کالم

آزاد کشمیر میں پر تشدد احتجاج کے نتائج و اثرات

10سے 14مئی 2024ء آزادکشمیر کے متنازعہ اور حساس خطے میں پرتشدد احتجاجی تحریک در اصل مہنگائی، غربت اور بیروزگاری کے خلاف شدید ردِ عمل تھا۔ مسلسل احساس محرومی اور مایوسی کا خوفناک ردِ عمل تھا۔ آزادکشمیر میں آٹے پر سبسڈی، سستی بجلی کی فراہمی اور اشرافیہ کی مراعات ختم کرنے کے لئے گزشتہ سال 2023ء راولاکوٹ سے عوامی تحریک شروع ہوئی۔ لو گ شامل ہوتے گئے۔پھر جوائنٹ ایکشن کمیٹی بنی۔ جگہ جگہ سے ممبر شامل ہوئے۔ تاجر ایسوسی ایشن اور ٹرانسپورٹ یونین نے بھرپور حصہ ڈالا۔ 5فروری 2024ء کو بھی احتجاج کی کال دی گئی تھی۔ حکومت آزادکشمیر نے وعدے کئے مگر عمل نہ ہو سکا پھر 11مئی مظفرآباد تک لانگ مارچ کی کال دی گئی۔ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اس قدر بڑی تعداد میں خلق خدا نکلے گی اور پر تشدداحتجاج ہوگا۔ مہنگائی، بیروزگاری اور غربت کے ساتھ پاکستان کے حکمرانوں اور ذمہ داران کی جانب سے مسٔٔلہ پر سردمہری بلکہ تقسیم کشمیر کی سازشوں، اقتصادی بد حالی اور بد دیانتی ، مسلسل انتشار اور افراتفری نے آزادکشمیر کے لوگوں کو احساس محرومی کا شکار کیا۔ نظریاتی تخریب کاری نے جنم لیا۔ آٹے کی تھیلی کے لئے ذلیل و خوار ہونے لگے۔ ہجیرہ مدارپور میں ہزاروں لوگ جمع ہوئے اور مطالبہ کیا کہ ایل او سی کھولی جائے تاکہ ہم سرحد کے اس پار چند گز کے فصلے پر جا کر سستا آٹا خرید سکیں۔ لوگ احساس محرومی کی کیفیت میں حکومت کے ایوانوں سے ٹکرانے اور نظریاتی سرخ لکیر کراس کرکے خود مختار کشمیر کی تحریک میں جوق در جوق شامل ہونا شروع ہو گئے۔ ہم نے اپنے کالموں میں حکمرانوں کو بار بار خبردار کیا کہ حالات کی سنگینی کا نوٹس لیا جائے۔ عوام کو مایوسیوں کی راہ سے نکالا جائے۔مہنگائی، غربت اور بیروزگاری کے خلاف انقلابی فیصلے کئے جائیں مگر کسی نے دھیان نہیں دیا۔ اوپر سے تقسیم کشمیر کے منصوبے نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ خطے سے دو قومی نظریے اور اس کی حامی قوتوں کو دیوار سے لگایا گیا۔ دو قومی نظریے اور پاکستان سے محبت کرنے والی ایک نسل زیادہ تر مٹ گئی جو ہیں وہ ضعیف العمری کی پیچیدگیوں کا شکار ہیں اور لائق لوگ تلاش معاش اور خوشحال زندگی کے لئے ملک سے ہجرت کر گئے۔ موجودہ یہاں بسنے والی نوجوان نسل نے موجودہ نظام ، سیاست، آباؤ اجداد کی تاریخ اور اپنے خوبصورت کلچر سے کھلی بغاوت کرلی جس کو نظریاتی تخریب کاری سے بچانے میں حکومت اور ذمہ دار طبقے نے کوئی کردار ادا نہیں کیا۔ تعلیم کے ساتھ تربیت نہیں کی گئی۔ نوجوان فرسٹریشن کا شکار ہوچکے۔ خطے میں اس احساس محرومی کی وجہ سے لا قانونیت، جلاؤ گھیراؤ، لاٹھی چارج۔ آنسو گیس، گولیاں چلانے کے احتجاجی کلچر نے جنم لیا۔ قانون اور آئین کی دھجیاں بکھیری گئیں۔ احتجاج کا یہ کلچر کسی اعتبار سے درست نہیں۔ ایسا کلچر ریاستوں اور قوموں کو تباہ و برباد کر دیتا ہے۔ ہم پر امن قانونی دائرے میں رہ کر احتجاج نہیں کرتے اور نہ ہی ہماری حکومتیں پر امن احتجاج پر کان دھرتی ہیں نہ مسائل توجہ سے سنتی ہیں۔ پر تشدد احتجاج، گالم گلوچ، حکومت کی عوام دشمن پالیسی اور احتجاج کا خون آلود کلچر انتہائی افسوسناک پہلو ہے۔ یہ مہذب معاشرے کے منافی ہے۔ ترقیافتہ یورپین ممالک میں ایسا نہیں ہے ۔ اس کلچر کی ہم بھرپور مذمت کرتے ہیں۔ ہر شہری اس طرف سوچے اور اپنے حصے کا کردار ادا کرے۔ ایسے عناصر جن کا تعلق حکومت سے ہے یا عوام سے جو اس خونی احتجاجی کلچر کے ذمہ دار ہیں سخت ترین کارروائی کی جائے تاکہ اس منفی کلچر کی حوصلہ شکنی ہو ورنہ کئی گھرانے اجڑ جائیں گے ۔ قیمتی جانیں ضائع ہوں گی اور کھربوں روپے کی قومی املاک تباہ ہونے کے ساتھ معاشرے میں بے سکونی اور بد امنی رہے گی۔ باہر سے کسی نے آکر ہماری اصلاح نہیں کرنی۔ ہم نے خود ہی اصلاح کرنی ہے۔ اس میں وطن کا ہر شہری ذمہ دار ہے۔ نتائج و اثرات کا تفصیلی ذکر کرنے سے قبل جوائنٹ عوامی اکشن کمیٹی کو عوامی مطالبات منوانے پر دلی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ وفاقی حکومت کا شکریہ اگرچہ دیر اور بسیار خرابی کے بعد ہی سہی مگر عوامی مطالبے کو ماننے اور 23ارب روپے کی گرانٹ دینے پر مبارکباد کے ساتھ شکریہ ادا کرتے ہیں۔ آٹے پر سبسڈی اور بجلی بلات میں کمی خوش آئند اقدام ہے۔ اشرافیہ کی مراعات کا جائزہ لینے کے لئے ایک کمیشن کے قیام کی منظوری تو دی گئی ہے تاہم عملدرآمد کی اشد ضرورت ہے وگرنہ احساس محرومی کی فضاء برقرار رہے گی۔ شہید ہونے والوں کے ورثاء کو قصاص کی رقم مقدمات کا خاتمہ اور قید کئے گئے کارکنوں کی رہائی اچھا فیصلہ ہے۔ عوامی مطالبات تسلیم کرنے اور 23ارب روپوں کی منظوری سے ظاہر ہوتا ہے کہ وفاقی حکومت اور پاکستان کو کشمیریوں سے ہمدردی اور دلچسپی ہے۔ اس سے سرحد پار ہمارے دشمن کو اچھا پیغام ملتا ہے۔ بھارتی پروپیگنڈے اور اس کی بد نیتی پر مبنی سرگرمیوں کو کاری ضرب لگے گی۔ آٹے اور بجلی کی قیمتوں میں کمی سے آزادکشمیر کے عوام میں خوشی کی لہر پیداہوگی۔ عام اور غریب لوگوں کو سہولت میسر آئے گی۔ معاشی مشکلات میں کمی آئے گی۔ اس احتجاجی لانگ مارچ میں ملک دشمن عناصر حالات جس طرف لے جا رہے تھے جو بہت بڑا خونی تصادم کرانا چاہتے تھے ان کی سازش ناکام ہوئی اگرچہ یہ عناصر اس سازش میں تو کسی حد تک کامیاب رہے کہ آزادکشمیر کے عوام بالخصوص نوجوان طبقے کو پاکستان اور پاکستان کی سیکورٹی ایجنسیز کے سامنے لا کھڑا کیا۔ اللہ کا شکر ہے کہ ہم کسی بڑے خونی تصادم سے بچ گئے اور سازشی عناصر کسی حد تک ناکام رہے۔ اس احتجاجی لانگ مارچ میں عوام کا گھروں سے نکلنا یکجہتی، جوش اور ولولہ قابلِ دید تھا۔ اگر پر امن آواز احتجاج کا اوسیع پیمانے سے یہ سلسلہ برقرار رہے تو اس کے بہت فائدے ہیں۔ اس طاقتور بھرپور پرجوش احتجاج سے مسٔلہ کشمیر کو تقویت ملے گی وہ سازشی عناصر جو موجودہ ایل او سی کو مستقل سرحد بنا کر تقسیم کشمیر کے ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں ان کی آنکھیں کھولنے کے لئے یہ احتجاج سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ توقع ہے کہ ایسے عناصر اب باز آ جائیں گے۔ اس پیغام کو سمجھنے کی کوشش کریں گے۔ اس احتجاج سے آنے والے دنوں مسٔلہ کشمیر اور مقامی سیاست پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ اس طاقتور اور کامیاب احتجاج کے اندر بہت بڑا سبق ہے۔ اگر سیکھنے اور عمل کرنے کی کوشش کی گئی تو خوشگوار اثرات سامنے آئیں گے۔ اب آتے ہیں اس احتجاج کے منفی پہلو جو مرتب ہوئے اس کا اجمالی خاکہ پیش کرتے ہیں۔ اس احتجاج میں حکومت اور احجتاجیوں کی جانب سے ایک دوسرے پر جو تشدد کیا گیا ظلم اور زیادتی کی گئی یہ کسی مہذب معاشرے کی علامت نہیں۔ اس سے منفی اثرات مرتب ہوئے۔ چار قیمتی جانیں اس پر تشدد تحریک کی نذر ہو گئیں۔ مطالبے بھی پورے ہو گئے ہڑتال بھی ختم ہو گئی سب ٹھیک ہو گیا مگر جن چار خاندانوں کے پیارے جدا ہو گئے اس کا کوئی بھی مداوا نہیں کر سکتا۔ پسماندگان کے لئے جدائی کا غم ختم نہیں ہو سکتا۔ جدا ہونے والے کسی بھی قیمت پر واپس نہیں مل سکتے۔ یہ غیر معمولی سانحہ ہے۔ حکومت اور احتجاج کرنے والے دونوں براہِ راست اس کے ذمہ دار ہیں۔ اللہ کی عدالت میں ان چار مقتولوں کی جو FIRدرج ہوئی ہے اس میں حکومت کے ذمہ داران اور احتجاج کرنے والے ذمہ داران اور نوجوانوں کو اکسانے ہلہ شیری دینے والے احتجاجی لوگ شامل ہیں۔ کل قیامت کے دن اللہ کی عدالت میں درج ایف آئی آر میں جوابدہ ہوں گے۔ کسی صورت بچ نہیں سکتے۔ ہلہ شیری دینے والے والوں نے معصوم نوجوانوں کا ایسا ماحول پیدا کرکے ترغیب دی اکسایا کہ انہوں نے قانون ہاتھ میں لیا

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button