ایسا لگتا ہے شہرقائد ایک لاوارث شہربن چکاہے، اس کی خوبصورتی ختم ہوتی جارہی ہے ایک زمانے میں روشنیوں کا شہر کہلانے والے کراچی کے شہری اب شہر میں آزادی اور بے خوفی سے گھومنے کے خواہاں ہیں کیونکہ اب ایسا دور نہیں ہے، کسی سنسان گلی اور ویران راستے پر چلتے ہوا ہر آدمی ڈرتا ہے کہ اس کو کہیں لوٹ نہ لیا جائے،کراچی میں شہریوں کی جان لینے والے ڈاکوؤں کو لگام ڈالنے والا کوئی نہیں ہے اس شہرمیں لوٹ مار کے دوران صرف رمضان کے دوران ہی خاتون سمیت 11 افراد موت کو گھاٹ اتاراجاچکاہے گزشتہ برس 126 افراد جب کہ سال 2022 میں 111 افراد ڈکیتی مزاحمت پر قتل ہوچکے ہیں۔سرکاری ڈیٹا یہ بھی بتاتا ہے کہ سب سے زیادہ وارداتیں کراچی کے سات میں سے چار اضلاع میں ہوئیں جن میں ضلع وسطی سرِفہرست ہے جس کے بعد ضلع غربی، شرقی اور کورنگی میں بھی کئی واقعات ہوئے ہیں، ڈکیتیوں پر شہریوں کے قتل کے واقعات کے علاوہ بھی شہر میں اسٹریٹ کرائمز کی وارداتیں عام ہیں، اگر صرف جنوری سے مارچ تک کے اعداد و شمار کا جائزہ لیا جائے تو شہر میں تین ماہ کے دوران 72 گاڑیاں چھیننے کی وارداتیں رپورٹ ہوئیں جب کہ 442 گاڑیاں چوری ہوئیں، رواں سال کے ابتدائی تین ماہ میں 2747 موٹر سائیکلیں چھینی گئیں اور 12 ہزار سے زائد موٹر سائیکلیں چوری کی گئیں یہی نہیں بلکہ صرف تین ماہ میں 6 ہزار سے زائد موبائل فونز شہریوں سے چھینے گئے جب کہ پولیس شہریوں کو 50 فون واپس دلوانے میں کامیاب رہی، کراچی میں قانون سے بے خوف ڈاکووں نے شہریوں، دکانوں اور گھروں کے بعد اب مساجد میں گھس کر لوٹ مار کرنی شروع کردی ہے،کراچی کے علاقے کریم آباد میں قائم جامع مسجد فیضان عطار میں گھس کر ایک ڈاکو نے موذن اور خادم سمیت 3 افراد کو اسلحے کے زور پر لوٹ لیا ہے اب آپ ہی بتائیں کہ پیچھے کیارہ جاتاہے۔ شہر میں روز کی بنیاد پر پولیس مبینہ مقابلوں کے باوجود اسٹریٹ کرائم کا جن کسی بھی صورت پولیس کے قابو میں آنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ شہری نہ تو سڑکوں پر محفوظ ہیں اور نہ ہی گھروں، دکانوں اور ریڈ زون کے تفریحی مقامات پر محفوظ ہیں۔ڈاکو جب اور جہاں چاہیں لوٹ مار کرتے ہیں اور مزاحمت پر شہریوں کو قتل و زخمی بھی کرتے ہیں، اور رہے پولیس افسران وہ چین کی بانسری بجا رہے ہیں اور شہری و دکاندار روز کی بنیاد پر ڈاکووں کے ہاتھوں اپنے قیمتی مال و اسباب سے محروم ہو رہے ہیں آئی جی سندھ اور ایڈیشنل آئی جی کراچی نے شہر میں جرائم پر قابو پانے کے لیے دعوے اور وعدے تو بڑے کیے مگر وارداتوں کو کسی بھی طور بریک نہیں لگ سکا، شہر میں رواں سال اب تک ڈکیتی مزاحمت کے دوران مسلح ملزمان نے درجنوں افراد کی جان لے لی ہے شہر قائد میں سٹریٹ کرائم کی وارداتیں نئی بات بھی نہیں، یہ جرائم ہمیشہ اس شہر کے لئے خوف کی علامت رہے ہیں۔ ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری، اغواء برائے تاوان اور دیگر سنگین جرائم کے ساتھ ساتھ سٹریٹ کرائم بھی ایک ایسا جن ہے جو بے قابو ہو چکا ہے سندھ حکومت نے یہ کیاہے کہ جاویدعالم اوڈھو کو ایڈیشنل آئی جی کراچی تعینات کرنے کا فیصلہ کیاہے،وہ پہلے بھی ایڈیشنل آئی جی کے عہدے پر کام کرچکے ہیں، خادم حسین رند کے بعد عمران یعقوب کو ایڈیشنل آئی جی کراچی بنایا گیا تھا، سندھ میں نئی بننے والی حکومت نے بڑے پیمانے پر ردوبدل کرتے ہوئے غلام نبی میمن کو ایک دفعہ پھر آئی جی سندھ پولیس تعینات کردیا ہے، آئی جی سندھ غلام نبی میمن نے کراچی میں اسٹریٹ کرائم بڑھنے کی وجوہات بتاتے ہوئے کہا کہ نگراں حکومت جب بھی آتی ہے یہ ٹرینڈ بن گیا ہے کہ آئی جی سے ہیڈ محرر تک کو تبدیل کردیا جاتا ہے، یہی تبدیلی اسٹریٹ کرائم بڑھنے کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ چلیں اگر اس بیان سے شہرقائد میں پولیس کی ناکامیوں پرپردہ پڑتاہے تو اس سے اچھی بات تو کوئی ہوہی نہیں سکتی۔لیکن کیا شہر کے اکثر علاقوں میں سی سی ٹی وی کیمرے ہونے کے باوجود، جرائم، قتل، ڈکیتی کی وارداتوں پر قابو پایا جاسکاہے۔ کیا ممکن ہے کہ پولیس کو معلوم ہی نہ ہو کہ ڈاکو آتے کہاں سے ہیں اور جاتے کہاں ہیں۔؟ ہائے وہ بھی کیا دن تھے کہ ایک زمانے میں ملک کا سب سے بڑا شہر کراچی سب سے زیادہ پرامن اور دلکش شہر ہوا کرتا تھا۔ اندرون ملک سے لوگ بے خطر روزگار کے حصول کے لیے آتے تھے اگر گھر نہیں ہے تو شہر کے فٹ پاتھ رات سونے کے لیے موجود ہوتے تھے اور مجال ہے اس زمانے میں کسی کی ایک پائی بھی ادھر سے ادھر ہوجائے۔ لیکن اب اسٹریٹ کرائم کو کراچی کی شناخت بنادیا گیا ہے، اس کے اسباب تو بہت ہیں لیکن وزیراعلیٰ سندھ سے یہ سوال کرنا حق بجانب ہے کے ان کے زیر انتظام پولیس اور دیگر تفتیشی ادارے شہر کو جرائم سے پاک کرنے میں کیوں ناکام ہیں اس سے زیادہ خوفناک بات یہ ہے کہ گزشتہ دنوں میں تھانیدار اور پولیس کے اہلکار خود ڈکیتی اور اغواء برائے تاوان میں ملوث رہے ہیں شہادت کے لیے ایک مثال کافی ہے جس کے مطابق ایک سینئر صحافی کو بس سے اتارکر اغواء گیا جس کے بعد ان کے خلاف کاروائی کی گئی منصوبوں پر خوش ہونا اپنی جگہ لیکن شہر کو محفوظ بنانے کے لیے کیمروں تک کی تنصیب کافی نہیں ہے کچھ اپنی نیت کوبھی ٹھیک کرناہوگا۔ کراچی میں ڈکیتی، چوری اور امن امان کی مخدوش صورتحال کو دیکھتے ہوئے پیپلز پارٹی کی حکومت سندھ نے کراچی میں 10 ہزار کیمرے نصب کرکے سندھ سیف سٹی منصوبہ شروع کرنے کا اعلان کیا شاپنگ مالز، پلازوں، بچوں کی تفریح کے مراکز، اسکولوں، اسپتالوں، وغیرہ میں نصب شدہ نجی سیکورٹی کیمرے اور سی سی ٹی وی نیٹ ورک کو سیف سٹی کے ساتھ منسلک کرنا چاہیے تا کہ کم خرچے کے ساتھ اس سسٹم کی استعداد بڑھائی جا سکے سوشل میڈیا پر فون چھیننے، ڈکیتیوں، خواتین پر دست درازی، اغوا اور دہشت گرد حملوں جیسے ہزاروں جرائم کی ویڈیوز موجود ہیں. ان مجرموں کو چہرے کی شناخت کے سافٹ ویئر کو استعمال کر کے فوراً ٹریس کرنا چاہیے۔ جس نوجوان نسل نے کراچی کوصرف خون میں لت پت دیکھا ہے ان کو میں بتاتاچلو کہ یہ شہر سداسے ہی ایسا نہیں تھا۔ کراچی 1947ء سے 1960ء تک پاکستان کا دار الحکومت بھی رہ چکاہے۔ موجودہ کراچی کی جگہ پر واقع قدیم ماہی گیروں کی بستی کا نام مائی کولاچی تھا۔ جو بعد میں کراچی بن گیا انگریزوں نے انیسویں صدی میں اس شہر کی تعمیر و ترقی کی بنیادیں ڈالیں۔ 1947ء میں پاکستان کی آزادی کے وقت کراچی کو دار الحکومت منتخب کیا گیا۔ اس کی وجہ سے شہر میں لاکھوں مہاجرین کا داخلہ ہوا۔ پاکستان کا دار الحکومت اور بین الاقوامی بندرگاہ ہونے کی وجہ سے شہر میں صنعتی سرگرمیاں دیگر شہروں سے قبل شروع ہو گئیں،1959ء میں پاکستان کے دار الحکومت کی اسلام آباد منتقلی کے باوجود کراچی کی آبادی اور معیشت میں ترقی کی رفتار کم نہیں ہوئی، 1947 میں جب کراچی کو پاکستان کا دار الحکومت منتخب کیا گیا اس وقت شہر کی آبادی صرف چار لاکھ تھی۔ اپنی نئی حیثیت کی وجہ سے شہر کی آبادی میں کافی تیزی سے اضافہ ہوا اورآج آبادی ساڈھے تین کروڑ تک جاپہنچی ہے لیکن اب ایسا لگتاہے کہ کراچی کہ کرتادھرتاوں نے فیصلہ کرلیا ہے کہ کراچی کی آبادی کوواپس چار لاکھ ہی کرناہے اس لیے لٹیروں کو یہ چھوٹ بھی حاصل ہے کہ وہ موبائل یاگاڑی چھینتے وقت بندہ بھی ہاتھ کہ ہاتھ مار دیں۔ کیونکہ ایک میں ہی نہیں ہر بندہ بشریہ ہی سوچ رہاہے کہ شاید اس شہرکا امن جان بوجھ کرخراب کیاجارھاہے۔
0 56 5 minutes read