتہائی دگر گوں ہے جس کی ذمہ دار اشرافیہ ہے۔اس کے اثاثے اتنے بڑھے ہیں کہ بندہ سن کے بے ہو ش ہو جائے مگر اس کی ہوس زر اب بھی ختم نہیں ہو رہی اب بھی اس نے اپنی تجوریاں کے منہ کھول رکھے ہیں کہ انہیں غریب عوام کے پیسے سے بھرا جا سکے۔یوں معیشت کی بدحالی روز بروز بڑھتی چلی جا رہی ہے اس کی فکر مگر کسی کو نہیں کسی کو یہ بھی فکر نہیں کہ آئندہ ہمارا حال کیا ہو گا۔اگر کسی کو عوام کی حالت پر ترس آجائے تو یقین کیجئے گا کہ یہ غربت بے بسی آزردگی اور نا انصافی کے مناظرے کافور ہو جائیں مگر ایسا نہیں ہو گا کیونکہ اشرافیہ لوگوں کو معاش کے خوف میں مبتلا رکھنا چاہتی ہے کہ کہیں وہ خوشحال ہو کر اقتدار میں حصہ نہ لینے چل پڑیں اور ان کے احتساب کے قابل نہ ہو جائیں؟ملک عزیز کو اس وقت اتنے بڑے بگاڑ کا سامنا ہے کہ اسے ٹھیک کرنے کے لئے جنگی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے مگر مجال ہے اس طرف کوئی آئے؟اقتدار کی بھوک نے حکمرانوں کو بے حس کر دیا ہے ککھوں ہولاکر دیا ہے وہ سوائے اپنی ذات کے اور کچھ سوچنا ضروری نہیں سمجھتے یہ جو پٹرول سستا کیا ہے تو قرضہ دینے والوں کی اجازت سے کیا گیا ہے کیونکہ انہیں (قرضہ دینے والوں) معلوم ہے کہ اب عوام کے لئے ٹیکسوں کی بھر مار کو برداشت کرنا مشکل ہو چکا ہے لہذا انہیں نفسیاتی طور پے مطمئن کیا جائے تاکہ وہ تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق ان کی قسطوں پر اثر انداز ہونے کا آغاز ہی نہ کر دیں لہذا پٹرول کو سستا کر دیا ہے جبکہ یہ ایک چالاکی ہے اس سے پہلے بجلی کی قیمت دو اڑھائی روپے بڑھا دی گئی ہے آنے والے دنوں میں بھی بڑھائے جانے کا امکان ہے

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button