کالم

پاکستان اور کرغستان کی انویسٹمنٹ کانفرنس!

پاکستان دنیا کی بڑی آبادی والے ممالک میں شامل ہے۔ اب ہمارے پاس دو ہی راستے ہیں۔ یا تو ہم اپنی افرادی قوت کو اپنی کامیابی بنا سکتے ہیں یا پھر یہ آبادی خود اپنے اوپر ہی ایسا بوجھ بن کر گرے کہ سبھی کچھ تباہ ہو جائے۔ بدقسمتی سے ہم دوسری سمت رواں دواں ہیں۔ بڑھتی مہنگائی ، ٹیکسوں کا بوجھ ، بے روزگاری ، قرضے اور تجارتی خسارے کے ساتھ ساتھ خاص طور پر نوجوانوں کے لیے کاروباری مواقع کی کمی اس کی بڑی وجہ بن رہی ہے۔ ہمارے ہی ہمسایہ ملک چین نے دنیا پر واضح کیا ہے کہ بڑی آبادی کس طرح ملک کی ترقی کا اہم ستون بن سکتی ہے۔ یہی ماڈل پاکستان بھی اپنایا جا سکتا ہے۔بڑی آبادی کا ایک نتیجہ ملکی وسائل میں تیزی سے کمی ہونا ہے جیسے ہم بجلی اور گیس کی کمی کا شکار ہو رہے ہیں۔ تو دوسرا مطلب دنیا کے لیے بڑی منڈی ہونا بھی ہے کہ دنیا بھر کے مسل کی کھپت ان ممالک میں زیادہ ہوتی ہے جہاں آبادی زیادہ ہو۔ مثبت انداز میں دیکھیں تو پاکستان دنیا بھر کی تجارت کے لیے بڑی منڈی ہے جہاں آبادی کے بے پناہ پھیلاو کی وجہ سے دنیا کو گاہک بھی اتنے ہی زیادہ ملتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ہماری حکومتیں اس سلسلہ میں کیا کردار ادا کرتی ہیں۔ ہمارے یہاں ایک مخصوص ڈگری تعلیمی پروگرام کو ہی اہمیت دی جاتی ہے جبکہ ٹیکنیکل سکلز اور پروفیشنل سکلز بیسڈ ڈگریوں کی بھی اہمیت موجود ہے۔ روایتی تعلیم کی شاید دنیا کو اتنی ضرورت نہ ہو کہ ہر ملک میں نصاب اور کام کی نوعیت بدل جاتی ہے لیکن سکلز بیسڈ ڈگری اور ہنر کی دنیا بھر میں کھپت ہے۔آئی ٹی ، مینوفیکچرنگ اور پروڈکشن کے حوالے سے بھی پاکستان دنیا بھر میں اپنی اجارہ داری قائم کر سکتا ہے لیکن بدقسمتی سے اس جانب زیادہ توجہ نہیں دی گئی۔اگلے روز کرغستان کے اعزازی قونصل جنرل مہر کاشف یونس کی دعوت پر ان کے یہاں طویل نشست ہوئی۔ انہوں نے بتایا کہ کرغستان اور پاکستان کے درمیان تجارتی مواقع کو بڑھانے کے لیے رواں برس لاہور میں انویسٹمنٹ کانفرنس کا انعقاد ہو گا۔ دو طرفہ تعلقات کو بڑھانے کے ساتھ ساتھ تجارتی معاہدوں کو فروغ دیا جائے گا۔ وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان اور کرغستان کے درمیان تجارتی ، صحافتی اور تعلیمی وفود کے ایکسچینج پروگرامز کو فروغ دی جائے تاکہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے معاون و مددگار بنیں۔ گفتگو کے دوران مجھے اندازہ ہوا کہ ایسے دوست ممالک کے ساتھ تجارتی معاہدوں میں پاکستان کا بے پناہ فائدہ ہے۔ کرغستان میں چار پانچ پراڈکٹس ایسی ہوں گی جو پاکستانی مارکیٹ کی ضروریات اور رجحان کے لیے اہم ہیں لیکن پاکستان بدلے میں بیس سے پچیس اقسام کی مصنوعات کرغستانی منڈی میں بیچ سکتا ہے۔ اسی طرح کرغستان پہلے ہی پاکستانی طلبہ کو میڈیکل داخلوں کی سہولت مہیا کر رہا ہے اور متعدد پاکستانی طالب علم کرغستان میں ڈاکٹر بن رہے ہیں۔ ڈاکٹروں کی یہ کھیپ بھی پاکستان ہی آ کر خدمات سر انجام دیتی ہے۔ قونصل جنرل مہر کاشف یونس نے کرغستان سے متعلق ڈاکومنٹریز بھی دکھائیں جنہیں دیکھ کر احساس ہوا کہ یہ ملک پاکستان کے شمالی علاقہ جات کی طرح ہے جہاں پہاڑ، جھیلیں اور جنگل پائے جاتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کو اپنی معیشت بہتر کرنے اور نوجوانوں کی صلاحیتوں کو اپنے ملک کے لیے بھرپور انداز میں استعمال کرنے کے لیے ایسے دو طرفہ معاہدوں کو فروغ دینا چاہیے۔ اسی طرح سرکاری سطح پر ایسے پراجیکٹس بھی ڈیزائن کرنے چاہیے جو نوجوانوں کی عالمی منڈیوں کے مطابق راہنمائی کر سکیں۔ میں نے سپیریئر یونیورسٹی کی جانب سے شروع کیے گئے ٹیلنٹ ایکسپو میں بھی شرکت کی ہے۔سپیریئر یونیورسٹی کی وی سی ڈاکٹر سمیرا اور نئی بات میڈیا گروپ کے چیئرمین چودھری عبد الرحمن نے جس طرح اپنی مدد آپ کے جذبہ کے تحت پاکستانی ٹیلنٹ کو انٹرنیشنل مارکیٹ میں متعارف کرانے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ حکومت ان کے تجربات سے بھی فائدہ اٹھا سکتی ہے۔ کرغستان سمیت دیگر دوست ممالک کی انویسٹمنٹ کانفرنسز کے علاوہ دو طرفہ ایجوکیشنل اور کاروباری معاہدوں کو فروغ دینے میں حکومت اور عوام دونوں کا اہم کردار ہونا چاہیے۔چین کے سی پیک پراجیکٹ سے بھی بہت سی امیدیں وابستہ ہیں اور روس سے آزاد ہونے والی مسلم ریاستیں بھی پاکستان کے لیے دوستانہ رویہ رکھتی ہیں۔ ان سب کے ساتھ مل کر خطہ میں ایسا بزنس بلاک بن سکتا ہے جس کی بنیاد کاروبار اور ترقی پر ہو گی۔ ماضی میں جنگوں کے لیے مختلف ممالک کے بلاک اور اتحاد بنتے تھے تو اب ہم امن، ترقی اور بزنس کے لیے مضبوط اتحاد کیوں نہیں بنا سکتے ؟اگر ہم نے فوری طور پر تعلیم ، صحت ، بزنس، سکلز اور انویسٹمنٹ کے لیے ماڈل تیار نہ کیے تو بہت جلد ہمارے پاس بھی باتوں کے سوا کچھ نہیں بچے گا۔ گزشتہ برسوں میں پاکستان معاشی طور پر دیوالیہ ہوتے ہوتے بچا ہے۔ گزشتہ دور حکومت میں سی پیک سمیت کئی منصوبے کھٹائی کا شکار ہوئے ، ملک دیوالیہ ہونے کی باتیں میڈیا پر گردش کرنے لگیں ، کاروباری طبقہ خسارے کا شکار ہوا اور ٹیکس بھی بڑھانا پڑے۔ بڑی تعداد میں لوگ بے روزگار ہوئے اور کاروبار ختم ہوئے۔ اب مہنگائی کنٹرول کرنے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ پٹرول کی قیمت میں مزید کمی متوقع ہے لیکن یہ مہنگائی اور معیشت اس وقت تک بہتر نہیں ہو سکتی جب تک ہم اپنی آبادی کے بڑے حصہ کو ملکی ترقی کا حصہ نہیں بناتے۔ ہمارے پاس جو پروڈکشن ضرورت سے زیادہ تیار ہو سکتی ہے اسے دیگر دوست ممالک کی منڈیوں تک پہنچانا ہو گا اور وہاں سے ہماری ضرورت کی اشیا کو سستے داموں پاکستانی منڈیوں تک رسائی دینا ہو گی۔ اسی طرح پاکستانی نوجوانوں کو ان ممالک کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے سکلز سکھا کر ان ممالک میں بھیجنا ہو گا تاکہ بیروزگاری کے خاتمے کے ساتھ ساتھ پاکستان زرمبادلہ بھی مزید بڑھے
۔ دوستوں کے بڑھے ہاتھ کو تھامنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ مہر کاشف یونس پاکستانی حکومت کے لیے ایسے ہی دوست ملک کا بڑھا ہوا ہاتھ ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button