
کچھ عرصے سے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر کچے کے ڈاکوؤں کی لوٹ مار، قتل و غارت گری اور اغواء برائے تاوان کی خبریں پڑھ کر ہر محب وطن شہری پریشان ہے اور تشویش کا اظہار کر رہا ہے۔ آئے روز کچے کے ڈاکوؤں کے ساتھ پولیس، رینجرز اور دیگر سیکورٹی اداروں کی جھڑپیں دو طرفہ فائرنگ اور مقابلے کی افسوسناک خبریں آرہی ہیں۔ ایسے لگتا ہے اندرون سندھ اور پنجاب کے کچھ علاقوں میں مکمل طور پر ڈاکوؤں کا راج ہے۔ لاء اینڈ فورسز ایجنسیز ناکام ہیں۔ اب تک کچے کے ان ڈاکوؤں نے ملک کے مختلف حصوں سے ہزاروں لوگوں کو اغواء کیا ہے۔ تاوان بھی وصول کرتے رہے اور کچھ یرغمالیوں کو شہید بھی کر چکے ہیں۔ ڈاکؤں کا یہ ایک طاقتور گروہ ہے جس نے دہشت پھیلا رکھی ہے۔ ان کے نو گو ایریاز ہیں جہاں سیکورٹی فورسز متعدد کارروائیوں کے باوجود ناکام ہیں چونکہ ان علاقوں میں مکمل طور پر ان ڈاکو گروہوں کا راج ہے۔کچھ عرصے سے یہ اہم پہلو نمایاں طور پر مشاہدے میں آیا ہے کہ ان ڈاکوؤں کے پاس جدید ترین اسلحہ اور جدید قسم کی جنگی سرگرمیوں میں کام آنے والی گاڑیاں ہیں یہاں تک کہ بکتر بند گاڑیاں بھی ان کے پاس موجود ہیں۔ ہر قسم کا جدید ترین جنگی ساز و سامان ان کے پاس موجود ہے۔ یہ لوگ بار بار اپنی منفی دہشت گردانہ کارروائیاں کرکے حکومت کی رٹ کو چیلنج کرتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود کچے کے ڈاکوؤں کا خاتمہ کیوں نہیں ہو سکا؟ لاء اینڈ فورسز ایجنسیز کیوں ناکام ہیں؟ ان ڈاکوؤں کے پاس جدید ترین اسلحہ کہاں سے آیا۔ بکتر بند جیسی گاڑیاں انہوں نے کہاں سے حاصل کیں؟ یہ اہم سوالات ہر محب وطن شہری حکومت سے کرتا ہے۔ حکومت اور ذمہ دار محکموں نے اب تک ان سوالات اور خدشات کو واضح انداز سے جواب کیوں نہیں دیا؟ چند روز قبل میڈیا پر یہ خبر پڑھ کر میرے رونگھٹے کھڑے ہوگئے کہ حکومت سندھ کے ایک حاضر سروس مشیر حکومت کی گاڑی میں نصف درجن پولیس اہلکاران کچے کے ڈاکوؤں کو اسلحہ فراہم کرتے ہوئے پکڑے گئے۔ خفیہ ایجنسیز نے ان کی گرفتاری اور نشاندہی میں اہم کردار ادا کیا۔ یہ اہم خبر ملک کے تمام قومی اخبارات میں نمایاں سرخیوں کے ساتھ شائع ہوئی ہے اوپر جو میں نے سوالات پیش کئے اس واقعہ کے بعد تمام سوالات کے جواب میرے نزدیک واضح ہو چکے ہیں کہ ان کچے کے ڈاکوؤں کے ساتھ پکے کے اہم ڈاکو شامل ہیں۔ کچے کے ڈاکو تو سامنے ہیں جب کہ پکے کے ڈاکو مختلف ذمہ دار محکموں اور اقتدار کے ایوانوں کے اندر بیٹھے ہوئے ہیں۔ خوفناک المیہ ہے کہ بڑے بڑے عہدوں پر براجمان پردہ نشین کچے کے ڈاکوؤں کو مختلف طریقوں سے اسلحہ ، گولہ بارود، دیگر جنگی ساز و سامان کے ساتھ جنگی گاڑیاں بھی مہیا کررہے ہیں۔ پکے کے یہ ڈاکو جن کے پاس اختیارات ہیں طاقت اور قو ت ہے یہ لوگ کچے کے ڈاکوؤں کے ذریعے انے مذموم مقاصد حاصل کرتے ہیں۔ لوٹ مار سے حاصل ہونے والی آمدنی سے حصہ بھی وصول کرتے ہیں اور خاص بات یہ کہ ان کچے کے ڈاکوؤں کے ذریعے ان کے راستے کی ہر حائل رکاوٹ کو دور کرتے ہیں۔ کچے کے ڈاکو فقط ایک گروہ کا نام نہیں۔ ان کے پیچھے ایک طاقتور برسرِ اقتدار پکے کے ڈاکوؤں کا ایک بڑا گروہ شامل ہے جس میں کچھ منتخب نمائندگان، کچھ وزراء و مشیر ، محکمہ پولیس اور دیگر سیکورٹی فورسز کے ذمہ دار ادنیٰ سے اعلیٰ عہدوں پر تعینات لوگ شامل ہیں۔ ہماری خفیہ ایجنسیز کی اعلیٰ صلاحیتوں کا ہم اعتراف کرتے ہیں۔ ہمیں بجا طور پر ان پر فخر ہے۔ عالمی طاقتیں ان کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کی معترف ہیں۔ ہم پوری امید رکھتے ہیں کہ ہماری اعلیٰ خفیہ ایجنسیز کچے اور پکے کے ان ڈاکوؤں کا نیٹ ورک بے نقاب کریں گی۔ دونوں کو کیفر کردار تک پہنچا کر حکومتی رٹ کو بحال کریں گی۔ داخلی خطرات ، انتشار اور افراتفری کا خاتمہ ہوگا۔ لاء اینڈ آرڈر میں بہتری آئے گی۔ میرے نزدیک کچے کے ڈاکوؤں سے زیادہ پکے کے ڈاکو خطرناک ہیں جنہوں نے شخصیات کا روپ دھار رکھا ہے۔ ان ملک دشمن عناصر سے ملک کو پاک کرنا نہایت ضروری ہے ورنہ ریاست میں نہ کسی کی جان و مال محفوظ رہے گی اور نہ کسی کی عزت و آبرو محفوظ رہ سکے گی۔ کچے کے ڈاکوؤں سے متعلق پاکستان کے ایک ممتاز صحافی مشتاق سرکی نے بھی ہوشربا انکشافات کئے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ کچے کے ڈاکو اس قدر طاقتور ہیں کہ ایک بار پولیس والوں نے دو ڈاکوؤں کے خلاف کارروائی کی۔ رد عمل میں ڈاکوؤں نے پولیس کو پیغام بھجوایا کہ ہماری اب تم لوگوں سے ذاتی دشمنی ہے پھر پولیس نے ڈر کے مارے ڈاکوؤں کو جرگے کی پیشکش کی اور جرگے میں 50لاکھ روپے معاوضہ ان مرنے والے دو ڈاکوؤں کے خاندانوں کو دیا تب جا کر پولیس والوں کی جان چھوٹی۔ مشتاق سرکی مزید لکھتے ہیں”جیکب آباد میں حال ہی میں ایک ایس ایس پی آیا تھا اور وہ چھ ماہ تک کچے کے ڈاکوؤں کو روزانہ دو لاکھ روپے اور دو بکرے بھجواتا رہا اس شرط پر کہ وہ جب تک یہاں تعینات ہے کچے کے ڈاکو اس کو کچھ نہیں کہیں گے۔ اس صحافی نے مزید لکھا ہے کہ میڈیا کے سامنے اوپریشن کا دکھاوا کرنے کے لئے پولیس والے پہلے کچے کے ڈاکوؤں کی منت کرتے ہیں کہ براہ مہربانی ہمیں کچھ نہیں کہنا ہم بس میڈیا والوں کو دکھانے کے لئے آپ کے خلاف فائرنگ کرکے نکل جائیں گے”۔ یہ تمام تر صورت حال قابل افسوس ہی نہیں خوفناک بھی ہے۔ ایوان اقتدار میں بیٹھے لوگوں کو فرصت کے لمحات میں ذرا غور و فکر کرنا چاہیئے کہ ہمارا معاشرہ اور نظام کدھر جا رہا ہے اور ہماری آنے والی نسلیں کیسے محفوظ رہیں گی اور ایسے حالات میں اس ملک کی بقائ، سا لمیت اور خود مختاری کس حد تک محفوظ رہے گی۔