کالم

حکومت کی خالی پھرتیاں

حافظ آباد میں مرغی فروخت کرنے والے دوکانداروں کی ہڑتال، اس ہڑتال کو حکومت کی ناقص پالیسیوں کا نیتجہ قرار دیا جا رہا ہے دوسرے اضلاع میں بھی ہڑتال جاری ہے ضلع حافظ آباد کی بات کی جائے تو پچھلے کچھ عرصہ سے ضلعی انتظامیہ، مارکیٹ کمیٹی اور پولٹری ایسوسی ایشن حافظ آباد کی جانب سے جو ریٹ لسٹ جاری کی جاتی تھی اس کے مطابق مرغی گوشت کہیں دستیاب نہیں تھا.مرغی کا گوشت فروخت کرنے والے دوکانداروں نے اس کا حل بھی بڑے ہی عجیب طریقہ سے نکالا، کچھ نے ریٹ بڑھا دیا اور پرائس کنٹرول مجسٹریٹس کے درجہ چہارم کے ملازمین کے آنے پر کنٹرول ریٹ پر مرغی کا گوشت دے دیتے کیونکہ پرائس کنٹرول مجسٹریٹس اور ان جرمانے کرنے والے درجہ چہارم کے ملازمین کو سب ہی جانتے ہیں اس لیے دور سے پہچان جاتے ہیں دوسرا حل کم وزن دے کر رقم پوری کر لیتے کلو کی بجائے ساڑھے 8 سو گرام سے 900 گرام تک دیا جاتا رہا ہے جس کا میں خود عینی شاہد ہوں میں اس پر کافی عرصے سے لکھ رہا ہوں کہ ضلعی انتظامیہ اور مارکیٹ کمیٹی مصنوعی ریٹ لسٹ جاری کرتی ہے جس سے پنجاب حکومت کو دھوکہ دیا جاتا ہے کہ ضلعی میں مہنگائی نہیں ہے دی گئی ریٹ لسٹ اور مارکیٹ کے ریٹ میں تھوڑے روپوں کا فرق ہوتا پے. اس کے باوجود کم ریٹ لسٹ دینا عجیب بات ہے.اگر آپ لوگ ضلعی انتظامیہ کی جانب سے ریٹ لسٹ چیک کریں اور مارکیٹ کے ریٹس چیک کریں تو حیران رہ جائیں گے کہ ریٹ لسٹ اور مارکیٹ میں ریٹ میں تضاد کیوں، جبکہ ریٹ لسٹ جاری کرتے وقت تاجر نمائندوں، عوامی نمائندوں جو ضلعی انتظامیہ کے پسندیدہ تاجر و دیگر شامل ہوتے ہیں یا ان کو شاید صرف خانہ پوری کرنے کے لیے شامل کیا جاتا ہے یا ہو سکتا ہے وہ حقیقی تاجر رہنما نہ ہوں یا ان کو مارکیٹس کے ریٹس کا پتہ ہی نہ ہو، نئی ریٹ لسٹ جاری کرتے وقت کمیٹی کا اجلاس اور خبر پریس ریلیز جاری ہوتی، اس لیے کہا جاتا حکومتی کمیٹیوں میں اکثریت من پسند لوگوں کو شامل کیا جاتا ہے جو افسران کی ہاں میں ہاں ملانے والے ہوتے ہیں یا پھر حقیقی نمائندوں کو موقع نہیں دیا جاتا وہ پرائس کمیٹی کا ممبر بنے یا بنایا نہیں جاتا جس سے نمائندوں کو فرق کا پتہ بھی نہیں چلتا.ضلعی انتظامیہ کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے اپنی حاضری لگوائی چوکور بسکٹوں کے ساتھ چائے پی کام ختم.اسی طرح پرائس کمیٹیوں میں سبزی دودھ دہی گوالوں یا کسان کو شامل نہیں کیا جاتا مرضی کے ریٹس دے دیے جبکہ مارکیٹ میں جا کر اس ریٹ پر شاید کوئی چیز مل پائے یہ سارا عمل بیوروکریسی جان بوجھ کر ایسا کرتی ہے یا ان سے ہو جاتا ہے یہ تو بیوروکریسی ہی بتا پائے گی لیکن جو دیکھنے میں آیا ہے کہ حقیقی نمائندوں کو جو بیوروکریسی کو بتائیں یہ ریٹ لسٹ درست نہیں ہے ایسے نمائندے کمیٹی میں بھی نظر نہیں آتے جو ہم صحافیوں کے پاس پریس ریلیز کی شکل میں تصاویر ویڈیو آتیں ہیںدوکانداروں کی تنظیموں کے سربراہان بھی اس ناانصافیوں ظلم پر نہیں بولتے، مصنوعی ریٹ لسٹ سے ہر پاکستانی کا استحصال ہوتا ہے ایک تو دوکانداروں کا جرمانے کی شکل میں استحصال ہوتا ہے دوسرا گاہکوں کا، تیسرا ہر اس حکومت کا جو برسراقتدار ہوتی ہے عوام حکومت کو برابھلا کہتی ہے اور حکومت کو برا بھلا کہلوانے میں مقامی سیاستدانوں کا ہاتھ ہوتا ہے کیونکہ وہ عوام اور حکومت کے درمیان ایک پیغام رساں کی طرح ہوتے ہیںسیاستدان کی درست پیغام رسانی سے ہی حکومتیں بہتر کارکردگی دیکھاتی ہیں ورنہ اسی طرح ہی ہوتا ہے جو اس وقت پاکستان میں ہو رہا ہے اس کی مثال تازہ ترین 16 روپے روٹی سے لے لیں کسی بہت سیانے نے وزیر اعلی پنجاب مریم نوازشریف کو حساب کتاب کر کے بتایا 16 روپے میں 100 گرام روٹی دینے سے حکومت کی بڑی بلے بلے ہوگی عوام بڑا جے جے کار کرے گی وزیراعلی پنجاب نے فوری 16 روپے روٹی نوٹیفیکیشن جاری کردیا.جبکہ حقیقت میں روٹی 16 روپے دینے بیچنے والے تندور و ہوٹل مالک کو کچھ نہیں بچے گا جسے کچھ بچے کا ہی نہیں تو وہ کام کیوں کرے گا افسران لاکھوں روپے تنخواہیں مراعات لے کر کرپشن کرتے اور چاہتے کسی کو بچے بھی کچھ ناں اور وہ کام بھی کرے جو ناممکن ہے اب یہ ہوٹل یا تندور ایک غریب ہی چلا رہا ہے نقصان تو غریب کا ہی ہوا اب اس سے فائدے کی بجائے حکومت کو برابھلا کہنا شروع ہو جائیں گے کیا کوئی بڑے ہوٹل پر جا کر ریٹ لسٹ چیک جاتی ہے ان کو کھلی چھوٹ کیوں اور غریب کا چولہا ہی بند کیوں کیا جاتا ہے.اسی طرح اینٹ کی طرف آئیں تو کئی حکومتیں آئی اور چلی گئیں کسی حکومت نے بھی بھٹہ خشت کے انتہائی طاقتور بھٹہ مالک سے پوچھا وہ ضلعی انتظامیہ کے دیے گئے ریٹ لسٹ سے دوگنا ریٹ پر اینٹ کیوں فروخت کر رہا ہے غریب بھٹہ مزدوروں کو پوری اجرت کیوں نہیں دیتے، ہائی کورٹ کے احکامات کے باوجود زگ زیگ پر بھٹہ خشت کیوں نہیں بنایا چائلڈ لیبر کیوں کروا رہے ہو، فضائی آلودگی کیوں پھیلا رہے ہو،پوچھا ہے کسی نے کیونکہ طاقتور کا بزنس ہے کیا کسی نے وزیراعلی پنجاب مریم نوازشریف کو بتایا ہے بھٹہ خشت والے کتنے ظالم ہے ضلعی حافظ آباد میں ساڑھے آٹھ ہزار روپے فی ہزار اینٹ کا ریٹ دیا گیا ہے جبکہ بھٹہ خشت پر اینٹ کا ریٹ 15000 روپے سے اوپر ہے ضلعی انتظامیہ اندھی بہری گونگی ہے دیکھائی نہیں دیتا، نظر نہیں آتا سنائی نہیں دیتا کیا وجہ ہے ضلعی انتظامیہ افسران ایک غریب تندور والے مالک بھاری جرمانے کرتی ہے جو ہر بھٹہ خشت بھرائی جو لاکھوں روپے ایک بھرائی میں لوگوں سے نکلوا لیتا ہے ضلعی انتظامیہ افسران کو نظر نہیں آتے.حکومت پنجاب سے لاکھوں روپے تنخواہیں مراعات کوٹھی گاڑی لینے افسران بھٹوں پر جاتے ہوئے ڈرتے ہیں کیونکہ وہ طاقتور ہیں جرمانہ کرنے پر پھینٹی بھی لگاتے اس لیے بھٹہ خشت مالکان نظر نہیں آتے، خدارا اگر ریلیف دینا ہی مقصود ہے تو غریبوں کے کاموں پر نظر کرنے کی بجائے طاقتور مافیا پر ہاتھ ڈالیں جس سے حکومت کو ٹیکس کی شکل میں فائدہ ہو اور عوام تک سستی اشیا پہنچے پھر کو گراں فروشی کرے تو کوڑے مارو.اگر ایسا نہیں کر سکتے تو یہ سب بیکار ہے غریبوں کو فائدے کی باتیں کرنے سے نہیں، عملی اقدامات سے ہو گا بھلے وہ ضلعی انتظامیہ ہو، حکومت پنجاب یا حکومت پاکستان جب تک حقائق کے مطابق قانون سازی اور ریٹ لسٹ جاری نہیں ہوتی تب تک ایسا ہی ہوتا رہے گا جیسا ہو رہا ہے ملک میں بہتری بھی اسی لیے نہیں ہو رہی لاقانونیت اسی کو کہتے ہیں حکومت پہلے خود عمل کرے پھر عوام کو کروائے تو پھر بہتری ہوگی….

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button