کالم

حالیہ احتجاج ۔ مصنوعات کی قیمتوں میں کمی اور مصنوعی لبادے

ایک سال سے زائد عرصہ قبل ایک عوامی تحریک کا آغاز ہوا۔اس احتجاج کے پس منظر کو دیکھا جائے گزشتہ کئی دہائیوں سے چلنے والی تحریکوں اور احتجاج سے یہ اپنی منفرد اور علیحدہ حیثیت اور اہمیت رکھتا ہے آزاد کشمیر کی تاریخ میں دیکھا جائے 76سالوں میں مختلف تنظیموں جس میں محکمہ جات سول سوسائٹیز وکلاء ودیگر کے احتجاج جلتے رہے جن میں سے اگر اجتماعی جائزہ لگایا جائے اکثر بے نتیجہ ہی اپنے انجام کو پہنچ گے اور کچھ میں پیش رفت ہوئی پیش رفت کا مطلب اس حد تک تھا کہ جہاں تھوڑا بہت اشرافیہ کا ذاتی مفاد شامل تھا اسے اس حد تک منظور وتسلیم کیا گیا اس کے برعکس حالیہ احتجاج کا دیگر تحریکوں سے تقابلی جائزہ لگایا جائے تو زمین وآسمان جیسا واضح فرق نظر آتا ہے عام تاثر یہ تھا کہ یہ تحریک حسب روایت کسی گرو یا چھوٹے گروپ کی ہو سکتی ہے جسے حسب روایت حسب دستور لالی پاپ دے کر دائیں بائیں کر دیا جائے گا۔حکومت اور مقتدر ادارے اس بات کی توقع بھی نہیں کر رہے تھے اس میں کسی کو کوئی کامیابی حاصل ہو گی چونکہ حکمرانوں اور بیورو کریسی نے ہمیشہ سے روایتی طریقے سے کسی بھی احتجاج کو طاقت سے یا خوش اسلوبی سے اپنے نام کرنے کا مشغلہ بنا رکھا تھا اور اس تحریک کو بھی اشرافیہ اور مافیا ایسا ہی تصور کر رہے تھے احتجاج کے شروع میں دھرنے وغیرہ کے ساتھ ساتھ ریلیاں اور جلسے بھی ہوئے جس کے نتیجے میں متعدد بار عوام کی طرف سے بنائی گئی کور کمیٹی اور حکومتی کمیٹی کے درمیان مذاکرات اور پھر معاہدہ جات ہوئے حکومت کی طرف سے معاہدہ تو ہوا لیکن روایت نہ ٹوٹ سکی وقتی پارا ٹھنڈا کر کے خود بھی معاہدہ سمیت فریز ہو جانے کی روایت نہ ٹوٹ سکی اور کسی نے معاہدے پر عمل درآمد کے لیے ایک قدم آگے جانے کا نہ سوچا۔حکومت اور بیورو کریسی کی روایتی ہٹ دھرمی کا نتیجہ یہ ہوا کہ عام آدمی کا پارا گرمی کی آخری ڈگری پر پہنچ گیا اور عوام نے ردعمل دینا شروع کیا اس تحریک کی خاص اور مختلف بات کو سمجھنا سب سے اہم ہے۔اس تحریک میں خاص لوگوں کو شامل نہیں کیا گیا جس کی وجہ یہ تھی کہ خاص لوگوں نے ہمیشہ کردوغلو کا کردار ادا کیا اور لوگ سمجھے رہے تھے کہ ہماری محنت رائیگاں جائے گی اور ہمارا کہیں نہ کہیں سودا ہو جائے گا ان تجربات کو مد نظر رکھتے ہوئے عام آدمی نے عام لوگوں پر مشتمل کمیٹی تشکیل دے دی جو سودا کرنے کے مراحل سے اس قبل نہیں گزرے اور یہ تجربہ گزشتہ کئی دہائیوں میں کیے گے تجربات سے بہتر اور منفرد ثابت ہوا تحریک میں شامل کسی کا نام درج اس لیے نہیں ہو سکتا کہ پھر عام آدمی کے اندر کے جذبات مجروح ہونگے جن کی وجہ سے کامیابی حاصل ہوئی البتہ اس تحریک میں حصہ لینے والے عام آدمی تاجر سول سوسائٹی وکلاء سمیت صحافتی کمیونٹی کا بھی اہم کردار رہا ملازمین کے لیے تو عام احتجاج میں جانے کی پابندی ہوتی ہے لیکن ان کی دلی ہمدردیاں تحریک کے ساتھ ضرور دیکھنے کو ملیں اس تحریک کا نتیجہ تو اس وقت نکل چکا ہے لیکن اس دورانیے میں اثرات مرتب کیے ان کا مختصر جائزہ لینا بھی ضروری ہے اس تحریک نے پہلی مرتبہ ثابت کیا کہ کشمیری ایک قوم ہیں نمبر دو جھتوں میں بانٹنے والے چہرے بے نقاب ہوئے نمبر تین اشرافیہ اور مافیا کو پہلی بار معلوم پڑا کے ان کے فرائض کیا ہیں اور جس کو وہ اپنا حق ملکیت سمجھ بیٹھے ہیں وہ حق ان کا کس حد تک محدود ہے۔نمبر چار عام عوام کو اپنے حق ملکیت کا احساس ہوا نمبر پانچ جعلی نعرہ بازی کا اختتام ہوا نمبر چھ عوامی نمائندوں کا راز فعاش ہوا اور سب سے اہم بات یہ کہ ہمیشہ ابہام پایا جاتا تھا کہ ہمارے پاس اختیارات کس حد تک ہیں۔اس کا تعین ہوا جو اشرافیہ نے ہمیشہ چھپائے رکھا۔ویسے اس کی تفصیلات کی ایک لمبی فہرست ہے لیکن میں چند ایک خاص باتوں کی نشاندہی ہی کر سکوں گا۔اس احتجاج میں چونکہ پاکستان سے پنجاب پولیس اوررینجرز کے دستے بھی طلب کیے گئے تھے تو عام عوام کیلئے یہ عمل بالکل بھی ناقابل برداشت تھا حکومتی سطح پر گو کہ یہ حفاظتی اقدامات تھے لیکن یہ حساس علاقہ ہونے کی وجہ سے ایسے کسی بھی اقدام کا متمل نہیں تھا۔یہ دستے کس کی حفاظت کے لیے بلائے گئے اس میں حکومتی بیانات اور عملی کام میں فرق نظر آیا۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جن تنصیبات کی حفاظت کیلئے یہ دستے منگوائے گئے قبل از وقت ان کو وہاں پر تعینات کیا جاتا۔دوران احتجاج دن دہاڑے کشیدگی کے ماحول میں رینجرز کو شہری علاقہ میں داخل کرنا کسی بھی صورت میں حماقت سے کم نہیں۔ احتجاج کے دوران حکومت کی جانب سے پاکستانی وفاقی کے نمائندگان نے راولاکوٹ کے مقام پر کور کمیٹی سے مذاکرات کا آغاز کیا اور اسی دوران ابھی مذاکرات شروع بھی نہیں ہوئی تھے تو نیشنل میڈیا کے بعض نجی چینلز پر مذاکرات کی کامیابی کی خبریں آنا شروع ہو گئیں وہ خبریں نمائندگان کو کہاں سے ملیں اور کیوں چلائی گئیں اس کا مقصد کیا تھا اس پر کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔البتہ قبل از وقت خبریں چلا کر مزید کشیدگی کی فضاء پیدا کی گئی چونکہ انٹرنیٹ نہ ہونے کے باوجودبھی عوامی رابطے موجود تھے اور کمیٹی کی طرف سے آنے والے بیان اور ٹی وی پر چلنے والی خبروں میں کوئی مطالبقت نہیں تھی جس کے نتیجے میں عوام کا تھوڑا بہت اعتماد تھا جو تھا وہ بھی ختم ہوتا چلا گیا۔لانگ مارچ کا قافلہ مظفرآباد کی طرف رواں دواں تھا تو جب دھیر کوٹ ضلع باغ میں حکومت کی طرف سے تمام مطالبات کی منظوری کا نوٹیفکیشن جاری ہو گیا یہاں آکربہتری کی امید جاگی اورعوام میں خوشی کی لہر دوڑ گئی جو کچھ ہی لمحوں میں بدمزگی میں بدل گئی ہوا یوں کہ کور کمیٹی نے نوٹیفکیشن لے لیا اور اپنے پروگرام کے مطابق مظفرآباد میں جلسہ عام میں پڑھ کر سنانے کا اعادہ کیا جبکہ حکومت کی مرضی تھی کے احتجاج کو دھیرکوٹ سے ڈسپرس کیا جائے لیکن اس دورانیے میں انٹرنیٹ کی بندش کی وجہ سے عام آدمی تک کوئی پیغام نہیں پہنچ سکا۔وقت کا تقاضا تھا کہ حکومت اور کور کمیٹی عوام کو بتاتے کے معاہدہ پورا ہو گیا ہے ہم نے اس کا اعلان مظفرآباد میں جا کر کرنا ہے اگر یہ کام باہمی رضا مندی سے کیا جاتا تو مزید کشیدگی میں کمی آسکتی تھی۔ تحریک کی ابتداء میں انٹرنیٹ چل رہا تھا لیکن جب اس کی خاص ضرورت پڑی تو اس کا بند ہونا کس کی غفلت تھی اس کا تعین کرنا کوئی مشکل بات نہیں اور قافلہ جب دھیرکوٹ سے مظفرآباد کی طرف رواں دواں تھا تو وزیراعظم آزادکشمیر نے بھی ہنگامی پریس کانفرنس کے ذریعے نوٹیفکیشن پڑھ کر سنایا وزیراعظم آزاد کشمیر کی پریس کانفرنس کو کچھ وقت ہی گزرا تھا تو کوہالہ سے واپس ہونے والی رینجرز کے دستے برار کوٹ کی طرف نمودار ہوئے۔ان کی انٹری کی وجہ سے عام آدمی کے علم میں نہیں تھی جس کی وجہ سے انہیں مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا اور وہ مزاحمت کے باوجود مظفرآباد شہر میں داخل ہونا شروع ہو گئے۔ان کے آنے کے مقاصد عام عوام کو تو معلوم نہیں تھے چونکہ عوام کو آگاہی کا کوئی بندوبست نہیں تھا۔ضلعی انتظامیہ نے بھی لوگوں کو حقائق سے آگاہ نہیں کیا۔جس کی وجہ سے کشیدگی میں مزید اضافہ ہوا۔ ایسے حالات میں ایک معمولی سی غلطی نے مظفرآباد کے تین نوجوانوں کی جان لے لی جبکہ شہادت پانے والے کوئی دہشت گرد نہیں طالب علم تھے اہم بات یہ کہ جب مظفرآباد کی انتظامیہ کو رینجرز کے آنے کی خبر نہیں تو عام آدمی جو احتجاج پر ہے اسے کیا خبر کہ یہ کیا ہو رہا ہے کیا خبر کہ یہ قافلوں پر حملہ آور ہونے جا رہے ہیں یا کسی اہم جگہ کی حفاظت کے لیے جا رہے ہیں اس کے بعد وزیراعظم آزاد کشمیر نے مظفرآباد میں پریس کانفرنس کی تو وہاں معلوم پڑا کہ بلکہ گول مول جواب کاجائزہ لینے کے بعد یہ نتیجہ نکلا کے رینجر کو داخلے کا حکم آزاد کشمیر کی سرکار کا نہیں تو ان سب واقعات جہاں مطالبات بھی پورے ہوگئے بہت کچھ خوش اسلوبی سے حل ہوا وہاں نفرتوں کے بیج بھی بوئے گئے یہ سوچنے کی بات ہے غلطی کہاں اور کس کی اس میں کوئی تک نہیں جہاں اتنے بڑے احتجاج ہوں وہاں کہیں نہ کہیں قوتیں بھی اپنے مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہیں

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button