ہمارے سنیئر صحافی سیّد وقار حیدر جعفری کے والد محترم سیّد دلاور حسین جعفری جو شاہ جی کے نام سے مشہور تھے، بڑی باکمال اور بااصول شخصیت ہوا کرتے تھے۔ مرحوم ریٹائرڈ فوجی تھے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی ساری عمر ڈسپلن کے پابند رہے۔ اللہ تعالیٰ نے پانچ بیٹوں سے نوازا تھا۔ بیٹے بھی نہایت سلجھے ہوئے اور فرمانبردار تھے۔ سیّد دلاور حسین جعفری نے طویل عمر پائی۔ آخری عمر میں بہت کمزور ہو چکے تھے مگر ہم سب نے ان کی ایک عادت کو نوٹ کیا تھا کہ وہ روزانہ بازار سے سودا سلف خریدنے خود جایا کرتے تھے۔ خصوصاً سبزی اور گوشت لینے کے لیے وہ اپنے بیٹوں میں سے کسی کو بازار نہیں بھیجا کرتے تھے۔ خود اچھی طرح دیکھ بھال کر تازہ اور بہترین سبزی خریدتے۔ گوشت بھی اپنی مرضی کا خریدتے تھے۔ وہ جب بھی بازار جاتے، ان کے پاس ہاتھ سے سلا ہوا کپڑے کا ایک تھیلا ہوا کرتا تھا۔ جو کچھ خریدتے اس تھیلے میں ڈال لیتے۔ وہ تھیلا کبھی آدھا اور کبھی پورا بھرا ہوتا۔ وزن خواہ جتنا بھی ہوتا وہ اس تھیلے کو خود اٹھا کر گھر لے کر جاتے تھے۔ ان کے بیٹے ہمارے ساتھ کھیلتے تھے۔ اچھی دوستی تھی۔ ہم انہیں بھاری تھیلا اٹھائے دیکھتے تو مدد کی پیشکش کرتے تھے مگر انہوں نے کبھی ہماری مدد قبول نہیں کی۔ شاید یہی ان کی فٹنس کا راز تھا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد زمیندارہ کرتے تھے۔ شاہ جی کا خریداری والا تھیلا ان کے ساتھ لازم و ملزوم ہوا کرتا تھا۔ اس دور میں پرچون کریانے والے سودا سلف کاغذ کی پڑیا بنا کر اس میں دیتے تھے۔ گوشت بھی اخباری کاغذ میں لپیٹ کر دیا جاتا تھا۔ سبزی خریدنے کے بعد ہم بچے اسے ”جھولی” یعنی قمیض کے دامن میں ڈلوا لیا کرتے تھے۔ گھر کے بڑے سبزی خریدتے وقت پونا (دسترخوان) ساتھ لے جاتے تھے۔ اس میں سبزی ڈلوا کر چھوٹی سی گٹھڑی باندھتے اور اٹھا کر گھر لے آتے۔
پلاسٹک کے شاپنگ بیگ کی ایجاد نے گویا ایک انقلاب برپا کر دیا۔ اب آپ جو کچھ مرضی خریدیں، خریدی گئی چیز ٹھوس ہو یا مائع، اسے شاپنگ بیگ میں ڈلوا کر لے آتے ہیں۔
پہلے تو بازار سے دودھ لانے کے لیے برتن لے کر جانا پڑتا تھا۔ کھلا گھی برتن میں لایا جاتا، سرسوں کا تیل لانے کے لیے خالی شیشی یا بوتل لے
کر جانا پڑتی۔ کپڑے کا سوٹ خریدتے تو دکان دار سوٹ تہہ کرنے کے بعد اخبار بچھا کر اس کے اوپر رکھتا اور گولائی میں اخبار کے اندر لپیٹ کر رول بنا دیتا، دونوں طرف اخبار کے بڑھے ہوئے کناروں کو کپڑے کے اندر موڑ کر وہ رول گاہک کو تھما دیتا۔ کپڑے زیادہ ہوتے تو گاہک کو اپنی طرف سے دسترخوان میں باندھ کر دے دیتا۔ گاہک بھی مفت دسترخوان پا کر خوش ہو جاتا۔ ہم بچوں کے کھانے کے لیے اس دور میں ٹانگر، نمکین اور میٹھی پُھلیاں، مونگ پھلی، ختائیاں، ریوڑیاں، مکھانے، مرونڈا اور چینی سے تیار شدہ چھوٹے چھوٹے کھلونے وغیرہ ہوتے تھے جنہیں ہمارے ہاتھوں میں تھما دیا جاتا یا پھر مقدار زیادہ ہونے کی صورت میں جھولی میں ڈال دیا جاتا۔ اب ایسا نہیں ہے۔ خرید کی ہوئی چیزیں ڈالنے کے لیے شاپنگ بیگ امرت دھارا بن گیا ہے۔ جو کچھ بھی خریدیں اس میں ڈال لیں اور حفاظت و آسانی سے گھر لے آئیں۔
ذکر ہو رہا تھا سیّد دلاور حسین جعفری صاحب کا، شاپنگ بیگ مارکیٹ میں آ گئے تھے مگر وہ اس کے استعمال کے سخت خلاف تھے۔ ان کا ساتھی وہی کپڑے کا تھیلا تھا جس میں سامان ڈال کر وہ گھر لاتے تھے۔ ایک دن میں نے ان سے پوچھ ہی لیا کہ اب تو شاپر (شاپنگ بیگز) آ گئے ہیں، آپ ان میں سامان لانے کی بجائے ابھی تک اپنے تھیلے کے ساتھ ہی چمٹے ہوئے ہیں۔ یہ سن کر وہ مسکرانے لگے۔ ہم نے بہت زیادہ خوشی کے موقع پر بھی انہیں صرف مسکراتے ہی دیکھا تھا، قہقہہ لگا کر ہنستے ہوئے شاید ان کے بیٹوں نے بھی کبھی نہ دیکھا ہو، بڑے متین اور سنجیدہ شخص تھے، فرمانے لگے ”پُتر، جو چیز لوگوں کی نظروں میں آ جائے اسے نظر لگ جاتی ہے۔ اس سے برکت اٹھ جاتی ہے۔ چیز میں لذت نہیں رہتی” یہ ان کا فلسفہ تھا جو اُس وقت تو مجھے سمجھ نہ آیا لیکن آج جب غور کرتا ہوں تو ان کی بات سچ لگتی ہے۔ واقعی چیزوں میں سے لذت اور برکت اٹھ چکی ہے۔ ہر چیز کو ہی نظر لگ گئی ہے۔ شاپنگ بیگ اپنے اندر کی چیز کو چھپاتا نہیں بلکہ واضح کرتا ہے جیسے کسی حسینہ نے چست لباس پہن رکھا ہو۔
یہ شاپنگ بیگ جو زندگی کا لازمی حصہ بن چکے ہیں ان کے بارے میں کئی سال پہلے ہی پتا چل گیا تھا کہ یہ مضرِ صحت ہیں۔ یہ کینسر جیسے موذی مرض کے علاوہ بھی کئی بیماریوں کا باعث بنتے ہیں۔ خصوصاً سیاہ رنگ کے بیگ تو انتہائی خطرناک ہوتے ہیں کہ یہ دراصل استعمال شدہ، ناکارہ بلکہ گندگی کے ڈھیروں پر پھینکے جانے والے شاپنگ بیگز، پاسٹک کی بوتلوں اور پلاسٹک کے ٹکڑوں کو ری سائیکل کر کے بنائے جاتے ہیں۔ ان سیاہ بیگز کو عام طور پر فروٹ،سبزی، اور دیگر اشیائے خوردونوش ڈال کر دینے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ ماہرینِ صحت کا دعویٰ ہے کہ سیاہ رنگ کے یہ شاپنگ بیگز کینسر پیدا کرنے اور پھیلانے کا موجب بنتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل ملک بھر میں شاپنگ بیگز کی تیاری پر پابندی عائد کی گئی تھی جس کے بعد اس صنعت سے وابستہ حضرات نے قابلِ تحلیل مواد سے شاپنگ بیگز تیار کرنا شروع کر دیئے تھے تاکہ ماحول کو آلودہ ہونے سے بچایا جا سکے مگر چیک اینڈ بیلنس نہ ہونے کی وجہ سے اب پھر پورے ملک میں ناقابلِ تحلیل میٹیریل سے بنے شاپنگ بیگز کی بھرمار ہے۔ یقیناً یہ فکرمند ہونے کی بات ہے۔ حکومت کو سنجیدگی کے ساتھ اس معاملے پر توجہ دینی چاہیے۔
0 42 4 minutes read