کالم

زندگی کی ضمانت پانی

خالقِ کائنات کی بیش بہا نعمتیں جو زندگی کو برقرار رکھنے کے لیے بنیادی ضرورت کی حامل ہیں ان میں بے رنگ، بے بو اور بے ذائقہ مرکب پانی بھی اللہ تعالی کی ایک انمول نعمت ہے۔ بے شک رب العالمین کی پیدا کردہ نعمتوں میں سے پانی اور ہوا انسانی زندگی ہی نہیں بلکہ کائنات کے وجود کی بقا کے لیے خالقِ کائنات کی پیدا کردہ نعمتوں میں سے عظیم نعمت ہے۔ کرہ ارض پر مشرق و مغرب اور شمال سے جنوب تک رنگ بکھیرتی زندگی، زراعت، صنعت اور معیشت کے تمام شعبہ جات کا پہیہ پانی کی مرہونِ منت رواں دواں ہے جو انسانی زندگی کا ایک نہایت اہم جزو ہے۔ اب تک دریافت کیے گئے سیاروں اور ستاروں میں سے ہماری زمین ہی وہ واحد سیارہ ہے جہاں زندگی پوری آب و تاب کے ساتھ رواں دواں ہے اور اسکی وجہ یہاں پر پانی کی موجودگی ہے۔ یہ کہنا غلط نا ہو گا کہ پانی زندگی ہے اور سایہ زندگی کی بقا ہے۔ اس جملے میں اس قدر گہرائی ہے کہ شاید ہم اندارہ بھی نہیں کر سکتے۔ پانی وہ قدرتی مادہ ہے جو ٹھوس مائع گیس یعنی بخارات کی شکل میں ہر جاندار کے جسم میں پایا جاتا ہے جو خون کو گاڑھا ہونے سے بچانے اور خون کے نظام کو بحال اور روانہ رکھنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ پاکستان ان ممالک کی فہرست میں شامل ہے جن کے پاس پانی کے بڑے بڑے ذخائر اور وسائل موجود ہیں اگر انہیں بروقت بروئے کار لایا جاتا تو پاکستان دنیا کا خوشحال ترین اور ترقی یافتہ ملک بن سکتا تھا لیکن افسوس کہ حکمران طبقے کی لوٹ مار اور خود غرضی کے باعث وطنِ عزیز کے یہ ذخائر گویا اپنے خاتمے کی طرف جا رہے ہیں۔ پانی کا یہ مسئلہ نیا نہیں ہے لیکن آہستہ آہستہ سنگین نوعیت اختیار کر رہا ہے۔ بدقسمتی سے آج ہم دنیا کے ان 36 ممالک میں شامل ہیں جو پانی کے سنگین بحران کی لپیٹ میں ہیں۔ دنیا میں پانی کے بحران کا شکار ممالک میں پاکستان آج تیسرے نمبر پر ہے۔ پانی کی قلت ایک سنگین مسئلہ ہے جو ہر گزرتے دن کے ساتھ شدید ہوتا جا رہا ہے۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث تمام جانداروں کی بقا خطرے میں ہے۔ پاکستان بارش، برف اور گلیشیر پگھلنے سے اپنا پانی حاصل کرتا ہے کیونکہ ملک کا 92 فیصد حصہ نیم بنجر ہے۔ قیام ِ پاکستان سے لے کر اب تک پاکستان کے بے شمار علاقوں میں عوام پینے کے صاف پانی کی سہولت سے محروم ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ بے شمار علاقوں کے انسان جانوروں کے ساتھ پانی پینے پر مجبور ہیں۔ سور انبیا میں ارشادِ باری تعالی ہے ہم نے پانی سے ہر زندہ چیز کو بنایا تو کیا وہ ایمان نہ لائیں گے۔ پانی سے پیار زندگی سے پیار ہے۔ انسانی زندگی میں پانی کو بنیادی اہمیت حاصل ہے کیونکہ پانی ہی زندگی ہے اس کے بغیر زندگی کا تصور ہی ممکن نہیں اس کرہ ارض اور ہمارے اپنے جسم کا ستر فیصد پانی پر مشتمل ہے۔ انسانی بستیوں کا آغاز دریائوں کے کنارے ہوا۔ کائنات کی یہ رنگینی، بوکلمونی، نہریں، آبشار، جھرنے، تالاب، ندیاں، سمندر، باغات، مرغزار، گلستان، نباتات و جمادات کے وجود اور بقا کا انحصار پانی پر ہی ہے۔ فرمانِ باری تعالی ہے اور ہم نے اتارا آسمان سے پانی اندازہ کے مطابق پھر اسے زمین میں ٹھہرایا اور بے شک ہم اس کے لے جانے پر پوری طرح قادر ہیں۔ پانی نا صرف انسانوں اور دیگر جانداروں کی بنیادی ضرورت ہے بلکہ یہ ہماری دنیا کی سحر انگیز اور دلکش شے بھی ہے۔ زمین جب مردہ ہو جاتی ہے تو آسمان سے آبِ حیات بن کر بارش ہوتی ہے اور تمام مخلوق کے لیے زندگی کا سامان مہیا کرتی ہے۔ پانی نعمتِ الہی ہے اور بارش رحمتِ الہی۔ فرمانِ باری تعالی ہے اور وہی ہے جس نے آسمان سے پانی اتارا پاک کرنے والا تاکہ ہم اس سے زندہ کریں مردہ شہر کو اور اسے پلائیں اپنے بنائے ہوئے بہت سے چوپائیوں اور آدمیوں کو اور بیشک ہم نے ان میں پانی کے پھیرے رکھے ہیں تا کہ وہ دھیان کریں مگر بہت سے لوگوں نے نا مانا اور ناشکری کی۔ آبادی میں ہو رہے مسلسل اضافے، آلودگی، فطری وسائل کے بے دریغ استعمال کی وجہ سے موجودہ دور میں ہمارے کرہ ارض کو پانی کی شدید قلت کا سامنا ہے۔ ہماری زمین کے گرد اوزون کی فطری تہہ سورج کی روشنی کو متوازن انداز میں ہم تک پہنچاتی ہے لیکن مختلف صنعتوں کی زہریلی گیسوں نے اسے کمزور کر دیا ہے جس سے موسمی تغیرات نے جنم لیا اور یوں دیگر مسائل کے ساتھ ساتھ پانی کی قلت پیدا ہوئی، حالات یہ ہیں کہ دنیا کے دس آلودہ ترین دریائوں میں سے آٹھ ایشیا میں پائے جاتے ہیں اور ان میں دریائے سندھ اور دریائے گنگا بھی شامل ہیں۔ تقریبا پوری دنیا کو ہی پانی کا مسئلہ درپیش ہے لیکن پاکستان میں صورتحال زیادہ سنگین ہے۔ کم بارشوں اور بھارت کی جانب سے پانی روکے جانے کی وجہ سے دریا خشک ہو نے کے بعد پاکستان آنے والے کچھ سال میں پانی کے شدید بحران سے دوچار ہو سکتا ہے۔ مگر پھر بھی قدرت کے اس حسین تحفے کا زیاں بے دردی سے جاری ہے۔ عالمی ادارہ صحت کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کی صرف پندرہ فیصد آبادی کو پینے کا صاف پانی میسر ہے۔ روشنیوں کے شہر کراچی کے لوگ سمندر کے کنار ے بھی پیاسے ہیں، انتظامیہ شہر کی تمام آبادیوں کو پینے کا صاف پانی فراہم کرنے میں بری طرح ناکام ہو چکی ہے۔ زیادہ تر لوگ پینے کا صاف پانی خریدنے پر مجبور ہیں۔ پانی کا ایک قطرہ زندگی ہے اس کی حفاظت ہمارا انفرادی اور اجتمائی فریضہ ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جو اپنی قومی آمدنی کا سب سے کم حصہ عوام کو صاف پانی فراہم کرنے اور نکاسی آب کا نظام بہتر کرنے کے لیے خرچ کرتے ہیں صاف پانی اور نکاسی آب نا ہونے سے پیدا ہونے والی آلودگی کی وجہ سے ہمارے ملک میں ہر سال 52 ہزار بچے ہیضہ اور 842000 لوگ پیٹ کی دیگر بیماریوں کے باعث لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔ زمین پر زندگی کی موجودگی کو برقرار رکھنے کے لیے پانی کے تحفظ کو یقینی بنانا بہت ضروری ہے۔ چھوٹی چھوٹی احتیاطوں سے اس انمول تحفے کی بچت کی جا سکتی ہے۔ ضرورتِ وقت ہے کہ پانی کے مسائل کے بارے میں عوام میں شعور پیدا کیا جائے۔ بارش کے پانی کو مختلف طریقوں سے محفوظ کر کے استعمال میں لایا جائے۔ ہمیں بہ حیثیت قوم کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔
موقع کی نزاکت اور سنگینی کو سمجھتے ہوئے اپنی روزمرہ زندگی میں پانی کو احتیاط سے استعمال کرنے کی عادت اپنا کر کچھ بہتری لا سکتے ہیں۔ اگر ہم نے اب بھی ہوش کے ناخن نا لیے تو آنے والے چند سال میں پانی کی قلت کے باعث صنعت، زراعت سمیت متعدد شعبے تباہ ہو جائیں گے جس کے باعث ملک میں قحط کا خطرہ پیدا ہو سکتا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button