
دنیا بھر کے ریسرچ اداروں سے جاری ہونے والی فہرستوں کوغور سے دیکھنے کے بعد یہی معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان معاشی حوالے سے کون سے نمبر پر ہے یا پھر عدل فراہم کرنے والے عالمی انصاف کے اداروں کی دوڑ میں کس مقام پر کھڑے ہیں۔ یہ تحقیقی مراکز خطِ افلاس سے لے کر ہماری تعلیمی اہلیت اور پاکستان میں کرپشن کے حوالے سے ہمارے مقام و فضیلت کے علاوہ امن کے وکٹری سٹینڈ پر ہماری عدم موجودگی کی نشاندہی کرتے ہوئے ہمیں کسی بے امن و بے اماں سرزمین کے حوالے سے یاد کرتا ہے۔ اِن اداروں سے ہرگز یہ گلے نہیں کہ وہ ایسا کیوں کرتے ہیں کہ یہ ان کی ذمہ داری ہے جسے وہ خوش اسلوبی سے سرانجام دے رہے ہیں اس سے ہمیں اپنے حکمرانوں کی کارکردگی کے ارتقائی عمل کا گراف سمجھنے میں مد د مل جاتی ہے۔ گو کہ اس کو سمجھنے کے بعد بھی پاکستانی عوام کے پاس اپنے حکمرانو ں اور اداروں پر اعتماد کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا آپشن نہیں ہے کیونکہ مہذب شہری اپنے اداروں پر ہی اعتماد کرتے ہیں اور کبھی کسی اجنبی لشکر کے حمایتی یا سپاہی نہیں بنتے۔ بلاشبہ یہ درست ہے کہ ہم زندگی کے بہت سے اہم معاملات میں عالمی ریٹنگ میں کسی اچھے مقام پر فائز نہیں ہیں لیکن ایک فہرست اِن اداروں نے کبھی جاری نہیں کی جو دنیا میں ہمارے مقام و مرتبے کو پہلے نمبر پر لا کھڑا کرتی ہے۔جس سے ہماری ماں، بہنوں اور بیٹیوں کے سر فخر سے بلند ہو جاتے ہیں۔ جو قوموں کی حقیقی حیات کی رگوں میں خونِ تازہ کا سا کردار ادا کرتی ہے۔ پاکستان دنیا بھر میں شہیدوں کے حوالے سے پہلے نمبر پر ہے اور یہ شہادتیں ہم نے کسی ایسی جنگ میں حاصل نہیں کیں جو ہمیں کسی ازلی اور ابدی دشمن کے ساتھ مقابلہ کرتے ہوئے نصیب ہوئی ہوں بلکہ اِس کیلئے ہم نے دنیا بھر کی ریاستوں کے ساتھ ملکر ان گنت ظاہری و باطنی دشمن پیدا کیے ہیں جن کے ساتھ ہمارے اپنوں نے مل کر بھی پاکستان کو بارود کے ڈھیر پر رکھ چھوڑا ہے۔ ہماری افواج نے ایک دونہیں ہزاروں چھوٹے بڑے معلوم اور نہ معلوم آپریشن کیے جن میں ہزاروں دہشتگرد جہنم رسید ہوئے لیکن جب دہشتگرد قتل ہو تا ہے تو صرف اس کی جان جاتی ہے جب کہ ہمارے جوان شہید ہوتے ہیں تو اس کے ساتھ ہی ہماری ریاست پر بھی امن کے حوالے سے سوالیہ نشان لگ جاتا ہے اور وہی قوتیں جو اِس دہشتگردی کی یا تو وجہ ہوتی ہیں یا سبب، ہمارے خلاف بیان داغنا شروع ہو جاتی ہیں۔اب کوئی امریکہ سے پوچھے کہ کیا اسے زیب دیتا ہے کہ وہ دنیا میں امن کی بات کرے جب کہ دنیا میں ہونے والی ہر دہشتگردی کا کھرا اس کی جاسوس ایجنسیوں سے جا ملتا ہے۔ جو کل ہیرو شما اور ناگا ساکی پر ایٹمی حملوں کا ملزم تھا تو آج غزہ کی عورتوں، بچوں، جوانوں اور بزرگوں کے قتلِ عام اور خواتین کی بے حرمتی سمیت ہر جرم میں معاون و مدد گار ہے۔ امریکی دہشتگردوں کی کارروائیوں سے کوئی بھی براعظم محفوظ نہیں ہے لیکن اِس کے باوجود وہ امن کا بڑا داعی ہے۔پاکستان ایک چو مکھی لڑائی میں پھنس چکا ہے جہاں ایک طرف امریکہ کا بظاہر دوستانہ خون آلود ہاتھ ہے تو دوسری طرف بھارت ہے جس نے افغانستان میں بیٹھ کر ہمارے خلاف پراکسی وار شروع کر رکھی ہے۔ ریاستوں پر برے وقت آ جاتے ہیں لیکن ان ریاستوں پر آتے ہیں جو اچھے وقت گزار رہی ہوں ہم دنیا کی شاید پہلی ریاست ہیں جنہوں نے برے حالات سے بدترین حالات کی طرف سفر کیا ہے۔ ریاستیں عقیدوں کے نام پر بن سکتی ہیں لیکن چلتی عقل کی بنیاد پر ہی ہیں جس کی زندہ مثال اسرائیل آپ کے سامنے سانپ کی طرح کھڑا ہے اور جس کی بری مثال ہم خود ہیں جنہوں نے غیر عقلی فیصلے کرنے کی قسم کھا رکھی ہے اور آج بھی اپنے بچوں کے ہاتھ سے فلسطین کا جھنڈا چھین رہے ہوتے ہیں۔ لوگوں کی آستینوں میں سانپ پلتے ہیں ہم نے سانپوں کے محل بنا رکھے ہیں جبکہ ان کا جان لیوا زہر ہمارے اداروں اور نوجوانوں کی رگوں میں بھی اتر چکا ہے اور ہم اسے دیسی مرغوں اور بہترین گائیوں کا دودھ پلا رہے ہیں۔ممکن ہے کہ عنقریب خواتین سے ملنے کی اجازت بھی دے دی جائے حالانکہ اس کا مردوں سے ملنا بھی مشکوک ہے۔یہ غیر ریاستی رویہ ہے اور ہم اِس کی قیمت ادا بھی کر چکے ہیں اور ہمیں اس کی مزید قیمت بھی ادا کرنی ہو گی جس کے اشارے ہمیں ملنا شروع ہو چکے ہیں۔
جس دن ضربِ عضب کا آغاز ہوا اللہ نے مجھے بیٹی سے نوازا تو میں نے اس کا نام عضب جمشید رکھ دیا۔ عضب کے حوالے سے میں جانتا تھا کہ یہ رسول اللہ کی تلوار کا نام ہے جبکہ بیٹی کانام رکھنے کی دوسری وجہ یہ تھی کہ جب ہم دنیا
میں نہیں ہوں گے تو میری بیٹی دنیا کو بتائے گی کہ جس دن وہ پیدا ہوئی تھی ہماری بہادر افواج نے ان دہشتگردوں کو ختم کرنے کا آغاز کیا تھا جو ہمارے قومی سلامتی کے اداروں اور عام شہریو ں پر تاتاریوں کی طرح حملہ آور تھے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے طالبان کا سب سے بڑا پاکستانی حمایتی، پاکستان کا وزیر اعظم بنا دیا گیا۔ ایک ایسا شخص جو ریاست کو دہشتگردوں سے برابری کی بنیاد پر مذاکرات کرنے کی ترویج کرتا رہا۔ جس کے خیبر پختون خوا کے 10 سالہ دورِ اقتدار میں افغانستان میں چھپے ہوئے بھگوڑے پاکستان واپس آگئے۔ جس کے وزیر مشیر طالبان کو بھتہ دے کر اپنی وزارتیں چلاتے رہے۔ جس نے 9 مئی کو وہی کیا جو اس سے پہلے طالبان کر تے رہے ہیں۔اب وہ جیل میں ہے تو اس کے طالبانی ساتھیوں نے اودھم مچانا شروع کردیا ہے۔
بشام میں چینی انجینئروں کی گاڑی پر ہونے والے خود کش حملے نے یہ سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ وہ کون ہے جو چاہتا ہے کہ چینی پاکستان میں کام نہ کریں۔ وہ کون ہے جو بھاشا اور داسو ڈیم کا مخالف ہے۔ وہ کون ہے جو چینیوں کے قتل عام اور بلوچستان میں بدامنی کا ذمہ دار ہے؟
یہ انتہائی خوش آئند ہے کہ پاکستان کے وزیر داخلہ محسن نقوی نے چینی انجینئروں کے جاں بحق ہونے کے بعد فوری طور پر چینی سفارت کار سے رابطہ کرکے انہیں تمام حقائق سے نہ صرف آگاہ کیا بلکہ ہمارے قومی سلامتی کے اداروں نے مجرموں کو کیفرِ کردار تک پہنچانے کا عزم بھی دہرایا لیکن کیا اِس پر بات نہیں ہونی چاہیے کہ کس نے سی پیک کو لمبے عرصے تک بند کیے رکھا اور کیوں؟ کس نے پاکستان کو مطلوب طالبان، پاکستان میں لاکر بسائے؟ کیا اس مکالمے کو پاکستانی معاشرے میں رواج دینے کی ضرورت نہیں کہ جب چین افغانستان میں ترقیاتی کاموں میں پیش پیش ہے اور ریل گاڑی جو افغانیوں کا خواب تھی اسے بچھانے میں دن رات ایک کر رہا ہے تو وہی افغان حکومت ان طالبان کو کیوں پناہ دے رہی ہے جو پاکستان میں چینی انجنیئروں پر حملہ آور ہو رہے ہیں؟ چین کیلئے طالبان کا افغانستان اور پاکستان میں دوستی اور دشمنی کا دوہرا معیار کیوں ہے؟ چینی انجینئروں پر ہونے والے حملے سے دل بھی دکھا ہے اور مستقبل کے حوالے سے پھر منظر دھندلا ہونا شروع ہو گیا ہے۔ ہم نے ایک ہاتھ سے شلوار اور دوسرے سے تلوار پکڑ رکھی ہے جو ہماری ریاستی جنگی حکمت کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ ہمیں تلوار اور شلوار میں سے ایک تو چھوڑنی پڑے گی اور اِن دہشتگردوں کے سامنے برہنہ کھڑا ہونا پڑے گا ورنہ آپ کی ساری طاقت اور ہمارے شہدا کی ساری قربایناں رائیگاں ہو جائیں گی۔ پاکستان کی سیاسی اور معاشی حالت ایک دوسرے میں پیوست ہے اور دنیا کی کوئی معیشت امن کے بغیر ترقی نہیں کر سکتی بہتر معیشت کیلئے امن کی ضرورت ہے اور امن کیلئے بہترین سیاسی فیصلوں کی طرف جانا ہوگا جس کی طرف ہم گامزن بھی ہو چکے ہیں لیکن ابھی بہت کچھ کرنے کو باقی ہے ورنہ شہیدوں کی تعداد اوریزیدوں کا اختیار بڑھتا رہے گا۔