کالم

پاک ایران تجارتی معاہدے اور امریکی سامراج

ایران کے صدر ابراہیم رئیسی پاکستان کا تین روزہ دورہ مکمل کرنے کے بعد واپس جاچکے ہیں،قومی ریاستوں کے قیام کے باوجود امت مسلمہ کا تصور بین الملکی تعلقات کا بنیادی نکتہ ہے، لاہور اور کراچی کے دوروں میں ایرانی صدر کی خوشی اور جذبات کا اظہار اس بات کی دلیل ہے کہ دونوں ملک ایک مشترکہ تہذیب اور تاریخ کے وارث ہیں، ایرانی صدر کا دورہ جن حالات میں ہوا ہے وہ سب کے سامنے ہیں عالمی استعماری سامراجی نظام کا بادشاہ امریکا اپنی سفاکی، درندگی اور وحشت و درندگی مکمل طور پر دنیا کے سامنے عیاں کر چکاہے، امریکا، برطانیہ اور یورپی ممالک کی مدد اور سرپرستی میں اسرائیل غزہ کے فلسطینی مسلمانوں کی نسل کشی پر تلا ہوا ہے۔ غزہ کے شہریوں پر اسرائیلی بمباری کے 200 دن مکمل ہوچکے ہیں اور ابھی تک مظلوم اور محاصرے کا شکار شہری آبادی کے تحفظ کے لیے کوئی ملک عملی اقدام کرنے کے لیے تیار نہیں ہے یعنی ہر ملک مذمت اور افسوس سے آگے بڑھ ہی نہیں رہا۔ اس بارے میں پاکستان سمیت مسلمان حکومتوں کا رویہ افسوسناک ہی دیکھا گیاہے۔ جن ملکوں نے نسبتاً زیادہ قوت کے ساتھ اسرائیل کی مذمت اور فلسطین کی حمایت کی ہے ان میں ایران واحد ملک ہے۔ جس کا خود اسرائیل بھی علی الاعلان ایران کے خطرے سے آگاہ کرتا رہا ہے۔ اس دوران میں اسرائیل نے ایران پر حملہ کیا جس کا جواب ایران نے دیا۔ یہ دونوں ملکوں کے حملوں کے تازہ ترین گھنٹوں کی بات تھی کی کہ بات چل نکلی ایرانی صدر کے دورہ پاکستان کی۔ یعنی ہر طرف دنیا کی نظریں پاکستان اور ایران پر جالگی۔ حالانکہ ایرانی صدر کے دورے سے قبل سعودی وزیر خارجہ اور وزیر دفاع نے پاکستان کے دورے کیے ہیں جس میں اقتصادی اور دفاعی معاہدے کیے گئے ہیں۔ یہ دورے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے دورہ پاکستان کی تیاری بھی ہیں۔ ایرانی صدر کا دورہ پاکستان اس لیے بھی اہمیت اختیار کرگیا کہ دونوں برادر ملکوں میں بعض تنازعات اپنی حدود سے پار کر گئے تھے یعنی آپس میں جھڑپ بھی ہوچکی ہے۔ جس پر دونوں ملکوں کی قیادت نے حکمت اور تدبر سے قابو پالیاتھا۔ کیونکہ یہ امت مسلمہ کا آپس میں دست وگریباں ہونے کا وقت نہیں ہے دیکھاجائے تو فلسطین کے قضیے اورمسئلے نے ماضی میں عالم اسلام کے اتحاد کی ضرورت کا احساس دلایا، رباط اور لاہور کی اسلامی سربراہ کانفرنس کا انعقاد او آئی سی میں جاکر تبدیل ہوا، لیکن مسلم حکمرانوں کی کم عقلی نے اس ادارے کو مفلوج کردیا اور اتحاد بین المسلمین کا خواب ابھی تک ادھورا ہے۔ المناک منظر یہ ہے کہ غزہ کے فلسطینی مسلمان صرف ایمان اور استقامت سے اسرائیل کی ناجائز ریاست کے ظلم کو برداشت کیے جارہے ہیں کسی جانب سے کوبرادر اسلامی مدد کرنے کی کوشش تک نہیں کررہا۔ہر ایک ملک کو امریکا نے مفادات کی بھینٹ چڑھ رکھاہے اور پوری دنیا کے مسلمان یہ جان گئے ہیں کہ مسئلے کی اصل جڑ امریکا ہے۔ امریکا نے ایرانی صدر کے دورہ پاکستان پر جو دھمکی آمیز بیان جاری کیا ہے وہ غیر متوقع نہیں ہے، امریکا برادر مسلمان ملکوں کے تجارتی اور اقتصادی تعلقات کو اپنی سالمیت کے خلاف سمجھتاہے۔ ایرانی صدر کے دورہ پاکستان اور تجارتی معاہدوں پر امریکی دفتر خارجہ نے پاکستان پر اقتصادی پابندیوں کی دھمکی دے دی ہے۔ امریکی دفتر خارجہ کے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی ملک کو ایران کے ساتھ تجارتی معاہدہ کرتے وقت پابندیوں کے ممکنہ خطرے سے آگاہ رہنا چاہیے۔ امریکی وزارتِ خارجہ کے بیان میں پاکستان کا نام لیے بغیر کہا گیا ہے کہ ہم ایران کے ساتھ تجارتی معاہدوں پر غور کرنے والے کسی بھی ملک یا شخص کو امریکی پابندیوں کے ممکنہ خطرے سے آگاہ رہنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ہم گزشتہ 20 برس سے پاکستان میں ایک سرکردہ سرمایہ کار ملک ہیں۔ اس بیان سے پہلے ایرانی صدر کے دورہ پاکستان میں اس بات کا اتفاق کیا گیا ہے کہ دونوں ملکوں کے تجارتی تعلقات کو 10 ارب ڈالر تک پہنچایا جائے گا۔ اس مقصد کے لیے 8 معاہدوں اور مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط کیے گئے ہیں۔ اب یہ تو سب ہی جانتے ہیں کہ پاکستان کی معاشی صورتِ حال بہت خراب ہوچکی ہے۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس کے اسباب میں 30 برسوں کے اندر ہونے والی امریکی سرمایہ کاری بہت اہم وجہ ہے، اس لیے کہ ان 30 برسوں میں ہونے والی ”امریکی وار آن ٹیرر” بھی ہے، جس کے لیے اس وقت کے فوجی حکمراں کو ”دھمکی” اور ”لالچ” دے کر پاکستان کی فوج کو امریکا کے لیے کرائے پر دے دیا گیا۔ امریکی جانب سے اس قسم کی دھمکیاں اورلالچ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ یہی امریکی خوف ہے، جو حکومت پاکستان کو فلسطین کے مسئلے پر کوئی ٹھوس قدم اٹھانے سے روک دیتا ہے۔ پاکستان پر امریکی پابندیوں کا سلسلہ ذوالفقار علی بھٹو کے دور سے شروع ہوا جب انہوں نے کہا کہ ”ہم گھاس کھالیں گے مگر ایٹم بم بنائیں گے۔” اس کے بعد ضیاالحق دور میں افغان جنگ کے سبب تعلقات میں کچھ بہتری آئی مگر قرائن یہ بتاتے ہیں کہ ضیاالحق کے آخری دور میں امریکہ ہمارا سخت مخالف ہو چکا تھا۔ لوگ کہتے ہیں یہ مخالفت ضیاالحق کی موت پر منتج ہوئی۔ پھر پرویز مشرف کے دور میں امریکہ مجبوراً پاکستان پر مہربان کرنے کے لیے حاضر ہوا۔ لیکن کابل سے نکلتے وقت امریکہ کو جس شرمندگی سے گزرنا پڑا۔ اس کا سارا غصہ ابھی تک پاکستان پر نکالاجارہاہے۔ زیادہ پرانی بات نہیں ہے کہ امریکہ عمران خان سے اس لئے ناراض ہو گیا تھا کہ جس دن وہ ماسکو گئے اسی دن روس نے یوکرائن پر حملہ کیا محض یہ اتفاق بھی ہوسکتاہے مگر امریکا ابھی تک اپنے قابو میں آئے حکمرانوں کی مدد سے عمران خان کومختلف سزاؤں سے گزاررہے ہیں۔اسی طرح بالکل ویسی ہی صورت حال آج بھی ہے جس دن ایران نے اسرائیل پر حملہ کیا اس کے بعد فوراً ایرانی صدر نے پاکستان کا دورہ کیا یہ ایک حقیقت ہے کہ امریکہ نے پاکستان کو عالمی بنک، عالمی مالیاتی اداروں کے قرض، کرپشن اور امداد کے چکر ویو میں پھنساکررکھنا چاہتا ہے جس کے لیے انہیں پاکستان میں لالچی حکمرانوں کی ضرورت رہتی ہے جو انہیں باآسانی مل جاتے ہیں۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ ایران اور پاکستان نے اربوں ڈالر مالیت کے ایک گیس پائپ لائن بچھانے کے ایک معاہدے پر جون 2009 میں دستخط کیے تھے۔ تہران گو کہ اپنی طرف کی 900 کلومیٹر طویل پائپ لائن بچھانے کا کام سن 2011 میں ہی مکمل کر چکا ہے لیکن پاکستان اپنے حصے کی 80 کلومیٹر طویل پائپ لائن بچھانے کا کام اب تک پورا نہیں کر سکا امریکا کیلئے ایران پاکستان گیس پائپ لائن کی تعمیر کو روکے رکھنا ایک اہم ”مقصدبن چکاہے امریکا کی کوششوں سے یہ منصوبہ تقریباً ایک دہائی سے تاخیر کا شکار ہے۔ان وجوہات کی وجہ سے 80 فیصد سے زیادہ پاکستانیوں کا خیال تھا کہ امریکہ پاکستان کا دوست نہیں دشمن ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button