
اللہ تعالیٰ کا احسان ھے کہ رمضان کا مہینہ ایک مرتبہ پھر نصیب ہو رہا ہے، عشرہ رحمت میں ھم زندہ ہیں اس سے بڑی رحمت کیا ھوگی، ھمیں اللہ تعالیٰ نے انسان پیدا کیا، پھر اسلام کے پیغام اور دولت سے نوازا کیا یہ احسان اور رحمت کم ھے، ذرا غور کیجیے کہ اگر ھم اس رحمت سے محروم ھوتے اور یہ ھدایت بھی وہ نہ دیتا تو ھم کیا کر سکتے تھے، اسی پر غور کر کے اس کا شکر ادا کریں تو کم ھے زندگی کی ان گنت نعمتیں عطا ھوئیں جن کو ھم اچھائی یا پھر برائی کے لیے استعمال کرتے ہیں، ان نعمتوں کی کوئی قیمت دے سکتا ہے؟ پاؤں سے سر تک نعمتوں کے انبار کیا شکر گزاری کا تقاضا نہیں کرتیں، اللہ تعالیٰ نے رحمت کا دروازہ کھولنے کے لیے اپنے اسم کی کنجی عطا کی ھے جس کو بسمہ اللہ سے کھول کر اس کی رحمت اور شفقت، مہربانی اور بہت زیادہ مہربانی کا دروازہ کھلتا ہے، ھم سورہ فاتحہ میں داخل ھوتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء سے، عالمین کے رب ھونے کی تصدیق کرتا ہے، یہ یقین کرتے ہیں کہ آخرت کا مالک بھی تو ھے، یہ ان دیکھے منظر کا پختہ یقین ہے، یہ بھی وعدہ کرتے ہیں کہ ھم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے مدد مانگتے ہیں، ھمیں ایسا راستہ دکھا دے جو تو نے اپنے انعام یافتہ بندوں کو عطا کیا، اور ھمیں ایسے راستے سے بچا دے جس پر غضب والے چلتے اور اپنے آپ کو ھلاکت میں ڈالتے ہیں، یہ رحمت خداوندی ہی ہے کہ ھم فلاح مانگتے اور فلاح چاہتے ہیں، ھماری نیت فلاح کی، دل اس کی گواہی دیتا ہے اور قیام و قعود اور سوتے جاگتے یہ احساس زندہ رکھتے ہیں کہ میرا رب مجھے دیکھ ریا ہے، وہ ذکر سے، رجوع سے اپنے بندوں کو معطر کرنے کا ذریعہ بناتا ہے اور خود چاہتا ہے کہ میرے بندے مجھ سے رحمت کے طلب گار بن جائیں، ھم اس سے اس سے معافی چاہتے ہیں رحمت چاہتے ہیں اس لیے کہ وہ سب سے بہترین رحمت عطا کرنے والا ھے اور مجھ جیسے گناہگار کو ایک قطرہ رحمت ہی اس بحر بیکراں سے عطا ھو جائے تو بیڑا پار ھو جائے گا۔
اللہ تعالیٰ کی رحمت ھے کیا؟ غور کیا جائے تو بآسانی سمجھ آجاتی ہے بسمہ اللہ الرحمن الرحیم کے آغاز سے ہی وہ اعلان کر دیتا ہے کہ میں الرحمن الرحیم ھوں،وہ کائنات کی ہر چیز کے لیے رحمت، شفقت اور مہربانی رکھتا ہے، لیکن جب انسان اس کی محبوب تخلیق ھے تو اس کے لیے رحمت کتنی ھوگی اس کا اندازہ کرنا بھی مشکل ہے،انسان اپنے اوپر غور کرے، اپنے کر توت دیکھے اور پھر فیصلہ کرے کہ کس کس موقع پر اللہ تعالیٰ نے اپنی شفقت اور مہربانی سے اس نے گناہوں، غلطیوں اور لغزشوں پہ پردہ پوشی کی ھے، انسان کتنا خطا کوش ھے اور وہ کتنا پردہ پوش ھے، اندازہ لگانا مشکل ھو جاتا ھے، کیسے کیسے کم ظرف، اور بے عمل لوگوں کو ایسے نواز دیتا ہے کہ حیرت میں مبتلا ھو جائیں، یہاں تک کہ ظالم اور جابر کے اہتمام حجت کا وہ انتظار کرتا ہے کہ شاید کہ وہ پلٹ آئے، ھم بطور مسلم بڑے بے وفا ہیں جس ایمان کی دولت سے ھمکنار ہیں اس کا شکر ادا کرنے سے بھی قاصر ہیں، میں نے اکثر یہ دیکھا ھے کہ وہ لوگ جو نئے اسلام کے دائرے میں داخل ھوتے ہیں کس قدر، قدر دان ھوتے ہیں کہ اللہ کی رحمت سے منہ نہیں موڑتے، ھم ہیں کہ یہ دولت چھوڑ کر دولت دنیا میں ڈوب جاتے ہیں، جس نے کبھی وفا نہیں کی، رمضان کے پہلے عشرے میں اس رحمت کی تلاش خدمت انسانی، رجوع الہی اللہ، تدبر اور تفکر سے ممکن ہو سکتی ہے ان میں سے ایمان کے ساتھ کوئی بھی راستہ اپنا لیں رحمت میسر آئے گی اور جس کا لطف بھی محسوس کریں گے اور قرب بھی پائیں گے، یہ لمحات بڑی مشکل سے دستیاب ھوتے ہیں، کسی آزمائش میں یہ رحمت زیادہ ھوتی ھوئی بھی دکھتی ہے، بس اس بحر بیکراں میں اتر کر دیکھیں، قرآن اور رمضان کے تعلق پر غور کریں ایسی انمول دعوت ملے گی، جس کے اندر خزانے چھپے نہیں کھلے عام نظر آتے ہیں اور وہ حقیقت منتظر لباس مجاز میں نظر آنے گی، کسی کی بھوک پیاس کا بھی احساس ھوگا، دکھ اور درد سے بھی آشنائی ملے گی، اور اس کے رحمت کے سائے میں حقیقی خوشی بھی ملے گی، رات کے آخری پہر تھوڑا سا ھی سہی اعتکاف کر لیں، محض غور و فکر کے لیے ہی سہی، چند فیصلے کیجیے کہ میں نے کس طرح رحمت خداوندی کو پانا ہے، پھر اس سفر پر نکل جائیں منزلیں گرد کی ماند اڑی جائیں گی اور آپ کو ہر لمحے نئی منزل میسر آئے گی۔۔۔جاری