کالم

خوف ، سرمایہ اور تبدیلی

سرمایہ بہت شرمیلا ہوتا ہے، یہ اس جگہ پر نہیں ٹکتا جہاں خوف اور بے یقینی ہو ۔ سرمایہ دارانہ نظام کی بنیاد، سرمائے کی گردش ہے۔ جس قدر سرمایہ گردش کرے گا اسی قدر خوشحالی نظر آئے گی۔
بھارت نے بہت معاشی ترقی کی ہے اور وہاں بے تحاشہ سرمایہ دار ہیں ، لیکن آج سے پندرہ سال قبل تک اور شائد کسی حد تک اب بھی بیشتر بھارتیوں کے چہروں پر خوشحالی کی رونق نظر نہیں آتی اور اس کی وجہ صدیوں پرانے ہندوآنہ عقیدے کی وہ بنیا سوچ ہے جس میں لکشمی کی پوجا کی جاتی ہے اور اکثر بھارتی گھرانوں میں پیسے کو سونے میں تبدیل کر کے زمین میں دبانے کا رواج ہے۔ جس کی وجہ سے سرمائے کی گردش رک جاتی ہے۔
ہمارے ہاں تبدیلی سرکار نے آتے ہی اندھا دھند لاٹھی چارج کیا تھا ، نیب کا بے دریغ استعمال کیا ، ایف بی آر نے نوٹس پر نوٹس نکالنے شروع کر دئے تھے، ایف آئی اے نے کریک ڈاون شروع کر دیا تھا، ٹی وی پر ہر وقت پکڑ دھکڑ، جرمانے اور سزائوں کی خبریں چلنی شروع ہو گئی تھی، اینکرحضرات خدائی فوجدار بن کر آنے والے حالات کا ایسا نقشہ پیش کرنے لگے کہ "الامان الحفیظ” بس اب قیامت آیا ہی چاہتی ہے ۔ ہمارے میڈیا نے مجموعی طور پر ایسا ماحول پیدا کر دیا تھا کہ تاجر اور سرمایہ کار خوف کا شکار ہوگئے۔ بے یقینی کی ایسی فضا کہ کل نہ جانے کیا ہو جائے، رہی سہی کسر ہمارے کپتان اور انکی ٹیم نے پوری کر دی تھی۔ وزیرِ اعظم ساری دنیا میں پاکستان میں ہونے والی کرپشن اور اس کے خلاف سخت سے سخت سزاوں کا ڈھنڈورا پیٹتے رہے۔ ان کے وزراء جس میں وزیرِ خزانہ سے لے کر وزیرِ ریلوے تک شامل تھے، سب عدالتوں کے جج اور نیب کے ترجمان بن کر لوگوں کے جیل جانے کی پیشگوئیاں کرتے رہے بغیر ہوم ورک کئے روپے کی قدر یک دم 30فیصد تک گرا دی گئی اپنے ہر پچھلے کئے گئے وعدے سے منحرف ہو گئے تھے۔ آئی ایم ایف پر لعنت اور ٹیکس ایمنیسٹی اسکیم کو چوروں کی سہولت کاری کہہ کر دوبارہ اسی تنخواہ پر نوکری، مودی کو ایک ہی سانس میں حملہ آور اور دہشت گرد قرار دے کر اگلی سانس میں مذاکرات کی دعوت اور ایم کیو ایم کو قاتل اور بھتہ خور قرار دینے سے لیکر نفیس لوگ بنانے تک تبدیلی سرکار ایک معمہ ہے نہ سمجھنے کا نہ سمجھانے کا۔ان تمام مذکورہ بالا اقدامات نے اور کچھ تو نہیں کیا لیکن سرمایہ کاروں اور تاجروں کو خوف اور بے یقینی میں مبتلا کر دیا تھا جس کے اب تک اثرات ختم نہیں ہو پارہے ہیں ۔ بیرونی سرمایہ کار تو کیا آتے ، اندرونی سرمایہ کار بھی سخت پریشانی کا شکار ہو گیا اور سب دم سادھے اپنی اپنی جگہ پر دیکھو اور انتظار کرو کی پالیسی پر گامزن ہو گئے تھے۔ معیشت کا پہیہ رک گیا تھا، روز مرہ کی انتہائی ضروری خریداری کے علاوہ کوئی بھی پیسہ خرچ کرنے کو تیار نہیں تھا۔ نتیجتاًسرمائے کی گردش رک گئی۔ ڈالر مہنگا ہونے سے درآمد شدہ خام مال اور اس سے تیارشدہ مصنوعات مہنگی ہو گئیں لہٰذا ایکسپورٹ میں بھی اضافہ نہیں ہو سکا۔ مقامی خریدار کی قوتِ خرید متاثر ہونے سے لوکل سیل بھی کم ہو گئی اس کے نتیجے میں چھوٹے کاروبار بند اور ان کے ملازمین بے روزگار ہونے لگے تھے۔تیل ، گیس اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے سے مہنگائی عروج پر پہنچ گئی اورغریب اور متوسط طبقے کا گزارہ نا ممکن ہو گیا تھا اب بھی ایسا ہی منظر سامنے ہے ۔مجھے اکثر بیرونِ ملک سفر کا موقعہ ملتا ہے اور وردی پوش لوگوں سے واسطہ صرف امیگریشن کے وقت پڑتا ہے باقی آپ پورا ملک گھومیں ، کہیں آپ کو پولیس اور دیگر وردی پوش نظر نہیں آئیں گے، آپ اپنے آپ کو آزاد ماحول میں محسوس کرینگے، لوگ آزادانہ لین دین کرتے نظر آئیں گے۔یورپ میں اگر کسی پر لاکھوں یورو کا ٹیکس واجب الادا ہو تو اسے گرفتار نہیں کیا جاتا بلکہ آسانی فراہم کی جاتی ہے کہ وہ کاروبار کرے اور آسان قسطوں میں ٹیکس ادا کرے۔ ایک مرتبہ ایک دوست کے ساتھ اٹلی کی پورٹ پر جانے کا اتفاق ہوا جو پاکستان سے چاول امپورٹ کرتے تھے ان کے پاس کسٹم ڈیوٹی ادا کرنے کے پیسے نہیں تھے ۔ انہوں نے کسٹم حکام سے درخواست کی کہ میں نے سارا پیسہ چاول کی خریداری میں استعمال کر لیا ہے لہٰذا میں یہ چاول بیچ کر ڈیوٹی ادا کر سکتا ہوں، کسٹم حکام نے کنٹینر ریلیز کر دیا اور چاول بکنے کے بعد قسطوں میں ڈیوٹی کی رقم وصول کی۔ دنیا بھر میں ٹیکس ادا کرنے والوں کو سہولیات دی جاتی ہیں جبکہ ہمارے یہاں ٹیکس دینے والے کو اتنا تنگ کیا جاتا ہے کہ دوسرے عبرت پکڑ سکیں اور ٹیکس نیٹ میں آنے سے بچیں۔ آجکل ہر ٹیکس ادا کرنے والے کو نوٹس مل رہا ہے اور مختلف حیلے بہانوں سے ناجائز ٹیکس لگا کر لاکھوں روپے ادا کرنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔ ان میں اتنی صلاحیت نہیں کہ یہ نئے ٹیکس دہندگان تلاش کر سکیں لہٰذا پہلے سے ٹیکس ادا کرنے والوں کو ہی مزید تنگ کیا جا رہا ہے۔یہ روش نہایت خطرناک ہے اور یہ خوف اور حکومت پر عدم اعتماد کو جنم دیتی ہے۔ان تمام اقدامات کا نتیجہ ٹیکس کلیکشن میں مزید کمی ، بینک ڈپازٹس میں کمی،روپے کی ڈالر میں تبدیلی، سونے کی خریداری اور اگلے مرحلے میں گردشی سرمائے کی بیرونِ ملک منتقلی کی صورت میں نکلے گا۔ سرمایہ بہت شرمیلا ہوتا ہے، یہ اس جگہ پر نہیں ٹکتا جہاں خوف اور بے یقینی ہو ۔ سرمایہ دارانہ نظام کی بنیاد، سرمائے کی گردش ہے۔ جس قدر سرمایہ گردش کرے گا اسی قدرخوشحالی نظر آئے گی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button