کامیابی یا سرخروئی کے لیے بلا شبہ سخت محنت کی ضرورت ہوتی ہے مگر بعض اوقات بندہ سخت محنت کے بعد بھی ناکامیوں کا منہ دیکھتا ہے۔ بار بار کی کوشش البتہ ضرور کامیابی کی نوید بن جاتی ہے۔
اصل کامیابی یہ نہیں کہ انسان محض اپنی ذات کا سوچ کر آگے بڑھنے کی کوشش کرے۔ کامیاب ہونے کے لیے دوسروں کی کامیابی میں کردار ادا کرنا بھی کامیابی کی نوید لاتا ہے۔ انسان خود تو کامیاب ہوتا ہی ہے مگر اپنی وجہ سے دوسروں کو کامیاب دیکھ کر اسے جو اندرونی خوشی ہوتی ہے انفرادی خوشی اس کا عشرِ عشیر بھی نہیں ہوتی۔
ایک دن ٹیچر نے کلاس کے پچاس بچوں سے کہا کہ آج ہم ایک کھیل کھیلتے ہیں۔ دیکھتے ہیں آپ میں سے کون کون کامیاب ہوتا ہے اور آپ کتنی دیر میں تمام طلبہ اس کھیل میں سرخرو ہوتے ہیں۔ اس کے بعد ٹیچر تمام طلبہ کو ساتھ والے کمرے میں لے کر گیا اور بتایا کہ اس کمرے میں فرش پر پچاس غبارے ہوا بھر کر رکھے گئے ہیں۔ ہر غبارے پر آپ میں سے ایک طالب علم کا نام لکھا ہوا ہے۔ آپ نے اپنے نام کا غبارہ تلاش کرنا ہے۔ تمام طلبہ بڑے جوش سے کمرے میں داخل ہوئے اور اپنے نام والا غبارہ تلاش کرنا شروع کر دیا۔ کبھی ایک کے نام کا غبارہ تو کبھی دوسرے کے نام کا غبارہ ہاتھ آتا۔ وہ غبارہ پھینکتے اور اپنا غبارہ تلاش کرنے لگتے۔ چھینا جھپٹی، افراتفری اور شور و غل سے عجیب بے ترتیبی اور بدنظمی کا ماحول بنا ہوا تھا۔ اس بھاگ دوڑ میں چند غبارے پھٹ بھی گئے۔ دس منٹ بعد ٹیچر نے کھیل رکوایا تو صرف پانچ طلبہ اپنے نام والے غبارے تلاش کر سکے تھے۔ ان کے چہرے فتح کے جوش سے چمک رہے تھے۔ باقی سب مایوس تھے۔ ٹیچر نے تمام بچوں کو کمرے سے باہر بلوا لیا۔
اب ٹیچر نے پھٹے ہوئے غباروں کی جگہ نئے غبارے رکھوا دیے اور بچوں سے کہا
”آپ سب نے دوبارہ کمرے میں جانا ہے۔ جس کے ہاتھ میں غبارہ آئے گا اس پر لکھا ہوا نام پڑھنا ہے اور بلند آواز سے پکار کر اپنے اس کلاس فیلو کو دے دینا ہے”۔ سب طلبہ نے ایسا ہی کیا۔ ایک منٹ سے کم وقت میں تمام طالب علموں کے ہاتھوں میں ان کے نام کے غبارے پکڑے ہوئے تھے۔ طلبہ کو کھیل ہی کھیل میں زندگی بھر کے لیے سبق مل چکا تھا کہ اتفاق میں برکت بھی ہے اور کامیابی بھی۔ اور اس کامیابی کے لیے نہ توزیادہ انتظار کرنا پڑتا ہے۔ نہ ہی چھینا جھپٹی کی ضرورت ہوتی ہے اور نہ ہی اپنی کامیابی کے لیے دوسروں کا غبارہ پھاڑ کر ان کی کامیابی میں رکاوٹ پیدا کرنے کی کوشش کرنا پڑتی ہے۔
اجتماعی کامیابی ذاتی کامیابی سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ اس سے آپس میں بھائی چارہ اور تعلقات بڑھتے ہیں۔ محبت اور تعاون کے جذبات فروغ پاتے ہیں۔ مثبت نتائج حاصل کرنے کے لیے زیادہ دیر انتظار نہیں کرنا پڑتا۔ چھینا جھپٹی اور اضطرابی کیفیت سے نہیں گزرنا پڑتا۔ نہایت سکون، خاموشی اور سلیقے کے ساتھ خوشگوار ماحول میں سرخروئی آپ کا مقدر ٹھہرتی ہے۔
ایک دانا آدمی سے پوچھا گیا:
زندگی میں کامیابی کیسے حاصل ہوتی ہے؟
دانا نے کہا اس کا جواب لینے کیلیے آپ کو آج رات کا کھانا میرے پاس کھانا ہوگا۔
سب دوست رات کو جمع ہوگئے۔
اس نے سوپ کا ایک بڑا برتن سب کے سامنے لا کررکھ دیا۔
مگر سوپ پینے کے لیے سب کو ایک ایک میٹر
لمبا چمچ دے دیا۔ اور سب کو کہا کہ آپ سب نے لمبے چمچ سے سوپ پینا ہے۔
ہر شخص نے کوشش کی،
مگر ظاہر ہے ایسا ناممکن تھا۔
کوئی بھی شخص چمچ سے سوپ نہیں پی سکا۔ سب بھوکے ہی رہے۔
سب ناکام ہوگئے تو اس دانا نے کہا:
میری طرف دیکھو۔
اس نے ایک چمچ پکڑ ا
سوپ لیا اور چمچ اپنے سامنے والے شخص کے منہ سے لگا دیا۔ اب ہر شخص نے اپنا اپنا چمچ پکڑا اور دوسرے کو سوپ پلانے لگا
سب کے سب بہت خوش ہوئے۔
سوپ پینے کے بعد دانا آدمی کھڑا ہوا اور بولا:
جو شخص زندگی کے دسترخوان پر اپنا ہی پیٹ بھرنے کا فیصلہ کرتا ہے،
وہ بھوکا ہی رہے گا۔
اور جو شخص دوسروں کو کھلانے کی فکر کرے گا، وہ خود کبھی بھوکا نہیں رہے گا۔
دینے والا ہمیشہ فائدہ میں رہتا ہے، لینے والے سے۔
ہم سب کی کامیابی کا راستہ دوسروں کی کامیابی سے ہوکر گزرتا ھے
0 30 3 minutes read