
غزوہ خندق کو غزوہ الا حزاب بھی کہا جاتا ہے ۔غزوہ خندق اسلئے کہا جاتا ہے کہ عرب کی تاریخ میں پہلی مرتبہ مدینہ کا دفاع کرنے کیلئے خندق کھودی گئی تھی۔حزب کے معنی فوج یا گروہ کے ہیں اور احزاب اُسکی جمع ہے ۔غزوہ احزاب اسلئے کہتے ہیں کہ کفار،یہود،اور اُن کے حلیف یعنی بنو غطفان،بنو قریظہ،بنو نظیر اور تمام قبائل قریش سردار ابو سفیان کی قیادت میں مسلمانوں کے خلاف گروہ بنا کر مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہوئے تھے۔مشرکین مکہ نے تحےّہ کر رکھا تھا کہ مسلمانوں کو چین نہیں لینے دیں گے اور وہ مسلمانوںکو صفحہ ہستی سے مٹانے پرتُلے ہوئے تھے۔مکہ کے سردا رپنے ساتھیوں کے قتل کا بدلہ لینے کے لئے مضطرب تھے۔اُن کی تجارت کے دونوں راستے مسلمانوں نے بند کر دئے تھے اور وہ معاشی ناکہ بندی کی کیفیت سے گزر رہے تھے۔غزوہ اُحد میں ابو سفیان نے مسلمانوں کو بدر میں مقابلہ کرنے کیلئے چیلنج کیا تھا مگر جب مسلمانوں کو مقابلے میں پایا تو جنگ سے کترانے لگا اور اپنی جماعت سمیت واپس چلا گیا ۔اس ندامت کو مٹانے کیلئے بھی وہ مسلمانوں سے جنگ کرنا چاہتا تھا۔گو کہ غزوہ اُحد میں مسلمانوں کو مشرکین کی نسبت زیادہ نقصان اُٹھانا پڑا تھا لیکن وہ جنگ فیصلہ کن نہ تھی اور مشرکین ایک فیصلہ کن جنگ کرنا چاہتے تھے۔اسلئے قبائل جو مسلمانوں کے دشمن تھے مگر اکیلے اکیلے اُن سے مقابلہ کی جرات نہ کر سکتے تھے وہ ابو سفیان کے جھنڈے تلے مقابلہ کیلئے تیار ہو گئے۔یہودیوں پر بہت چوٹ پڑی۔اُن کا سودی کاروبار تباہ ہو گیا ۔دو یہودی قبائل بنی قینقاع اور بنی نضیر کو مدینہ سے نکال دیا گیا تھا۔اِن وجوہات کی بنا پر مدینہ کے یہودی مسلمانوں سے بے حد خائف تھے ۔بنی نضیر کے سرداروں نے مکہ جا کر مشرکین کو امداد کی یقین دہانی کراکے مدینہ پر حملہ کیلئے اُکسایا ۔یہودیوں سے جب سرداران قریش نے پوچھا کہ تم اہل کتاب پر اور ہمارے عقائد سے بخوبی واقف ہو ۔ذرا یہ تو بتائو کہ تمہاری نظر میں ہمارا دین بہتر ہے یا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا۔یہودیوں نے باوجود توحید کا اقرار کرنے کے بُت پرستی کی تعریف کی ۔اسی موقع پر قرآن کریم کی سورہ النساء میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔” کیا تو نے ا ن لو گو ںکو د یکھا جن کو کتا ب کا کچھ حصہ ملا بتو ں ا و ر شیطا نو ن پر ا یما ن ر کھتے ہیں کا فر و ں کی نسبت کہتے ہیں کہ یہ لوگ مومنوں سے زیادہ ہدایت یافتہ ہیں”۔مشرکین مکہ اور دوسرے قبائل نے مل کر ابوسفیان کی کمانڈ میں چوبیس ہزار کا ایک لشکر ترتیب دیا اور مکہ سے مدینہ پر حملہ کرنے کے ارادے سے نکلا۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس حملہ کی اطلاع ملی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھوڑوں پر سوار ہو کر چند انصار اور مہاجرین کو ساتھ لے کر مدینہ کے آس پاس کا جائزہ فرمایا۔ مدینہ ایک بہت بڑے وسیع میدان میں آباد ہے۔ جس کے شمال میں جبل احد اور جنوب میں جبل عید ہے۔ مشرقی اور مغربی اطراف سے نوکدار پتھر راستہ روکتے تھے جبل سلع تقریبا 600 فٹ بلند پہاڑی ہے۔ جس کے ذرا شمال میں جبل ذباب یعنی ایک دفاعی چٹان موجود تھی۔ مدینہ کی طرف شمالی سمت ایسی تھی جو کھلی ہوئی تھی جس طرف سے حملہ ہوسکتا تھا۔ چونکہ غزوہ احد کے موقع پر مدینہ سے باہر نکل کر جنگ کرنے سے بہتر نتائج برآمد ہوسکتے تھے۔ اس لیے فیصلہ کیا گیا کہ مدینہ کے اندر رہ کر ہی دفاع کیا جائے۔ چنانچہ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رائے سے غیر محفوظ مقامات کے گرد خندق کھودنے کی تجویز کو پسند کیا گیا۔ نئی تحقیق کے مطابق ایک نئی بات معلوم ہوئی ہے جس کی تفصیل یوں بتائی گئی ہے۔ابو سفیان نے اپنے خط میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے لکھا۔میں اپنے ہمراہ وہ بے کراں لشکر لے کر آرہا ہوں جو مدینہ کی اینٹ سے اینٹ بجا سکتا ہے۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حوصلے دیکھ لیے مقابلہ کی تاب نہ لاکر شہر کے گرد خندق کھدوا لی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو یہ طریقہ نہ جانتے تھے اگر اس مرتبہ ہم مدینہ سے ناکام واپس لوٹے تو جس طرح احد میں ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پامال کیا تھا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لشکروں کی گرفت سے ہم اپنی عورتوں کو بچا لائے تھے کسی وقت اُحد کی مانند پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ کر دیں گے۔حضور سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ جواب لکھوایا
واضح ہو! تمہارا خط ملا میں جانتا ہوں کہ تم سدا سے اللہ تعالیٰ کے خلاف غرور میں مبتلا ہو اور یہ جو تم نے مدینہ پر ایسا حملہ کرنے کا ذکر کیا ہے جس میں تمہارے ہمراہ لشکر جرار ہوگا اور کہتے ہو کہ تمہاری فوج مدینہ کی اینٹ سے اینٹ بجادے گی تو یہ خدا کی مرضی پر منحصر ہے وہ اگر چاہے تو آپ لوگوں سے لات و عزٰی کا نام لینے کی طاقت سلب کر سکتا ہے اور یہ جو تم نے لکھا ہے کہ مجھے خندق کھودنے کا طریقہ یاد نہ تھا تو یہ طریقہ مجھے اللہ تعالیٰ نے اس وقت القاء فرمایا جب تمہارا اور تمہارے ہم راہوں کا عیض و غضب یہاں تک آ پہنچا کہ تم لوگ مدینہ کی اینٹ سے اینٹ بجانے پر تُل گئے۔ سنو! تمہار ی خا م ا مید و ں کا پو را ہو نا تو کجا و قت آ گیا ہے کہ لا ت و عز ٰی و منا ت و نا ئلہ ا یک ا یک کر کے ٹکڑ ے ٹکڑ ے کر دیے جا ئیں گے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تین ہزار صحابہ کے ساتھ مل کر خندق کھودنے کی ابتدا کی اور اپنے دست مبارک سے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں کھدائی کے کام کو تقسیم کر دیا۔ اور تقریبا دس صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر دس گز زمین کھدائی کے لیے تقسیم کی گئی۔ مہاجرین نے رائج کی طرف سے جبل ذباب کی طرف اور انصار نے جبل ذباب کی طرف سے جبل بنی عیبہ کی جانب کھدائی شروع کی۔ کھدائی کا کام بعض کے نزدیک چھ دن میں اور بعض کے نزدیک بیس دنوں میں مکمل ہوا۔ خندق سے نکلنے والی مٹی اور پتھر مدینہ کی طرف جمع کرنے سے ایک دیوار سی بن گئی جو تیر اندازوں کے لیے آڑ کا کام دینے لگی۔
جبل صلح کو پشت پر رکھ کر صف آرائی کی گئی۔ عورتیں اور بچے شہر کے محفوظ مقامات پر بھیج دیئے گئے۔ دشمن نے بھاری لشکر سے مدینہ پر حملہ کرنے کا منصوبہ بنایا مگر راستے میں خندق کو دیکھ کر ان کے حوصلے پست ہوگئے۔ جب کوئی اسکیم کامیاب نہ ہوتی دیکھی تو کھلے میدان میں مدینہ کے گرد دشمن کی افواج خیمہ زن ہو گئیں اور مدینہ کا محاصرہ کر لیا۔ یہ محاصرہ تقریبا ایک ماہ تک جاری رہا۔ دشمن کا خیال تھا کہ مسلمان فاقوں سے تنگ آ کر ہتھیار ڈال دیں گے مگر ایسا نہ ہوتا دیکھ کر خندق کو عبور کرنے کی کوشش کی۔ عرب کا مانا ہوا پہلوان عمرو بن عبدود عامری خندق پھلانگ کر آگیا۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس سے پوچھا کیا یہ تیرا قول ہے کہ تین باتوں میں ایک منظور کر لیتا ہے۔ اس نے کہا ہاں فرمایا:اللہ پر ایمان لا۔ اس نے انکار کیافرمایا
لڑائی سے منہ پھیر لے۔ کہا نا ممکن قریش کی عورتوں کا طعنہ نہیں سن سکتا
فرمایاکہ پھر مقابلے پر آ۔ سن کر خوب ہنسا اور گھوڑے سے اتر کر پوچھا کہ کون ہو
فرمایاعلی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ابن ابی طالب ہوں
کہا کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے والد میرے دوست تھے میں لڑنا نہیں چاہتا آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:میں تم سے لڑنا چاہتا ہوں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے وار کر کے اس کا شانہ کاٹ دیا اور اسکا کام تمام کر دیا۔ نعیم غطنفانی نے یہودیوں اور مشرکوں میں پھوٹ ڈلوا دی ان دونوں کو معلوم نہ تھا کہ وہ درپردہ مسلمان ہو چکے ہیں۔ یہودیوں کو کہا کہ قریش محاصرہ اٹھانا چاہتے ہیں لیکن جب تک تمہیں اپنے چند یرغمالی نہ دیں ان کا ساتھ نہ دینا ادھر قریش کو یہ کہا کہ یہودیوں کو تمہارے اوپر اعتماد نہیں ہے۔ اس لیے وہ تم سے یرغمال کے طور پر چند آدمی مانگیں گے۔ ان کی باتوں کا یقین کر کے دونوں آپس میں الجھ پڑے اور ان کا اتحاد ختم ہوگیا۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دن رات بارگاہ ایزدی میں دعائیں مانگ رہے تھے۔ اللہ نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی دعائیں سن لیں۔ جاڑے کی سخت سردی کی رات، طوفان، برق وباراں نمودار ہوا۔ طوفانی ہوائیں چلنے لگیں ریت اڑنے لگی، دشمنوں کے خیمے اکھڑ گئے، طنابیں ٹوٹ گئیں۔ اونٹ اور گھوڑے بھاگ گئے، ہر طرف مٹی اور ریت اور یوم حشر نظر آنے لگا۔
قرآن کریم کی سورة الاحزاب آیت نمبر 9 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ترجمہ:”اے ایمان والو! اللہ کے نام کو یاد کرو کہ اس وقت جب تم پر بہت سے لشکر چڑھ آئے تو ہم نے ان پر ایک آندھی بھیجی اور ایسی فوج بھیجی جو تم کو نظر نہ آتی تھی۔ لڑائی کے دوران اللہ تمہارے اعمال کو دیکھتا تھا”۔
ان حالات میں مزید محاصرہ کرنا مشکل تھا دشمن کے پاس نہ کھانے کا سامان تھا اور نہ چھپنے کے لیے کوئی محفوظ مقام تھا۔ دوسری جماعتوں سے اتحاد بھی ختم ہو چکا تھا اس لئے ابو سفیان نے لشکر کو واپسی کا حکم دیا۔ اس طرح تقریبا ایک ماہ کا ناکام محاصرہ دشمن کی ندامت اور شکست کا سبب بنا۔ اس غزوہ میں مسلمانوں کا جانی نقصان بہت کم ہوا البتہ انصار کے سردار حضرت سعد بن وحاد رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو قبیلہ اوس کے سردار تھے زخمی ہو گئے اور بعد میں شہید ہو گئے۔ اس طرح اس قبیلے کا بازو ٹوٹ گیا۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااب قریش تم پر کبھی حملہ نہ کر سکیں گے بلکہ اب تم ان پر چڑھائی کرو گے
ابن سعداور واقدی کے مطابق غزوہ خندق ذیقعد5ھ مطابق کووقوع پزیر ہوا تھا۔ غزوات کے سلسلے کی غزوہ خندق بھی ایک اہم کڑی تھی۔ لیکن اس میں بھی مشرکین کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ اور اس جنگ میں ناکامی سے ان تمام قبائل کے حوصلے بھی پست ہو گئے۔ جو ابوسفیان کی کمان میں حملہ آور ہوئے تھے اور یہ ثابت ہو گیا کہ ملت اسلامیہ ایک ایسی قوت بن چکی ہے جن کو مختلف قبائل مل کر بھی شکست نہیں دے سکتے۔ دشمن کی شکست خود مسلمانوں کے لیے اعتماد کا بہت بڑا ثبوت تھا اس طرح مسلمان ہر بڑی سے بڑی طاقت کے مقابلہ کے لیے تیار رہنے لگے۔