کالم

27 شوال …طائف کا تبلیغی سفر

طائف کا شہر مکہ سے مشرق کی جانب تقریباً 80کلو میٹر کے فاصلے پر سطح سمندر سے 3ہزار فٹ کی بلندی پر واقع ہے ۔ویسے ہی یہ علاقہ سر سبزو شاداب اور نہایت زرخیز ہے ۔جگہ جگہ چشمے بہتے ہیں ۔پھلوں کے باغات ہیںاور یہ علاقہ عربوں کیلئے صحت افزا مقام سمجھا جاتا تھا۔یہاں کے باغات مکہ کے سرداروں کی ملکیت تھے جو غرور و تکبر ،بُت پرستی اور مشرکانہ افعال میں اپنا ثانی نہ رکھتے تھے۔سرداران قریش نے جب ظلم و ستم کی انتہا کر دی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم زید بن حارثہ کو ساتھ لے کر 27شوال بمطابق 619ء تبلیغ اسلام کیلئے طائف تشریف لے گئے جہاں تقریباً 20دن قیام فرمایا۔قبیلہ بنو ثقیف کے تین سرداروں یالیل،مسعود اور حبیب کو جب آپ ۖ نے اسلام کی دعوت دی تو وہ آپے سے باہر ہو گئے اور نہایت ہتک آمیزلہجے میں گفتگو کرکے حضور ۖ کے سینہ اقدس کو مجروح کیا۔جواب میں آ پ ۖ نے فرمایا ” میں صرف یہ چاہتا ہوںکہ ان خیالات کو اپنے تک ہی محدود رکھو۔ایسا نہ ہو کہ کہ دوسروں کیلئے ٹھوکر کھانے کا سبب بن جائیں”اُن کو خطرہ تھا کہ اگر آپ ۖ کی بات مان لی گئی تو ان کی سرداری خطرے میں پڑ جائے گی۔چنانچہ اوباش اور آوارہ لڑکوں کو پتھر مارنے پر مامور کیا جب وہ سنگ باری کرتے تو حضرت زید سینہ سُپر ہو کر آپ ۖ کی حفاظت کرتے۔اسی دوران آپ کا سر مبارک پھٹ گیااور حضور ۖ بھی لہو لہان ہو گئے اور جب حضور ۖ کے ٹخنوں پر پتھر مارے تو آپ ۖ کے نعلین مبارک خون سے تر ہوگئے اور جب آپ ۖ بے ہوش ہو گئے تو حضرت زید آپ ۖ کو اپنی پیٹھ پر اُٹھا کر آبادی سے باہر ایک باغ میں لے گئے جو عتبہ اور شیبہ کی ملکیت تھا۔ہجرت کے موقع پر حضرت ابو بکر صدیق نے بار نبوت کو اپنی پیٹھ پر اُٹھایا تھا اور طائف کے شہر میں یہ سعادت حضرت زید کو حاصل ہوئی۔حضرت زید نے زخموں کو دھویااور چہرہ اقدس پر پانی کے چھینٹے مارے تو آپ ۖ کوقدرے ہوش آیااور آپ ۖ نے یہ دعا فرمائی "یااللہ اپنی بے بسی ،بے سروسامانی اور لوگوں کی نگاہوں میں بے قدری کی تجھ ہی سے فریاد کرتا ہوں۔اے ارحم الراحمین! سب سے بڑھ کر رحم کرنے والے ! تو ہی درماندہ عاجزوں کا مالک ہے ۔میرا مالک بھی تو ہی ہے۔آخر تو مجھے کس کے حوالے کرنے والا ہے ؟بے گانہ ترش رو کے یا اس دشمن کے جسے میرے معاملے پر قابو ہو ؟اگر تو مجھ سے ناراض نہیں تو مجھے کسی مصیبت کی کچھ پرواہ نہیںکیونکہ تیری حفاظت و عافیت میرے لئے بہت وسیع ہے میں تیری ذات کے نور کی پناہ میں آتا ہوں جس سے تمام اندھیرے اُجالے بن جاتے ہیں۔دنیا اور آخرت کے تمام کام سنور جاتے ہیں تیری ناراضگی اور غصہ مجھ پر نہ ہو مجھے تیری ہی رضامندی اور خوشنودی درکار ہے ۔نیکی کرنے اور بدی سے محفو ظ رہنے کی طاقت تیری طرف سے ہی ملتی ہے۔”حضرت عائشہ سے اس واقعہ کو بیان کرتے ہوئے آپ ۖ نے فرمایا تھا کہ” طائف میں اس دن کو سخت دن قرار دیا "اور فرمایا کہ ” طائف کے اس واقعہ کے بعد حضرت جبرئیل امین نے عرض کیا یا رسول اللہ ۖ آپ ۖ کی تمام تکالیف اللہ نے دیکھ لی ہیں جو اہل طائف نے آپ ۖ کو پہنچائیں۔پہاڑوں کے فرشتہ کی طرف اشارہ کرکے جبرئیل امین نے کہا اس فرشتہ کو جو چاہیں حکم دیں "۔پہاڑوں کے فرشتہ نے عرض کیا یا رسول اللہ "ۖ آپ ۖ حکم دیں تو طائف کی پوری بستی کو دونوں پہاڑوں کے درمیان کچل دوں”۔آپ ۖ کو رحمتہ اللعالمین بنا کر بھیجا گیا اسلئے یہ کیونکر ہو سکتا تھا کہ آپ ۖ اُن کے لئے بد دعا کرتے ۔چنانچہ فرمایا "نہیں میں ان کی تباہی نہیں چاہتاہوں”۔فرمایا” مجھے امید ہے کہ ان کی پشت سے اللہ ایسے لوگ پیدا کرے گا جو صرف اس کی عبادت کریں گے اور کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے” ۔جب آپ ۖ عتبہ کے باغ میں زخمی حالت میں تھے تو اس نے اپنے عداس نامی غلام کے ہاتھ حضور ۖ کے لئے انگور بھیجے ۔حضور ۖ نے بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھ کر انگور کھانے شروع کئے تو غلام نے حیرت سے پوچھا کہ آپ ۖ کونسی زبان بولتے ہیں۔آپ ۖ نے غلام سے پوچھا کہ” تم کہاں کے رہنے والے ہو اور تمہارا مذہب کیا ہے”۔اُ سنے عرض کیا عیسائی ہوں اور حضرت یونس کے شہر نینوا کا رہنے والا ہوں ۔حضور ۖ نے جب اپنا تعارف کرایا تو عرض کیا کہ توریت میں آپ ۖ کی نبوت کا ذکر موجود ہے ۔پھر عرض کیا کہ میں عرصہ دراز سے یہاں آپ ۖ کی تلاش میں ہوں اور دین اسلام قبول کرنا چاہتا ہوں ۔آپ ۖ نے اسے اسلام کی تعلیم دی اور وہ مسلمان ہو گیا۔جب اپنے مالکوں کے سامنے مسلمان ہونے کا اقرار کیا تو اُنہوں نے مذاق اُڑاتے ہو ئے کہا اُن سے بڑھ کر تجھے دنیا میں کوئی نہیں ملا۔غلام نے کہا کہ وہ خوش نصیب ہے کہ حضور ۖ کی نبوت پر ایمان لا کر وہ مسلمان ہو گیادرحقیقت طائف میں تبلیغ اسلام کا سفر ایک اہم واقعہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک انقلابی موڑ بھی تھا۔ایک وہ طبقہ تھا جس نے تبلیغ کے جواب میں آپ ۖ کو پتھر مار مار کر لہو لہان کر دیا اور بے ہودہ گفتگو کرکے آپ ۖ کے قلب اطہر کو چھلنی کیا۔دوسرا طبقہ وہ تھا جس نے تحفہ تحائف بھیجے مگر اسلام قبول نہ کیا ۔ایک طبقہ وہ بھی تھا جو کہنے کو تو غلام تھے مگر حق کی تبلیغ کو دل و جان سے مان کر مسلمان ہو گئے اور جب مکہ اور طائف کے لوگوں نے نافرمانی کی حد کردی اور ظلم و ستم روا رکھا تو اللہ تعالیٰ نے یثرب کے لوگوں پر رحمت کے دروازے کھول دئے اور یثرب کو مدینةالنبی ۖ ہونے کا شرف حاصل ہو گیا۔اور ادھر انسانوں کے علاوہ دوسری مخلوق جنوں نے جب سورہ رحمٰن اور سورہ جن کی تلاوت سُنی تو جنوں نے اسلام قبول کر لیا۔اسطرح اللہ تعالیٰ نے ثابت کر دیا کہ اگر انسان حق کو تسلیم نہیں کرتے تودوسری مخلوق تسلیم کرنے کو تیار تھی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button