مثبت امید اچھی بات ہیاور امیدانسان کو جینے کا حوصلہ دیتی ہے.منفی امید سے مایوسی بڑھتی ہیاور اچھا خاصا بہتر زندگی گزارنے والا فرد بھی پریشان کن زندگی گزارنے پر مجبور ہو جاتا ہے.ایک فرد گھٹا ٹوپ اندھیروں میں ڈوبا ہوا ہواور اس کو جینے کا کوئی آسرانظر نہ آرہا ہوتو مثبت امید اس کے لییروشنی بن کرجینے کا سہارا بن جاتی ہے.مثبت امید بہتر ہے مگر حقائق سے نظریں چرانا بھی کہاں کاانصاف ہے؟پاکستان کے حالات کس سمت جا رہے ہیں,اس پر غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے.کون سا سرکاری ادارہ یا شعبہ عوام کی نظروں میں معتبرہے۔پولیس کاادارہ عوام کی نظروں میں غیر معتبر ہے،عدلیہ پرتنقید ہوتی رہتی ہے،محکمہ مال سے عوام کو ڈھیروں شکایات ہیں،سیکیورٹی اداروں اور عوام میں فاصلے بڑھ رہے ہیں،تعلیم کا محکمہ عوام کی امیدوں پر پورا نہیں اتر رہا ہے،ایکسائز کا ادارہ عوام کو مطمئن نہیں کر پاتاہے،معدنیات اورواپڈا کے ادارے عوام کی تنقید کی زد پر رہتے ہیں،نادراسے بھی عوام کو کافی شکایات ہیں،بلکہ تمام سرکاری اداریعوام کی مشکلات دور کرنے میں ناکام رہتے ہیں.سرکاری ادارے عوامی خدمت کے لیے قائم کیے جاتے ہیں لیکن عوام کا ان اداروں پر عدم اطمینان سوالیہ نشان بن رہا ہے۔واپڈا کو دیکھیے،عوام کی کھال اتارنے میں مصروف ہے.یہ درست ہے کہ یہ حکومتی ادارہ ہے اور حکومتی احکامات کی روشنی میں اپنے امور سر انجام دے رہا ہے،مگر لامحدود قسم کے ٹیکسز نیاس ادارے کی ساخت بہت ہی بری طرح متاثر کر دی ہے.بجلی کے بل آتے ہیں تو عوام کی چیخیں آسمان تک جا پہنچتی ہیں۔ایک عام آدمی کسی کام کے لیے سرکاری ادارے میں جاتا ہے تو اس کو مایوس کن تجربہ حاصل ہوتا ہے.سرکاری اداروں میں اکثر رشوت دینا پڑتی ہے اورذہنی کوفت کے علاوہ اکثر اوقات ذلالت کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے.ایک شہری،جس کے ٹیکس پر ادارے چل رہے ہوتے ہیں اور جب وہ ادارہ سہولت دینے کی بجائے پریشانیاں دینا شروع کر دے تو اداروں اور عوام میں فاصلیبڑھ جاتیہیں۔کچھ ادارے شایدعوام کو کم پریشان کریں لیکن اکثر اداروں کی یہ حالت ہے کہ وہاں رشوت دینا یا سفارش کرنا لازمی عنصرہے۔ہاں البتہ 1122سروس (ریسکیو)عوامی حلقوں میں پسندیدگی کی نظروں سے دیکھا جاتا ہے.شاید یہی واحد ادارہ ہیجو عوام کو مصیبت میں فورا ہی رسپانس دیتا ہے.اکا دکا شکایات شاید ہو مگر اس کی کارکردگی قابل تعریف ہے.بہرحال اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ بعض اداروں میں اچھے افراد موجود ہیں جو ادارے کا وقار برقرار رکھتے ہیں.ملک کا نظام چل رہا ہیتو اچھے افراد کا مرہون منت ہے.سول بیوروکریسی کوبھی مسائل حل کرنے چاہیے.بعض اوقات بیوروکریٹ اپنےآپ کو عوام سے اتنا دور کر لیتے ہیں کہ لگتا ہے دوسرے سیارے کے شہری ہیں اور عوام علیحدہ سیارے کے شہری ہیں.پھر جو کام دو گھنٹوں میں ہو جانا چاہیے،وہ ہفتوں بلکہ مہینوں تک جا پہنچتا ہے.نادراکے متعلق بھی شہری بے پناہ شکوہ کناں نظرآتے ہیں.باقی اداروں کی نسبت نادراسے شہریوں کا زیادہ واسطہ پڑتا ہے کیونکہ ہر شہری نے شناختی کارڈ ،فارم ب یا دوسری ضروری دستاویزات لازما بنوانی پڑتی ہیں۔ان ضروریات کی وجہ سے نادرا کے دفتر جانے والے شہریوں کوہمیشہ شکایات رہتی ہیں۔نادرا کا عملیکا رویہ نامناسب دیکھنے میں آتا ہے۔نادراکے دفتر والے معمولی سی بات کے لیے بھی اکثر پریشان کرتے رہتے ہیں.شریف شہریوں کونادراکیعملہ سے اکثر جھڑکیاں بھی کھانا پڑتی ہیں،ہاں اس وقت باعزت طور پر تمام مسائل چٹکی بجاتے حل ہو جاتے ہیں کہ اگر کسی کے پاس پاور ہو.نادرا پر حکومت کو توجہ دینی چاہیے تاکہ عوام کوآسانی رہے۔یہ بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ کچھ اچھے افراد اپنے ادارے کا نام روشن کر رہے ہیں بلکہ ہر ادارے میں اچھے افراد بھی ہیں،جن کو دیکھ کر لگتا ہے کہ پاکستان ایک مثالی ملک بنیگا۔
یہ بات بھی درست ہیکہ مختلف اداروں والے شکایات کرتے رہتے ہیں کہ عوام ان کوبیجا تنگ کرتی ہے۔بعض اوقات گنجائش تھوڑی ہوتی ہے لیکن کام زیادہ کرنا پڑتا ہیجس کی وجہ سے عوام کے ساتھ ہماری پریشانی میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے.بعض محکمے اس بات کی شکایت کرتے ہیں کہ حکومت وسائل کم دیتی ہے لیکن مسائل زیادہ ہوتے ہیں،جس کی وجہ سے ایسی صورتحال پیدا ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے شہری ہمارے خلاف شکایتیں کرتے رہتے ہیں.گزشتہ دنوں ایک پولیس والا کہہ رہا تھا کہ ہمیں گشت کے لیے معمولی سا پٹرول ملتا ہیلیکن ضرورت زیادہ ہوتی ہے،جو کہ ہم اپنی جیب سے ادا کرنے سے قاصر ہوتے ہیں یا سٹیشنری وغیرہ خریدنی ہوتی ہے,ایسے اخراجات ہم اپنی تنخواہ میں کیسے پورے کر سکتے ہیں؟اگر حکومت ہمیں تمام سہولیات دے تو ہم رشوت کا ایک پیسہ بھی نہیں لیں گے.دوسرے ادارے بھی اس قسم کے بحرانوں کا شکار ہیں۔ان کی کچھ شکایات درست ہوتی ہیں لیکن زیادہ تر عوام کو خوامخواہ پریشان کیا جاتا ہے.کچھ ایسیمسائل ہوتے ہیں جن کی نوعیت معمولی قسم کی ہوتی ہے لیکن ان کو بھی حل کرنا عوام الناس کے لیے مشکل ہو جاتا ہے.
پاکستانی حالات درست ہونے چاہیے،ایسا تو کہنا ہر شہری پسند کرتا ہے مگر جو ذمہ داریاں اس پر ہیں، ان کوپوری کرنا وہ ضروری نہیں سمجھتا.بعض افراد اس وجہ سے بھی کسی مسئلہ کے حل کی طرف توجہ نہیں دیتے کیونکہ وہ مسئلہ عام آدمی کی نسبت ان کے لیے مسئلہ نہیں ہوتا بلکہ آسانی سے حل ہو جاتا ہے۔عوام اس بات پر مضبوطی سیقائم رہیں کہ اداروں میں کرپشن کا خاتمہ کر کے دم لیں گے تو ناممکن بات ہے کہ وہ کامیاب نہ ہو جائیں.اس کے لیے یہ ہونا ضروری ہے کہ میرٹ کا نظام لانا ہوگا.عدم میرٹ اگر عوام کی پریشانی میں اضافہ کر رہا ہے تو اس کے ذمہ دار بھی عوام ہی ہے۔چارافراد دیکھ رہے ہوتے ہیں کہ ایک شہری کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے لیکن وہ خاموشی سے تماشہ دیکھتے ہیں اور کچھ نہیں کرتے،جس کی وجہ سے مسائل بڑھ جاتے ہیں.ان کے ذمہ دار سیاست دان بھی ہیں،کیونکہ اقتدارمیں رہنے والا فرد باآسانی مسائل کو حل کر سکتا ہے،لیکن وہ بھی ایسا نہیں کرتا کیونکہ اس کو علم ہوتا ہے کہ اگرمیں مسائل حل کرنا شروع کر دوں تو مجھ سے اقتدار روٹھ بھی سکتا ہیحالانکہ یہ اس کا غلط خیال ہوتا ہے۔
مثبت امید بہت ہی بہترین ہوتی ہے۔مثبت امیدجینے کا سہاراہوتی ہے مگر حقائق کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے.پاکستان آگے بڑھ رہا ہیاور اس کا مستقبل خاصا روشن ہے,مگر تب یہ تیزی سے بڑھے گاجب مسائل کا ادراک حاصل ہوگا.اس بات کوتسلیم کرنا ہوگا کہ میرٹ ہی کسی معاشرے یا قوم کے لیے ضروری ہوتا ہے.عدل تمام مسائل حل کرنے کا ضامن ہوتا ہیلیکن عدل آسانی سے حاصل نہیں ہوتا بلکہ اس کے لییجدوجہددرکار ہوتی ہے۔عدل و انصاف کسی معاشرے کی خوشحالی یابقا کیضامن ہوتے ہیں۔سیاست دانوں کا کڑا احتساب کرنا ضروری ہے.سیاستدان معاشرے میں اگر چاہے توآسانی سے تبدیلی لا سکتا ہے۔خوشحالی لانے کے لییپاکستانی قوم کو”ایک قوم”ہونا پڑے گا.رنگ،نسل،زبان اورعلاقہ کی بجائے پورے پاکستان کے لیے سوچنا ہوگا.لازمی نہیں کہ ایسے حالات ہماری قسمت میں لکھے جا چکے ہیں,بلکہ مسائل حل ہو سکتے ہیں.یہ امید ہے کہ پاکستان کا مستقبل بہترین ہوگالیکن حقائق پر بھی نظر رکھنی ہوگی.مثبت امید بہتر ہے مگر حقائق نظر انداز نہیں کرنے چاہیے۔حقائق سے نظریں چرانا کہاں کا انصاف ہے؟
0 32 5 minutes read