کالم

رفح پرحملہ،جنوبی افریقہ کا عالمی عدالت میں جانااورحماس کی ثابت قدمی

غزہ کے بعداسرائیلی فوج نے رفح پر بھی حملہ کر دیا۔رفح پرتین اطراف سے ایف16طیاروں سے شدید بمباری کی گئی ہے اور کی بھی جا رہی ہے.ایف 16طیاروں سے رہائشی ٹاورز اور عوامی مقامات کو نشانہ بنایا گیا۔اطلاعات کے مطابق 109 افراد شہید ہو گئے.زخمیوں کی تعداد بھی زیادہ ہے.مزیدشہید اور زخمی ہونے والے ہیں۔اسرائیل۔فلسطین کی جنگ کو شروع ہوئے تقریبا سات مہینے ہو چکے ہیں.غزہ پر شدید بمباری کی گئی,جس کی وجہ سے غزہ تباہ ہو چکا ہے.غزہ ایک چھوٹی سی پٹی تھی،جہاں مظلوم فلسطینی بڑی مشکل سے زندگی گزار رہے تھیلیکن اسرائیل نے اس پٹی کوتباہ کرنے میں کسر نہیں چھوڑی.جو مظلوم فلسطینی غزہ سے نکل کر رفح میں پناہ گزین ہوئے،اب ان کوبھی تباہ کیاجارہاہے۔رفح شہر میں تقریبا ایک اعشاریہ چار(1.4)ملین افراد پناہ گزین ہیں.قابل افسوس بات یہ ہے کہ رفح سے نکلنے والے مظلوموں پر بھی شدید بمباری کی گئی.دیر الفلاح پر اندھا دھندحملوں میں آٹھ بچے سمیت 30 فلسطینی شہید ہوئے۔رفح پر بھی حملے ہو رہے ہیں اور غزہ پر بھی شدید بمباری جاری ہے.وسطی اور شمالی غزہ میں جھڑپیں جاری ہیں.الشفا ہسپتال سے مزید اجتماعی قبریں دریافت ہوئیں۔اس سے پہلے کافی اجتماعی قبریں دریافت ہو چکی ہیں.بعض ایسے شہدا کی لاشیں ملی ہیں،جن کے اعضا نکالے گئے تھے۔یہ بھی ممکن ہے،بلکہ یقینا کہا جا سکتا ہے کہ زندہ انسانوں سے اعضا نکالے گئے ہوں گیکیونکہ اسرائیلی وحشیوں سے کسی قسم کی ہمدردی کی کوئی توقع ہی نہیں رکھی جاسکتی.وہ چاہتے ہیں کہ فلسطین کو تباہ کر کے اپنے قبضہ میں لایا جائیاور وہاں کوئی فلسطینی نہ رہے,حالانکہ فلسطین وہاں کے رہنے والے فلسطینیوں کا ہے.ایک سازش کے ذریعے فلسطین کو اسرائیلیوں کے حوالے کر دیا گیا اور تھوڑا سا حصہ فلسطینی مسلمانوں کو دیا گیا.فلسطین کابڑاحصہ اسرائیل کو دینے کے بعد اسرائیل کی مدد کی جاتی رہی.اسرائیل کا سب سے بڑا مددگار امریکہ ہے.امریکہ کے علاوہ بھی کئی ممالک اسرائیل کی مدد کر رہے ہیں.اسرائیل فلسطین کے بچے کھچے حصے پر بھی قبضہ کرنے کی کوششیں کر رہا ہیاور یہ کوششیں کئی دہائیوں سے جاری ہیں.کئی دفعہ فلسطینیوں کی بستیوں پر بلڈوزر چلائے گئے،ان کے گھر،مکانات اور مساجد وغیرہ کوگرایاگیا.صرف اسی پر بس نہیں کیا گیا بلکہ فلسطینیوں کی کافی تعداد کو شہید کیا جا رہا ہے.غزہ سے مجبوری کی حالت میں نکلنے والے مظلوم فلسطینی رفح میں پناہ گزین ہوئے،لیکن اب دوبارہ وہ موت کے منہ میں پہنچ چکے ہیں.
اسرائیل کی بڑی بڑی طاقتیں مدد کر رہی ہیں،اسلحہ و بارود بھی مل رہا ہیاور نقد امداد کے علاوہ خوراک وغیرہ بھی اسرائیل کو دی جا رہی ہے.ہر قسم کی اسرائیل کو مدد دی جا رہی ہے,جس سے فلسطینیوں کو نقصان پہنچ رہا ہے.مظلوم فلسطینیوں کے پاس جدید اسلحہ نہیں ہے,مگر اس کے باوجود بھی وہ ان ظالم طاقتوں کا مقابلہ کر رہے ہیں.اسلامی دنیا کی طرف سے فلسطینیوں کو بییارومددگار چھوڑ دیا گیا ہے۔فلسطینی اس وقت اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں.ان حالات میں مظلوم فلسطینیوں کو انصاف دلانے کے لییجنوبی افریقہ کا عالمی عدالت میں جانا خوش آئند قرار دیا جا سکتا ہے۔جنوبی افریقہ پہلے بھی مظلوم فلسطینیوں کے لیےآواز اٹھا چکا ہیاور مزید عالمی عدالت انصاف کا دروازہ کھٹکھٹا رہا ہے.جنوبی افریقہ نے بین الاقوامی عدالت سیاسرائیل کے خلاف مزیداقدامات کا مطالبہ کیا ہے.جنوبی افریقہ نے عالمی عدالت انصاف سے کہا ہے کہ غزہ کے جنوبی علاقے رفح پر اسرائیل کے حملہ میں اضافہ کے بعد اضافی ہنگامی امداد کا حکم دے.عدالت سے کہا گیا ہے کہ رفح پر اسرائیل کا حملہ غیر قانونی ہے اور اس سے غزہ میں انسانی امداد اور بنیادی خدمات،فلسطینی طبی نظام کی بقااور غزہ میں فلسطینیوں کی بقا کو شدید خطرہ لاحق ہے.رفح پر حملہ نئے حقائق کو جنم دیتا ہیجس کی وجہ سیفلسطینی عوام کے حقوق کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے.اب رفح سے بھی نقل مکانی شروع ہو چکی ہے۔غزہ کی تو اب یہ حالت ہو چکی ہے کہ وہاں کوئی مقام محفوظ نہیں ہے جہاں کوئی فلسطینی پناہ گزین ہو سکے۔نہ تو کوئی گھر محفوظ ہیاور نہ اسپتال محفوظ ہیں بلکہ غیر مسلموں کے گھر اورعبادت گاہیں بھی تباہ ہو رہی ہیں.جنوبی افریقہ نے جوانسانی ہمدردی کے تحت فلسطینیوں کے حق میں آواز اٹھائی ہے،وہ خراج تحسین کے لائق ہے.کاش کسی اسلامی ملک کی طرف بھی اس طرح کا کوئی عمل دیکھنے میں آتا۔انسانی حقوق پامال ہو رہے ہیں.انسانوں(فلسطینیوں)کوکیڑے مکوڑوں کی طرح روندا جا رہا ہے.جنوبی افریقہ کا ان کے حق میں آواز اٹھانا بھی خاص تاثر نہیں چھوڑ رہاہے،کیونکہ اسرائیل کسی بھی حکم یا درخواست کو جوتے کے نوک پر رکھتا ہے۔اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کو کسی بین الاقوامی قانون کی پرواہ ہے اور نہ اخلاقی اقدار کی پرواہ ہے.ان کی من مانیاں دنیا کے لیے خطرہ بن چکی ہیں.غزہ کے بعدرفح پر حملہ یہ ظاہر کرتا ہیکہ کوئی ان کو روک نہیں سکتااور نہ وہ کسی کی درخواست یاحکم پر رک سکتے ہیں.جنوبی افریقہ کے ساتھ اگر کچھ اور ملک خصوصا اسلامی ممالک میں سیمل جائیں اور مشترکہ جدوجہد کریں،توممکن ہے کہ مزید انسانوں کو قتل ہونے سے بچایا جا سکتا ہے.او۔آئی۔سی کا پلیٹ فارم بھی کچھ نہیں کر سکتااور نہ اقوام متحدہ کچھ کر سکتی ہیں.جنوبی افریقہ کے علاوہ چندممالک میں عوامی سطح پرمظاہرے اور احتجاج کیے جا رہے ہیں۔امریکی جامعات میں اور کچھ دوسرے ممالک کی جامعات میں طلبہ اپنیمستقبل کو دا پر لگا کر احتجاج کر رہے ہیں.ان کی کوششیں بھی قابل تحسین ہیں.امید ہے کچھ اسلامی ممالک اس عظیم انسانی المیہ کے لیے اکیلے یا جنوبی افریقہ کے ساتھ مل کراقدامات کریں گے.اقدامات صرف آوازیااحتجاج اٹھانے تک نہ ہوں،بلکہ فلسطینیوں کی مدد بھی کرنی چاہیے.اسلحہ کے ساتھ خوراک وغیرہ بھی فوری طور پر پہنچا دینی چاہیے.میڈیکلی سہولیات کافوری طور پہنچانا بھی بہت ضروری ہے.فلسطینی اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں اور ہماری خاموشی ان کے حق میں خطرناک پیغام ثابت ہو رہی ہے.فوری طور پرجنگ بندی ہونی چاہیے.
حماس اور فلسطینیوں کے حوصلہ بھی بلند ہیں.کئی ماہ گزرنے کے باوجود بھی فلسطینی مسلمان اپنیمحاذپر ڈٹے ہوئیہیں۔فلسطینیوں کے پاس رہنے کے لیے کوئی محفوظ جگہ نہیں رہی،مگر ان کی ثابت قدمی بتا رہی ہے کہ ان پرآسانی سے فتح حاصل نہیں کی جا سکتی.اسرائیل نے رفح پر حملے کا ایک نام نہاد جوازبیان کیا ہے،اسرائیلی فوج کے ترجمان افیخائی ادرعی کی جانب سے سوشل میڈیا فارم ایکس(سابقہ ٹوئٹر)پر پوسٹ شیئر کی گئی ہیکہ "نامزد علاقوں سے حالیہ دنوں اور ہفتوں میں حماس کی دہشت گردانہ سرگرمیاں دیکھی گئی ہیں”غزہ اوررفح پر حملے جاری ہیں.یہ وحشیانہ بمباری اور حملے فلسطینیوں کی شہادتوں میں اضافہ تو کر رہے ہیں،لیکن ان کے حوصلے ابھی تک مضبوط ہیں.خوراک موجود نہ ہونے کی وجہ سے کافی اموات ہو رہی ہیں اور ہسپتالوں میں ادویات نہ ہونے کی وجہ سے بھی اموات میں اضافہ ہو رہا ہے،اس کے باوجود بھی وہ پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہیں.جنگ بندی کا امکان ظاہر کیا جا رہا تھا،مگراسرائیلیوں نے جنگ بندی سے انکار کر دیا ہے.مذاکرات بھی کیے گئے،مگر یہ کسی معاہدے کے بغیر ختم ہو گئے.حماس کا کہنا ہیکہ رفح پر حملہ کوئی پکنک نہیں ہوگا اور غزہ ہمیشہ حملہ آورقوتوں کا قبرستان ثابت ہوگا۔
فلسطین میں جنگ جاری ہے,جنگ کئی دہائیوں سے جاری ہے.اس جنگ کا اختتام تب ہوگا،جب فلسطینی مسلمان اپنا چھینا گیا علاقہ واپس لے لیں گے.فلسطینیوں کی کئی نسلیں گزر رہی ہیں،مگر وہ شکست تسلیم نہیں کر رہی اور نہ ان کی آنے والی نسلیں شکست تسلیم کریں گی.بہرحال جو بھی انسان ہلاک ہو رہا ہے،وہ نام نہاد مہذب دنیا کے لیے ایک پیغام بھی ثابت ہو رہا ہیکہ منافقت سے بازآجا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button