
نیا تعلیمی سال شروع ہوتے ہی مارکیٹ میں نصابی کتب کی دستیابی مشکل بن جاتی ہے۔ صوبوں اور وفاق میں یکساں تعلیمی نصاب پر اتفاق ہونے کے باوجود یکساں نصاب رائج نہیںہو سکا۔گو کہ پرائمری جماعتوں میں یکساں نصاب کی پڑھائی شروع کی گئی کیوں کہ قومی نصابی کونسل متحرک تھی۔ یکساں قومی نصاب سب باشعورکی خواہش ہے۔ یہ طبقاتی نظام تعلیم ختم کرنے میں معاون ثابت ہوسکتا ہے۔ قومی نصاب میں زبان کے مسئلے پر کوئی ابہام نہ ہو، جس زبان میں بچے کو بہتر سمجھنے میں آسانی ہو، اساتذہ اسی زبان میں پڑھائیں ۔ انگریزی کو غیر ملکی زبان کے طور پر پڑھایا جائے۔ وفاقی حکومت ماڈل ٹیکسٹ بک تیار کررہی تھی جسے تمام صوبوں اور اکائیوں کے لیے اہم قرار دیا جا رہا تھا۔ صوبے اضافی مواد بھی متعارف کرا سکتے تھے، یہ خیال رکھا جائے کہ بچوں پر اضافی بوجھ نہ ڈالا جائے۔ پبلشرز کتابوں کی اشاعت سے متعلق اخراجات سے پریشان ہیں۔ اگر ایک کتاب کی اشاعت کے لئے متحدہ علماء بورڈ، بیرونی جائزہ کمیٹی، ٹیکسٹ بک بورڈکو این او سی کی مد میں تقریباً ڈیڑھ لاکھ روپے دینا پڑیں تو وہ اسی کی آڑ میں مہنگی کتب مارکیٹ میں لائیں گے۔ اگر یکساں نظام تعلیم کا بنیادی مقصد تعلیم کے حصول میں ناانصافیوں کا خاتمہ اور تعلیم کے میدان میں طبقاتی خلیج کا سدباب کرنا ہے توپھر مہنگی تعلیم اور اجارہ داری سسٹم کا خاتمہ کرنا ضروری ہو گا۔ تعلیمی ادارے نئی نسل کی صنعت و حرفت، زراعت جیسی پیشہ ورانہ تعلیم و تربیت اور ذہن وکردار سازی میںاہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ مستقبل کو روشن بناتے ہیں۔ان کا مقصدصرف کاروبار یا کمائی نہیں ہوتا۔ یہ دکانیں یا سٹورز نہیں ۔ اس لئے سکول کے انتخاب میں احتیاط لازمی سمجھی جاتی ہے۔ نیا تعلیمی سال شروع ہوچکاہے ، والدین کتابیں، سٹیشنری، یونیفارم، سکول بیگز، وغیرہ خریدنے میں مصروف ہیں۔ کتب خانوں اور سٹیشنری کی دکانوں پر رش لگ جاتا ہے۔تعلیم کسی بھی قوم کی تعمیر و ترقی میں انتہائی بنیادی اور اہم کردار ادا کرتی ہے۔ بچے ہی قوموں کا مستقبل ہیں۔ ان کی تعلیم و تربیت اسی مقصد کے تحت کی جاتی ہے۔ اس پر حساس قومیں بہت توجہ دیتی ہیں۔ لیکن آج کی تعلیم اور تعلیمی نظا م پڑھے لکھے ان پڑھ پیدا کر رہا ہے۔ ہم بچوں کو سماج دوست، ذمہ دارشہری بنانے کے بجائے اسے کمائی کی مشین بنا رہے ہیں۔ ہم تعلیم کو تجارتی مقصد کے تحت ہی دیکھتے ہیں۔ کمائی جس شعبہ میں زیادہ ہو، اس کا رحجان زیادہ ہوتا ہے۔بعض لوگ پڑھے لکھے بیروزگاروں کو دیکھ کر بچوں کو سکول جانے سے روک دیتے ہیں۔یہ ڈاکٹریٹ، گریجویٹ، ماسٹرز ڈگریاں ہاتھ میں اٹھائے سڑکیں ماپ رہے ہوتے ہیں۔وہ سمجھتے ہیں کہ وقت ضائع کرنے سے بہتر ہے کہ بچے کوحوش سنبھالنے پر کسی ہنر یا کام پر لگا دیا جائے۔یہ ایک طبقہ کا تعلیم سے اظہار ناراضی ہے۔تعلیمی نصاب یکساںنہ ہونے سے ہر ایک کاا پنا نصاب ہے۔نگرانی اور قواعد و ضوابط کے بغیر قوم کا مستقبل تباہ کرنے والوں کو من مانی کی اجازت ملی ہوتی ہے۔ یا اس میں متعلقہ حکام بھی شریک ہوتے ہیں۔ بار بار کی یقین دہانیوں ، وعدوں اور اعلانات کے باوجود ایک نصاب تعلیم نہ بنانا ظاہر کرتا ہے کہ جیسے تعلیم وتربیت کو سنجیدہ ہی نہیںلیا گیا۔صرف این ٹی ایس یا کسی ٹیسٹنگ سروس کی خدمات سے نظام بہتر نہیں ہو سکتا۔ ان سروسز کی معتبریت یا کریڈیبلٹی پر بھی سوال اٹھے ہیں۔لوگوں نے اپنی نجی بھرتی، امتحانی کمپنیاں تشکیل دی ہیں اور اپنا کاروبار چمکا رہے ہیں۔ سرکاری سکولوں کی بہتات میں نجی تعلیمی ادارے پھل پھول رہے ہیں۔ نجی سیکٹر قابل قدر ہو گا اگر یہ کاروبار سے اوپر اٹھ کر تعلیم کو عبادت اور مشن کے طور پر دیکھے۔یکساں تعلیمی نصاب سے ذہنی انتشار اور خلفشار پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔ تا ہم اصلاحات کی کافی گنجائش ہے۔ معیار تعلیم کا مطلب ہم صرف زیادہ یا کم نمبرات یا نتائج کے حساب سے لیتے ہیں۔ رٹہ سسٹم ہے۔ درسی کتب اور نصاب مکمل نہیں کیا جاتا۔ چند سوال بچوں کو رٹنے کے لئے دیئے جاتے ہیں۔بچوں کو مضمون کو سمجھانے کی طرف توجہ نہیں دی جاتی۔ایک لائن کو رٹ لیں، نہ اس سے پہلے کا علم، نہ بعد کا۔یہ انتہائی خطرناک ہے۔ علم کے بجائے ہم رٹہ نسل پیدا کر رہے ہیں۔ریسرچ پر توجہ نہ دی گئی تو اس تعلیم کا فائدہ نہ ہو گا۔ہر گلی محلے میں آئے روز سکول کھل رہے ہیں۔سکولوں نے من پسند نصاب مقرر کر رکھے ہیں۔ان کا مقصد جیسے صرف کمائی بن گیا ہے۔ معصوم بچوں پر بھاری کتابیں لادھ دی جاتی ہیں۔ انہیں کتابوں کے بوجھ تلے دبا دیا گیا ہے۔والدین کے پاس بچوں کے لئے و قت نہیں۔کتابی اورذہنی بوجھ سے بچے کی نشو و نما رک جاتی ہے۔ اس کے پٹھے متاثر ہوتے ہیں۔ ہڈیاں دب جاتی ہیں۔ قد نہیں بڑھتا۔ شریانوں پر دبائو سے خون کی گردش کم ہو جاتی ہے۔ زیادہ بوجھ خون کی گردش روکنے کا باعث بنتا ہے۔ یہ جسمانی نقصان ہے۔ سب سے بڑا اور تباہ کن نقصان زہنی ہے۔ کلاس ورک اور ہوم ورک سمجھنے کے بجائے رٹنے کی پریشانی۔ یہ بچے کی نفسیات پر منفی اثر ڈالتی ہے۔ وہ ہر وقت دبائو اور ٹینشن کا شکار رہتا ہے۔ اب تو کئی بچے اپنے ساتھ گھریلو ملازم لاتے ہیں۔ یا ان کے والدین کتابوں بھرے بستے لے کر چلتے ہیں۔ جو بچہ بچپن سے دوسروں پر انحصار کا عادی ہویا اپنا بوجھ والدین پر لادھ کر چلنے پر مجبور ہو تو بڑا ہو کر اس کی کیفیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔اپنا کام خود کرنے کی یہ حوصلہ شکنی ہے۔بعض سکولوں کا کتب خانوں ،یونیفارم ڈیلرزاور سٹیشنرز کے ساتھ جیسے ساز باز ہوتاہے۔یا یہ کمیشن لیتے ہیں۔یا تحائف کے لئے مک مکا ہوتا ہے۔ ایک کتاب کی بازار میں قیمت پچاس روپے ہے تو اس پر 20تا 60فی صد ڈسکائونٹ ملتا ہے۔ زیادہ خریداری پر اس سے بھی زیادہ دیا جاتا ہے۔ پبلشرز کا یہی طریقہ واردات ہے۔ وہ بھی من پسند قیمت لکھ دیتے ہیں۔ پھر جو وصول ہو ، غنیمت ہے۔ یہ ساز باز اور بڑا گٹھ جوڑ ہے۔ جو والدین نرسری کلاس کے بچوں کی کتابیں پانچ پانچ ہزار میں خریدیں گے ۔ ان کی یونیفارم، لنچ، ٹرانسپورٹ کا بندوبست کیسے کریں گے۔ فیسیں بھی بھاری ہیں۔ کتابیں، سٹیشنری کی آسمان کو چھوتی قیمتیں۔ یونیفارم کے منہ مانگے دام۔ یہ سب کاروبار ایک مافیا کی شکل اختیار کر رہا ہے۔بعض ادارے ڈونیشن کے نام پر لوٹ مار کر رہے ہیں۔ لیکن کوئی احتساب، پوچھنے والا نہیں۔ اس پر مضحکہ خیز بات یہ کہ سکول کسی مخصوص کتب خانے یا یونیفارم دکان کے ساتھ سمجھوتہ کر کے والدین کو وہاں من مانی قیمت ادا کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ جس استاد کا رزلٹ سرکاری سکول میں صفر ہے وہی استاد اپنی اکیڈمی کھول کراچھا رزلٹ دیتا ہے۔ سرکاری سکول کا استاد اپنا بچہ پرائیویٹ سکول میں داخل کرتا ہے۔ جب تک وزیر ، مشیر، سیکریٹری،تمام سرکاری ملازمین اپنے بچے اپنے علاقے کے سرکاری سکولوں میں داخل کرنے اور علاج سرکاری ہسپتالوں سے کرانے کی پابندی نہیں کرتے تب تک سرکاری سکولوں ، ہسپتالوںکا معیار بلند نہیں ہو سکتا ۔ اس سے پہلے تعلیمی پالیسی پر خاص توجہ نہیں دی گئی۔سنجیدہ اور تعلیم یافتہ سمجھے جانے والے بھی اس پر توجہ نہ دے سکے۔ دینی تعلیم کو نصاب میں شامل کیا گیا ہے ۔ اس سے بچوں کی اخلاقیات درست ہوں گی۔تعلیم وفاق کے پاس رہے تو ملک بھر میں قومی تعلیمی پالیسی کامیاب گی۔ سکولوں کی رینکنگ کا نظام ہو۔انکریمنٹ ترقیابی کارکردگی سے مشروط ہوں، سرکاری تعلیمی اداروں میں تعینات اساتذہ اپنے بچے پرائیویٹ اداروں کے بجائے اپنے ادارے میں داخل کریں