کالم

قومی چیلنجز سے کیسے نمٹا جائے

قومی چیلجز کا مقابلہ قومیں کرتی ہیں ہجوم نہیں ۔ قوم اور ہجوم میں فرق ہوتا ہے ۔ قوم مل کر ترقی کی منازل طے کرتی ہے ۔ ہجوم اپنی اپنی ترقی و کامیابی کے چکر میں رہتا ہے ۔ قوم کی منزل ایک ہوتی ہے ۔ ہجوم کی کوئی منزل نہیں ہوتی ۔ قوم ملک کی سلامتی اور بقا کے لئے متحد ہوتی ہے ۔ ہجوم اتحاد و اتفاق جیسی صفت سے عاری ہوتا ہے ۔ قوم اپنی مٹی سے پیار کرتی ہے ۔ ہجوم اپنی ذات کا غلام ہوتا ہے ۔ قوم اپنے وطن پہ جان قربان کرنے کو ہر وقت تیار رہتی ہے ۔ وقت آنے پر ہجوم بکھر جاتا ہے ۔ ہجوم کسی قانوں اور ضابطے کی پرواہ نہیں کرتا جبکہ قوم اس کا احترام کرتی ہے ۔ قوم میں نظم و ضبط ہوتا ہے۔ مگر ہجوم بے ہنگم اور خود سر ہوتا ہے ۔ جب تک انسانوں کا ریوڑ قوم نہیں بنتا اس کا کامیابی ، ترقی اور خوشحالی کا خواب کبھی پورا نہیں ہو سکتا ۔ عصر حاضر کی تمام ترقی یافتہ قوموں میں اک چیز مشترک ہے ۔ سب اپنے قومی مفاد کے تحفظ پر مکمل یکجا اور متفق ہیں ۔وہ قومی مفاد کو ہمیشہ باہمی نظریاتی ، سیاسی و مذھبی نظریات سے بلند سمجھتے ہیں ۔ آپس کے تعلقات ان کے جتنے بھی کشیدہ ہوں اس سے ملکی سلامتی اور مفاد پہ گزند نہیں آنے دیتیں ۔ ملک کو درپیش خارجی و داخلی خطرات کا مل کر مقابلہ کرتی ہیں ۔ ان کی ذاتی رنجشیں اور لڑائیاں ملکی وحدت کو کمزور نہیں کرتیں ۔ یہ وہ قومیں ہیں جنھوں نے مختلف عالمی جنگوں میں تباہی دیکھی ہے ۔ اپنے چمنستان کو اجڑتے دیکھا ہے ۔ آنگن میں قیامت کے مناظر دیکھے ہیں ۔ایٹمی بموں سے ملک راکھ ہوتا دیکھا ہے ۔ لاکھوں شہریوں کو لقمہ اجل بنتے دیکھا ہے ۔ بستیوں کی بستیاں صفحہ ہستی سے مٹتی دیکھی ہیں ۔ حکمرانی اور غلامی کے عروج و زوال سے گزری ہیں ۔ ملک کی جغرافیائی سرحدوں کو بدلتے اور تقسیم ہوتے دیکھا ہے ۔ نوآبادیاتی اور توسیعی پسندی کا دور بھی دیکھا ہے ۔ انقلاب اور خانہ جنگی کی بھیانک صورت حال کا بھی سامنا کیا ہے ۔ بہت کچھ لٹا کر انہوں نے اہم تاریخی اسباق سیکھے ہیں ۔ راکھ کے ڈھیر میں دبے کروٹ لی ، سانس بحال کی اور بجھتی چنگاری کو جرات اور جذبے کی ہوا سے شعلہ بنانے کی ٹھان لی ۔تجدید عزم کیا ، ہمت باندھی ، صف درست کی اور نئی سوچ کے ساتھ قومی سفر کا آغاز کیا ۔ مقاصد کے حصول کے لئے کچھ اصول طے کئے ۔ محنت کو قومی شعار بنایا ۔ وقت کی قدر اور پابندی کو معمول زندگی میں خاص اہمیت دی ۔ اخلاقی اقدار اور روایات کو پروان چڑھایا ۔ احساس انسانیت اور جذبہ ہمدردی کو فروغ دیا ۔ ماحولیاتی صفائی ستھرائی پہ خاص توجہ دی ۔ قومی اتحاد اور یکجہتی کو ملکی سلامتی کے لئے اولین ترجیح دی ۔ یہی قومیں اس وقت ترقی ،خوشحالی اور طاقت کی معراج پہ ہیں ۔ جب وطن عزیز کے آنگن میں جھانکتے ہیں تو پریشانی ہوتی ہے ۔ ہر وقت ملک کی بربادی پہ تو نوحہ کناں ہیں مگر ہجوم سے قوم نہیں بنتے ۔ ذاتی مفاد کے خول سے نکل کر قومی مفاد اور اتحاد کی ڈوری نہیں تھامتے ۔ نظریاتی و سیاسی تقسیم نے قومی مفاد اور احساس کو پس پشت ڈال دیا ہے ۔گفتار کے غازیوں کی ہر طرف بھیڑ ہے ۔سیاسی ، مذھبی جلسوں ، ٹی وی ٹاک شوز اور نجی محفلوں میں قومی اتحاد اور حب الوطنی کی اہمیت اور ضرورت پر بڑا زور دیا جاتا ہے ۔ مگر عملی طور پر اپنی ایک اینٹ کی مسجد سے کوئی بھی دستبردار نہیں ہونا چاہتا ۔طبقاتی ناہمواری ، لسانیت اور فرقہ پرستی کے شکنجے سے آزاد نہیں ہونا چاہتے ۔ اس پہ مستزاد خود پرستی ، شخصیت پرستی اور علاقہ پرستی کا جادو ہے کہ سر چڑھ کر بول رہا ہے ۔ بدقسمتی سے جو ہماری قومی مفاد کی تمام ترجیحات پر سبقت لے چکا ہے ۔ حتی کہ سلامتی کے ادروں کی حرمت اور حساسیت اسکی بھینٹ چڑھ چکی ہے ۔ مقام افسوس ہے کہ شخصیت پرستی کے سحر میں جکڑا طبقہ ملک و قوم کی سلامتی کو داو پر لگانے پہ تلا ہوا ہے ۔ ملکی ساکھ اور نام تو پہلے ہی وہ کافی داغدار کر چکا ہے ۔ اس نے ملک سے محبت اک شخص سے مشروط کر لی ہے ۔ وہ اقتدار میں ہے تو ٹھیک ورنہ اس ملک کا وجود اور بقا اس کیلے بے معنی ہے ۔یہ رحجان بھی وطن عزیز کے لئے گھمبیر چیلنج بنتا جا رہا ہے اس میں کوئی شک نہیں ملک کو تاریخ کے بد ترین معاشی چیلنج کا سامنا ہے ۔ دوسرا بڑا مسئلہ توانائی اور مہنگائی کا ہے ۔ خارجہ پالیسی ، پڑوسیوں سے تعلقات ، بیرونی خطرات، شدید سیاسی عدم استحکام جیسے چیلنجز کا بھی اک الگ گنجلک ہے ۔ ابھرتی ہوئی نوجوان نسل کی غلط ذہن سازی اور اس کے اثرات بھی اس صورت حال کو مزید پیچیدہ اور گھمبیر کر رہے ہیں ۔ وقت آ چکا ہے کہ ہم اپنی ذات کے خول سے نکل کر سنجیدگی سے سوچیں خود احتسابی کریں ۔ اپنے افکار اور اعمال کا جائزہ لیں ۔ محض اقتدار اور مراعات کے ساتھ ملک سے وفا کو مشروط کرنا ترک کریں ۔ دشمنوں کی مذموم ارادوں اور چالوں کو سمجھیں ۔جو قومیں اندرونی خلفشار اور نااتفاقی کے سبب برباد ہوئی ہیں ان سے عبرت لیں ۔ جذبات اور مستی میں بسا اوقات انسان سامنے آتی ہر شئے کو کچل دیتا ہے مگر جب ہوش آتی ہے تو سوائے رونے اور پچھتاوے کے کچھ نہیں بچتا ۔ یاد رکھیں ، ترقی یافتہ اور مہذب قوموں نے مشکلات پہ قابو پانے کے لئے یکجہتی ، قانون کی حکمرانی اور ریاستی اداروں کے احترام کو نصب العین بنایا تھا ۔ہمیں ان کی تقلید کرنا ہوگی ۔اپنے اپنے مذھب ، عقیدے اور نظریات پہ رہتے ہوئے ملکی قوانین کی پاسداری کرنا ہوگی ۔ ملک کی ڈولتی معیشت کو انفرادی اور اجتماعی کردار سے سنبھالنا ہوگا ۔ صنعت کاروں ، تاجروں اور تمام صاحب ثروت ہموطنوں کو ایمانداری سے ٹیکس دینا ہوگا ۔ اپنی اپنی پارٹی کا پرچم تھامے رکھیں ، مگر ملکی سلامتی کو خطرہ کی صورت میں مل کر اس کی حفاظت کرنا ہو گی ۔ گرتی ہوئی اخلاقی و معاشرتی روایات کو سنبھالنا ہوگا۔ ورنہ آنے والی نسلوں کے رحجانات اور اطوار آپ کی برداشت سے باہر ہوں گے ۔ باہمی خیر و اخوت کے جذبے کو ابھارنا ہو گا ۔ آخرت سنوارنے کے لئے تجوریاں نہیں بھوکوں کا پیٹ بھرنا ہوگا ۔ دنیا فانی اس کے سے جڑے تمام معاملات بھی عارضی ہیں ۔ یاد رہے ، دنیا سے رخصت ہوتے ہوئے کسی کے بینک اکاونٹ میں ایک ہزار یا ارب پڑا ہو اس کے لئے بے معنی ہوتا ہے ۔ خدارا اس تلخ حقیقت پر سنجیدگی سے غور کریں ۔ بجلی کی بچت ، گلی محلے کی صفائی و ستھرائی اور معاشرے کے ماحول کو بہتر اور ساز گار بنائیں ۔پڑوسیوں محلے داروں کا خیال رکھیں ۔ یہ وہ بنیادی تقاضے ہیں جنھیں پورا کر کے آپ قوم بن سکتے ہیں ۔ فوجی دستوں کی طرح کندھے سے کندھا ملا کر خطرات سے نبٹنے کے لئے اک صف میں کھڑا ہو جائیں ۔ اک دوسرے کا سہارا بنیں ۔ یکجا ہو کر دشمن کے مذموم عزائم خاک میں ملائیں ۔ جتنا جلد ہو سکے اس کا احساس کر لیں ، ورنہ ہجوم اتنے بڑیچیلجز کا سامنا نہیں کر پاتے اور بکھر جاتے ہیں

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button