
قارئین محترم! ہر سال 20اپریل کو کشمیر کی تاریخ کے درخشندہ ستارے راجہ حیدر خان کی برسی دھوم دھام سے منائی جاتی ہے۔ جب میری یہ سطور شائع ہوں گی تو شائد ان کی برسی کا انعقاد ہو چکا ہو گا،لیکن ان کے عہد ساز کار ہائے نمایاں اور کشمیریوں کے لئے ان کی ملی خدمات کا باب شائد کوئی بھی مؤرخ بند نہ کر سکے۔ان کی برسی کے موقع پر آزاد کشمیر اور پاکستان سے بے شمار لوگ شریک ہوتے ہیں۔قرآن خوانی کی جاتی ہے۔دعائیہ تقریبات منعقد ہوتی ہیں۔ان کی قبر پر چادریں چڑھائی جاتی ہیں۔طعام کا انتظام ہوتا ہے اور آخر میں اس عظیم کشمیری رہنما کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے جلسہ عام منعقد کیا جاتا ہے،جس میں راجہ حیدر خان کے مشن کی تکمیل کی تجاویز بھی پیش کی جاتی ہیں۔راجہ حیدر خان جون 1916ء کو چکار ضلع ہٹیاں بالا میں پیدا ہوئے۔ان کے والد گرامی کا اسم شریف راجہ سکندر خان تھا۔ آپ نے ابتدائی تعلیم چکار سے حاصل کی۔ بچپن میں ہی والدین کا سایہ سر سے چھن گیا۔ان کی تعلیم و تربیت اور پرورش ان کی بہن نے خاص طور پر کی،جبکہ بھائیوں نے بھی کوئی کسر روا نہ رکھی۔اس طرح ایک یتیم اور ماں کے سہارے کے بغیر بچہ کسی بھی قسم کی مشکل کا شکار نہ ہوا۔راجہ حیدر خان کے بھائی نے ان کو سری پرتاب سنگھ ہائی سکول سرینگر میں داخل کروا دیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب تحریک آزادی زوروں پر تھی۔ شیخ عبداللہ اور چوہدری غلام عباس ہندوستان کے شیطانوں سے بھرپور انداز میں پنجہ آزمائی کر رہے تھے۔ سیاسی جراثیم موجود ہونے کی وجہ سے راجہ حیدر خان زمانہ طالب علمی میں ہی آزادی کی خاطر ہونے والے ان جلسوں میں بھرپور شرکت کرتے رہے۔یوں راجہ حیدر خان ایک طالب علم رہنماء کی حیثیت سے سیاسی میدان میں اترے۔راجہ محمد افضل خان جو کہ راجہ حیدر خان کے بڑے بھائی تھے،انہوں نے ہی ان کو سری پرتاب سنگھ ہائی سکول میں داخل کروایا تھاکو ان کی گرفتاری پر سخت تشویش ہوئی۔چونکہ ایک جاگیر دار کی حیثیت سے راجہ افضل کا اثر و رسوخ کافی تھا ۔اس لئے انہوں نے راجہ حیدر خان کو اس وقت کی انتہائی پرکشش ملازمت فاریسٹ رینجر دلوا دی۔فاریسٹ سائنسز میں انہوں نے گریجویشن کی۔ کانوکیشن کے موقع پر مہمانخصوصی پنڈت جواہر لعل نہرو کی بہن شریک ہوئیں۔انہوں نے اس بات پر انتہائی مسرت کا اظہار کیا کہ کشمیر کے 5جوان اس موقع پر گریجویشن کر چکے تھے،کیونکہ وہ خود کشمیری النسل تھی،اس لئے راجہ حیدر خان ان کی توجہ کا خاص مرکز بنے رہے۔یوں گریجویشن کے دوران ان کا تعلق نہرو خاندان سے استوار ہوا۔ 1947تک راجہ صاحب مرحوم محکمہ جنگلات میں رینج آفیسر رہے۔ اس کے بعد 47کی جنگ میں انہوں نے نمایاں کردار ادا کیا۔چکار سے متصل پونچھ کے علاقوں میں مجاہدین کی سر گرمیاں عروج پر تھیں۔راجہ صاحب نے مقامی لوگوں کے ساتھ ساتھ سوات اور سرحد کے لوگوں کو جمع کیا اور 700لوگوں کا قافلہ لے کر میدان جنگ میں اترے۔ انہوں نے دشمن کا مقابلہ باغ سے لے کر تولی پیر تک کیا ،اور ڈوگروں کو یہاں سے بھگانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔راج حیدر خان دو دفعہ آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کے صدر رہے،اور جب مسلم کانفرنس کی باڈیز توڑ کر نئی صف بندی کی جا رہی تھی تو آپ رہبر اور سٹیڈنگ کمیٹی کے چئیرمین منتخب کئے گئے۔ راجہ صاحب مرحوم ،چوہدری غلام عباس کے دست راست تھے۔رئیس الاحرا ر راجہ صاحب پر اندھا اعتماد کرتے تھے۔ ایک دور میں جب صدر ایوب نے راجہ صاحب کو آزاد کشمیر کا صدر بننے کی پیشکش کی تو اس با اصول اور نڈر سیاستدان نے صدر ایوب کو کاغذی فیلڈ مارشل قرار دیتے ہوئے اس عہدے کی پیشکش کو پائوں کی ٹھوکر کی نظر کیا۔جب سردار محمد ابراہیم خان آزاد کشمیر حکومت کے صدر بنے تو راجہ صاحب کو محکمہ جنگلات کا نظم و نسق سنبھالنے کے لئے چنا گیا۔ اس کام کو بطل حریت راجہ حیدر خان نے کمال دانشمندی اور خوش اسلوبی سے نبھایا۔راجہ حیدر خان کردار کے غازی اور قول و فعل کے پکے انسان تھے۔انہوں نے کبھی بھی اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کیا۔ وہ ہمیشہ کشمیریوں کی ترجمانی صدق دل اور بے باکی سے بغیر کسی لالچ کے کرتے رہے۔ان کی خدمات کو کشمیری قوم کبھی بھی فراموش نہیں کر پائے گی۔غازی ملت سردار ابراہیم خان کی حکومت کے بعد سردار عبدالقیوم خان کو صدر بنایا گیا تو راجہ حیدر خان نے رئیس الاحرار چوہدری غلام عباس کی درخواست پر مسلم کانفرنس میں شمولیت اختیار کی۔ان کو وزیر داخلہ بنا دیا گیا۔جو انہوں نے رئیس الاحرار کی درخواست پر بننا قبول کیا۔1958ء میں رئیس الاحرار نے کشمیر لبریشن موومنٹ کے نام سے کشمیر کی آزادی کی تحریک شروع کی۔ راجہ حیدر خان اس تحریک کے روح رواں تھے۔راجہ حیدر خان کو قائد ملت ابراہیم خان کے بعد اس کا دوسرا سربراہ بنایا گیا۔1965ء کی جنگ میں راجہ حیدر خان نے جانبدار فورس کی تشکیل کی،اور خود محاذوں پر اسلحہ اور دیگر سامان اٹھا اٹھا کر لے جاتے رہے۔ان کی پاکستان سے محبت دیدنی تھی۔ وہ خود کو کشمیری النسل پاکستانی کہلاتے تھے۔ اسی لئے 65ء کی جنگ میں راجہ حیدر خان کا کردار غازی کا رہا۔جب ان کے بیٹے راجہ فاروق حیدر سابق وزیر اعظم آزاد کشمیر نے جنم لیا تو راجہ صاحب پلندری جیل کی سلاخوں کے پیچھے تھے۔ راجہ صاحب نے سیاسی،سماجی اور عسکری محاذوں پر کشمیریوں کی بھرپور انداز میں نمائندگی کی۔انہوں نے لوگوں کی بہبود کے لئے مظفرآباد ٹمبر ٹریڈنگ کارپوریشن قائم کی۔ ان کی زوجہ محترمہ بیگم سعیدہ بھی ممبر قانون ساز اسمبلی رہیں۔1966ء میں راجہ صاحب پر بیماری نے حملہ کر دیا۔پہلے وہ سی ایم ایچ مظفرآباد میں زیر علاج رہے،لیکن انہیں کوئی افاقہ نہہوا۔پھر وہ میو ہسپتال لاہور داخل ہو گئے۔لیکن کینسر کا مہلک مرض راجہ صاحب کو لاحق ہو چکا تھا،اس لئے مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی والا معاملہ بن گیا۔ تحریک آزادی کا ہیرو،عسکری سپہ سالار ،سماجی کارکن،محکمہ جنگلات کا آفیسر اور کشمیر کا عظیم سیاستدان20اپریل1966کو رات تقریباً پونے دس بجے کے قریب سارے کشمیریوں کو معہ سابق وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر یتیم کر گیا۔ اللہ تبارک تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ مرحوم قائد کو اعلیٰ علیین کی فہرست میں شامل کرے اور ان کے نقش قدم پر ساری کشمیری قوم کو چلنے کی توفیق عطا کرے۔رب العلمٰین نے کشمیر کو جہاں بے ناہ خوبصورتی سے نوازا وہین اس خطے میں بیشمار عظیم شخصیتوں کو بھی پیدا کیا۔بد قسمتی سے اس غلام سر زمین میں اللہ تعالیٰ نے بے شمار ذہین اور فطین لوگوں کی تخلیق فرمائی۔راجہ محمد حیدر خان ان شخصیتوں میں سے ایک ہیں۔انہوں نے اپنے کردار،بصیرت اور معاملہ فہمی سے ایسے نقوش چھوڑے ہیں جو رہتی دنیا تک یاد رکھے جائیں گے۔انہوں نے ہر دور کے ظالم حکمرانوں اور غاصبوں کے خلاف اعلان بغاوت کیا۔راجہ صاحب سولہ جولائی انیس صد سولہ کو چکار کے ایک معزز گھرانے میں پیدا ہوئے۔ان کی ولادت کھکہ فیملی میں ہوئی۔آپ کے والد گرامی کا نام راجہ سکندر خان تھا۔ابتدائی تعلیم چکار سے حاصل کی اور اس کے بعد سری پرتاب کالج سری نگر میں داخلہ لیا۔اس کے بعد آپ مسلم یونیورسٹی علی گھڑ میں داخل ہو گئے،لیکن اس یونیورسٹی میں راجہ صاحب کا دل نہ لگا اور اسے خیر باد کہنے کے بعد فارسٹ کالج ڈیرہ بدون سے فاریسٹ میں گریجویشن کی ڈگری حاصل کی۔نہایت ہی کم عمری میں راجہ صاحب کے مزاج میں سیاست کا شغف تھا۔انہوں نے کئی بار طلبہ کی قیادت کرتے ہوئے اپنے زندہ ہونے کا ثبوت دیا۔
اسی وجہ سے ڈوگرہ حکومت نے راجہ صاحب کی قائدانہ صلاحیتوں کو جانتے ہوئے محکمہ جنگلات میں ملازمت دے دی۔اس نوکری کا واحد مقصد راجہ فاروق حیدر کو تحریک آزادی سے الگ رکھنا تھا۔راجہ صاحب کی قائد اعظم سے ملاقات گلمرگ میں ہوئی جس سے راجہ صاحب کی قائدانہ صلاحیتوں کو تقویت حاصل ہوئی۔راجہ صاحب کو حضرت علامہ اقبال کے بیشتر شعر زبانی یاد تھے۔
انیس صد سینتالیس کی جنگ میں فاروق حیدر نے بھرپور حصہ لیا اور مسلمانان کشمیر کے لئے بے پناہ کام کیا۔آزاد حکومت بنی تو آپ کو فاریسٹ ڈویژن مظفرآباد تعینات کر دیا گیا۔اسی دوران غازی ملت سردار ابراہیم خان کو غیر آئینی طریقے سے فارغ کر دیا گیا جس کی وجہ سے راجہ فاروق حیدر نے غازی ملت کی فراغت پر بھرپور protestکیا اسی وجہ سے انہیں ملازمت سے سبکدوش کر دیا گیا لیکن اس مرد جری نے ملازمت کی پرواہ کئے بغیر تمام احتجاجی جلسوں میں شرکت کی۔اسی دوران انہیں پابند سلاسل بھی کر دیا گیا۔آپ نے ان مشکلات کا جوانمردی سے مقابلہ کیا اور کبھی بھی اصولی موقف سے پیچھے نہیں ہٹے۔راجہ فاروق حیدر خان دو مرتبہ مسلم کانفرنس کے صدر بنے اور اسی دوران انیصد اٹھاون میں آپ نے کشمیر لبریشن موومنٹ کی بنیاد رکھی جس نے ہندوستان کے ایوانوں میں کھلبلی مچا دی۔اس کے نتیجے میں مجاہد اول،چوہدری غلام عباس،کے۔ایچ خورشید،غازی الہیٰ بخش اور راجہ فاروق حیدر کو قید و بند کی صعوبتیں اٹھانا پڑی۔ لیکن ان عظیم راہنمائوں نے ان مشکلات کا ڈٹ کر مقابل کیا۔
جب صدر ایب کی حکومت تھی تو کسی کو جرأت نہ تھی کہ وہ ان کے خلاف کوئی بات کہیں لیکن راجہ فاروق حیدر نے کھلے جلسے میں ڈکٹیٹر شپ کی مخالفت کی اور جمہوریت کی حمایت کی، انہوں نے صدر ایوب کو کاغذی فیلڈ مارشل کھلے عام بھرے مجمعے میں کہا۔راجہ صاحب انتہائی دلیر،بے باک اور نڈر قسم کے سیاسی لیڈر ہیں۔حق بات کو حق اور جھوٹ اور مکر و فریب کو کھلے مجمعے میں بیان کرنے سے نہیں چوکتے۔
انیس صد پچاسی میں راجہ فاروق حیدر نے اسمبلی کا ٹکٹ لیا اور الیکشن میں حصہ لیا۔راجہ صاحب آج کے دور میں بھی جب کہ مسلم کانفرس اور مسلم لیگ ن میں شدید دراڑیں پڑ چکی ہیں ،مجاہد اول سردار عبدا قیوم خان کا بیحد احترام کرتے ہیں۔راجہ فاروق حیدر نے اپنے مختلف ساتھیوں سے مل کر مسلم کانفرنس سے علیحدگی اختیار کی اور آزاد کشمیر میں مسلم لیگ ن کی بنیاد ڈالی۔اس وجہ سے وہ مسلم کانفرنس جو کبھی چھتیس اور کبھی اڑتیس سیٹیں لے کر اسمبلی میں آتی تھے اب صرف چار،پانچ سیٹوں کی مالک ہے۔
چھبیس دسمبر بیس سو دس کو مظفر آباد میں ایک جلسے میں آزاد کشمیر کے اندر مسلم لیگ ن بنانے کا اعلان کیا گیا ،جس کے صدر راجہ فاروق حیدر بنے۔پانچ اپریل بیس سو بارہ کو مسلم لیگ ن آزادکشمیر کا پہلا کنونشن منعقد ہوا۔اس اجلاس میں میاں محمد نواز شریف نے بھی شرکت کی اور راجہ فاروق حیدر کو آزاد کشمیر مسلم لیگ کا بلا مقابلہ صدر بنایا گیا۔تب سے مہاجرین جموں کشمیر،مہاجرین مقیم پاکستان اور تارکین وطن کشمیری اپنے محبوب قائد کے ساتھ چٹان کی طرح کھڑے ہیں۔
13جولائی 1931ء کو پتھر مسجد سرینگر کے جلوس میں راجہ حیدر خان نمایاں رہے۔جب وہ پیپر دے کر باہر آئے تو انہوں نے طلبہ کا ایک جلوس نکالا،جس کی پاداش میں ان پر بغاوت کا مقدمہ بنا اور ان کی گرفتاری عمل میں لائی گئی۔ یہ ان کی پہلی سیاسی گرفتاری تھی،جس میں انہیںتھانہ کوٹھی باغ میں 15روز تک پابند سلاسل رکھا گیا۔یہ اسی واقعے کی کڑی ہے جس میں ایک ہندو سپاہی اور مسلمان سپاہی کے درمیان قرآن مجید کی بے حرمتی کا واقعہ پیش آیا تھا اوراحاطہ عدالت میں 22مسلمانوں کو شہید کر دیا گیا تھا۔ یوں یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ تحریک آزادی کشمیر کے پہلے طالب علم قیدی ہونے کا شرف راجہ حیدر خان کو حاصل ہوا۔