18اپریل 2024 کو جماعت اسلامی پاکستان کے ہیڈکوارٹرز منصورہ میں منعقدہ پروقار تقریب میں حافظ نعیم الرحمن نے جماعت اسلامی کے چھٹے امیر کی حیثیت کی حیثیت سے حلف اٹھا لیا ہے یہ اپنی نوعیت کی منفرد تقریب تھی جس میں جماعت اسلامی کی پوری قیادت موجود تھی اقتدار کی منتقلی کی خوبصورت تقریب اس لحاظ سے قابل تعریف تھی کہ اس میں سبکدوش ہونے والے امیر سراج الحق نہ صرف بہ نفس نفیس موجود تھے بلکہ انہوں نے اپنی 10 امارت کے خاتمہ پر تاریخی جملہ کہا کہ ”میں نے جماعت کی امانت اپنے سے بہتر شخص کے سپرد کر دی ہے جماعت اسلامی کے امیر کی تقریب حلف برداری روایتی تقریب حلف برداری سے یکسر مختلف ہوتی ہے جس میں نو منتخب امیر جماعت اسلامی پروقار تقریب میں از خود ہی حلف اٹھاتا ہے اور اسلام کی سر بلندی کے لئے کام کر نے کا عہد کرتا ہے انہوں نے منصب صدارت سنبھالنے کے بعد کارکنوں کو ”فارم47کی مسلط کی گئی حکومت کے خلاف بڑی تحریک برپا کرنے کا پیغام دیا ہے انہوں نے کسی اتحاد کا حصہ بننے کی بجائے دو ٹوک الفاظ میں کہا ہے ”جو سیاسی جماعتیں سمجھتی ہیں کہ عام انتخابات میں عوامی مینڈیٹ پر شب خون مارا گیا ہے وہ ہماری تحریک کا حصہ بن جائیں ”اگلے روز جماعت اسلامی کی مرکزی مجلس شوریٰ کا اجلاس حافظ نعیم الرحمنٰ کی زیر صدارت منعقد ہوا جس میں مرکزی مجلس شوریٰ کی مشاورت سے پہلے مرحلے میں امیر العظیم کو دوبارہ قیم کی ذمہ داری سونپ دی ہے جب کہ لیاقت بلوچ اور میاں اسلم کو دوبارہ نائب صدور بنا دیا فی الحال دو نئے نائب صدور بنائے گئے ہیں ان میں ڈاکٹر عطا الرحمنٰ اور ڈاکٹر اسامہ رضی شامل ہیں اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حافظ نعیم الرحمنٰ جماعت اسلامی کے موجودہ نظم میں کوئی بڑی تبدیلی لانے کا ارادہ نہیں رکھتے سراج الحق کی قیادت میں کام کرنے والی پوری ٹیم جس میں قیصر شریف اور نذیر جنجوعہ شامل ہیں کی صلاحیتوں سے بھرپور استفادہ کرنا چاہتے ہیں حافظ نعیم الرحمنٰ تحریک اسلامی کی قیادت بارے میں جن جذبات کا اظہار کیا ہے وہ لائق تحسین ہیں انہوں نے کہا کہ ”سید ابو الاعلیٰ مودودی نے عالمگیر تحریک اسلامی کے ذریعے پوری دنیا کو بیدار کیا ہے اخلاص کے پیکر میاں محمد طفیل ، جدو جہد کے استعارہ، فقر و درویشی کی علامت سید منور حسن اور مجسم شفقت و محبت سراج الحق نے تحریک کو منظم کے لئے جو محنت کی ہے اسے ضائع نہیں ہونے دیا جائے گا ” جماعت اسلامی کی مرکزی مجلس شوریٰ کے اجلاس کے اختتام پر جاری ہونے والے اعلامیہ میں جماعت اسلامی کی ”تحریک تحفظ آئین پاکستان ” میں شمولیت کے بارے میں خاموشی اختیار کی گئی ہے جب اس سلسلے میں جماعت اسلامی کے ایک ذمہ دار عہدیدار سے استفسار کیا گیاتو انہوں نے بتایا کہ جماعت اسلامی نے تحریک تحفظ آئین پاکستان میں شمولیت کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی البتہ اگر ان کی طرف سے کسی اجلاس میں شرکت کی دعوت آئی تو شرکت کی جائے گی جماعت اسلامی اپنی انفرادیت برقرا رکھے گی جماعت اسلامی کو قائم ہوئے 83سال ہو گئے ہیں اس کے 6امراء منتخب ہوئے ہیں جماعت اسلامی پاکستان کی واحد سیاسی جماعت ہے جس میں وراثت نام کی کوئی چیز نہیں خفیہ رائے شماری سے نہ صرف امیر جماعت اسلامی کا انتخاب عمل میں لایا جاتا ہے بلکہ نچلی سطح پر بھی امراء اور شوریٰ کا انتخاب خفیہ رائے شماری سے کیا جاتا ہے سیاسی موسم گرم ہو یا سرد جبرکا ماحول ہویا مارشل لاء کے ذریعے جماعت اسلامی پر پابندی عائد کر دی گئی ہے جماعت اسلامی کا شیرازہ کبھی بکھرا نہیں اور نہ ہی دھڑے بندی ہوئی جماعت اسلامی کا امیر 5سال کے منتخب کیا جاتا ہے جس قدر امیر باختیار ہوتا ہے اسی قدر جماعت اسلامی کی مرکزی مجلس شوریٰ کے سامنے بے بس ہوتا ہے مرکزی مجلس شوریٰ امیر جماعت اسلامی کے خلاف تحریک عدم اعتماد منظور کر سکتی ہے امیر کی پالیسیوں کا احتساب کرنا اس کا اختیار ہے مجال ہے مرکزی مجلس شوریٰ کے اجلاس میں زیر بحث آنے والی کوئی بات لیک ہو جماعت اسلامی کا ترجمان یا قیادت کے سواکوئی عہدیدار مجلس شوریٰ میں زیر بحث آنے والے پر بات نہیں کرسکتا 26اگست1941کو جماعت اسلامی کا قیام عمل میں لایا گیا گنتی کے چند لوگ تھے جنہوں نے جماعت اسلامی کی بنیاد رکھی شروع شروع میں اس تنظیم کو کوئی خاص پذیرائی حاصل نہ ہوئی لیکن وقت کے ساتھ یہ نوزائیدہ پودا ایک تناور درخت بن گیا قرار داد مقاصد ہو یا تحریک نظام مصطفیۖ،تحریک ختم نبوت ،بنگلہ دیش نامنظور تحریک سمیت قومی سطح پر ہر تحریک میں جماعت اسلامی صف اول میں شامل رہی جماعت اسلامی کے اندر نظم اور ڈسپلن کسی تحریک کی کامیابی میں کلیدی کردار ادا کرتا رہا ہے جماعت اسلامی کا یہ المیہ ہے اس کی سٹریٹ پاور کسی جماعت کی کامیابی کا زینہ تو بن جاتی ہے لیکن جماعت اسلامی کو انتخابی کامیابیوں میں سے بہت کم حصہ میں آیا اتحادوں کی سیاست نے جہاں جماعت اسلامی کو سیاسی فائدہ پہنچایا ہے وہاں اسے اپنی شناخت کے حوالے سے بڑا نقصان اٹھانا پڑاہے جماعت اسلامی کے اند ر اس بات پر اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ بے شک عام انتخابات میں اسے ایک نشست بھی نہ ملے لیکن اسے اپنی شناخت کسی طور بھی ختم نہیں کرنی چاہیے یہی وجہ ہے اس نے 10سالہ سولو فلائٹ نے جماعت اسلامی کا پارلیمانی وجود تقریباً ختم کردیا لیکن اس کے ووٹ بینک میں تین گنا اضافہ ہو گیا ہے اگر متناسب نمائندگی کا نظام نافذ ہو تو جماعت اسلامی پارلیمان میں با آسانی25،30نشستیں حاصل کر سکتی ہے لیکن پورے ملک میں پھیلا ہوا اس کا ووٹ بینک اسے ایک نشست بھی نہ دلوا سکتا حافظ نعیم الرحمن کو خاموش کرنے کے لئے ایک نشست کی خیرات دی گئی تو انہوں نے یہ کہہ کرکہ” پی ٹی آئی کی جیتی ہوئی نشست پر اس کا حق ہے ” نشست کی پیشکش کو اپنی جوتی کی نوک پر رکھا ۔ حافظ نعیم الرحمن نے چند سالوں کے دوران کراچی میں جماعت اسلامی میں نئی جان ڈال دی ہے امیر جماعت اسلامی منتخب ہونے کے بعد ان کی کراچی میں کمی محسوس کی جائے گی جماعت اسلامی کو دائیں بازو کی ایک قدامت پسند جماعت ہونے کا طعنہ دیا جاتا ہے جماعت اسلامی نے بھی کبھی قدامت پسندی پر معذرت خوانہ طرز عمل اختیار نہیں کیا جماعت اسلامی نے ہی نے ”سرخ انقلاب” کے مقابلے میں ”سبز ہے ایشیا سبز ہے” کا نعرہ متعارف کرایا خطے کی بدلتی صورت حال نے ان دونوں نعروں کی شدت میں کمی تو پیدا کر دی ہے لیکن آج بھی بائیں بازو کی بچی کچھی فوج جماعت اسلامی کو ہی اپنا سب سے بڑا مخالف سمجھتی ہے جماعت اسلامی نظریاتی طور جمعیت علما اسلام اور مسلم لیگ (ن) کے بہت قریب ہے ان دونوں جماعتوں کی قربت سے اسے جو چرکے لگے انکے زخم تاحال مندمل نہیں ہوئے جماعت اسلامی میں مسلم لیگ (ن) سے دوستی کرنے کے حامیوں کی محدود تعداد موجود ہے لیکن نقارخانہ میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے مسلم لیگ (ن) سے تعلقات کار بحال کرنے کے حامیوں کی کوئی نہیں سنتا اسی طرح جمعیت علما اسلام اور جماعت اسلامی کے درمیان فاصلے اس حد تک بڑھ گئے ہیں ان کو ختم کرنے کی کوئی کوشش کامیاب ہوتی نظر نہیں آتی حافظ نعیم الرحمن اپنی وضع قطع کے لحاظ سے ایک ماڈرن شخصیت نظر آتے ہیں ان کو بڑے چیلنجوں کا سامنا ہے جماعت اسلامی کو ایک بار پھر تیسری جماعت کے طور سیاسی افق پر نمودار کرنا سب سے بڑا چیلنج ہے جماعت اسلامی کا سیاسی مستقبل بڑی حد تک حافظ نعیم الرحمنٰ کی کارکردگی سے وابستہ ہے (جاری ہے)
0 30 5 minutes read