
غازی ملت راجہ محمد حیدر خان کی برسی حیدر میموریل ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام گزشتہ کہیں سالوں سے انتہائی تزک و احتشام کے ساتھ منائی جاتی ہے۔ اس سال بھی 20اپریل 2024کو حسب سابق منائی جا ئے گی۔ حیدر میمویل کے صدر راجہ محمد ممتاز خان قابل صد مبارکباد ہیں کہ وہ ہمیشہ ملت و ملک کے محسنوں ، اہم شخصیات کی یاد شان وشوکت سے منانے کا اہتمام کرتے ہیں۔ حضرت امیر المومنین سیدنا امام علی ابن ابی طالب علیہ السلام کا فرمان حق ہے کہ لوگوں سے اس طریقہ سے ملو کہ اگر مرجائو تو تم پہ روئیں اور زندہ رہو تو تمہارے مشتاق ہوں۔ جناب راجہ محمد حیدر خان صاحب مولاعلی علیہ السلام کی اس فرمان کی عملی تصویر نظر آتے ہیں۔ راجہ محمد حیدر خان مرحوم و مغفور نور المر قدة آزادکشمیر کے عظیم سیاسی راہنمائوں میں شمار ہوتے ہیں۔ مرحوم اپنے نام کی ساری خوبیوں سے لبریز تھے۔ کسی بھی نام کے ساتھ حیدر آجائے تو یہ وہ جراَت و دلیری کی علامت ہوتا ہے۔ مولاعلی علیہ السلام جنگ خیبر میں جب عمر و بن عبدودد کے مقابلہ میں آئے تو مشہور تھا کہ عمروبن عبدودد اتنا بڑا پہلوان تھا کہ جو 1000آدمیوں کی طاقت رکھتا تھا۔ تو مولاعلی علیہ السلام نے رجز پڑھا میری ماں نے میرا نام حیدر رکھا ہے اور عمروبن عبدودد کو ایک ہی حملہ سے گرا دیا۔ اس طرح راجہ محمد حیدر خان صاحب کے والدمحترم نے یہ رجز سنا ہو گا جس کی وجہ سے ان کا نام بھی حیدر رکھا ہوگا۔ راجہ صاحب انتہائی دلیر اور بہادر شخصیت تھے۔ والد محترم سید محمد شاہ مرحوم ریٹائر ریج آفیسر جو کہ راجہ صاحب کے ساتھ ایک طویل عرصہ تک ملازمت میں ان کے ماتحت ڈیوٹی سرانجام دے چکے تھے کا اظہار تھا کہ راجہ صاحب کو ایک عوامی تحریک میں جب گرفتار کر کے میر پور جیل میں لے گے میر پور جیل کا دروازہ راجہ صاحب کے قد کے لحاظ سے کم تھا۔ جس سے جھک کر داخل ہونا تھا۔ مگر راجہ صاحب اندر جانے سے انکار کر دیا اور کہا کہ راجہ حیدر خان کا سر صرف خالق حقیقی کے سامنے جھکتا ہے اس وقت کی انتظامیہ کو جیل کا دروازہ توڑنا پڑا۔ والدمحترم کا مزید اظہار تھا کہ راجہ صاحب سادات عظام کی بہت قدر و منزلت کرتے تھے انہوں نے اپنے ساتھ گزرے ہوئے ایک واقعہ سنایاکہ وہ فاریسٹ گاڈ کی حیثیت سے پٹہکہ میں بوم پر تعینات تھے اس وقت لکڑی بذریعہ دریا جہلم تک ترسیل کی جاتی تھی۔ لکڑی چوری کرنے کے لیے ایک شخص آیا اور اس پر انہوں نے فائر کر دیا۔ جب مقدمہ چلا تو راجہ صاحب جج کے پاس آئے اور شہادت کے طور پر بیان دیا کہ جس وقت یہ وقوعہ ہوا تو شاہ صاحب میرے دفتر میں موجود تھے جب عدالت سے باہر آئے تو فرمانے لگے کہ آج میری بخشش ہو گئی ہے کہ جب میں قیامت کو حضور پاک ۖ کے دربار میں حاضر ہوں گا تو میں کہوں گا کہ میں نے آپ کی اولاد سے ایک آدمی کو سزا سے بچایا ہے۔ راجہ صاحب آزادکشمیر کی جملہ برادریوں اور مکاتب فکر میں احترام کی نگا ہ سے دیکھے جاتے تھے شاہد یہی وجہ ہے کہ تنظیم السادات جموں وکشمیر کے دورانئے 1935تا1940 کے دوران پیر سید حسام الدین گیلانی صاحب مرحوم و سید محمد اکبر شاہ مرحوم رئیس میانی بانڈی کی صدارت میں منعقد ہونے والے سالانہ کنونشن اور یوم علی و حسنین علہیم السلام میں ہمیشہ راجہ محمد حیدر خان صاحب کو بطور مہمان خصوصی دعوت دی جاتی تھی اور وہ ان تقاریب میں شرکت کو اپنے لیے سعادت مندی و اعزاز سمجھتے تھے۔ آپ نے تحریک آزاد کشمیر اور کشمیر کے تشخص کے لیے نمایاں کردار ادا کیا۔ مرحوم طالب علمی سے ہی تحریک آزادی کشمیر کے لیے کوشاں تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ 1931 کے ہنگاموں میں جلوس ہاء کی قیادت کرتے ہوئے گرفتار ہوئے اور تحریک آزادی کشمیر1947میں عملی طور پر شریک جہاد کشمیر رہے ایک جنگہودستہ تشکیل دے کر پیر کنھٹی کے محاذ پر قیادت کرتے رہے ۔ مارچ1948میں آزادکشمیر محکمہ جنگلات میں بحیثیت DFO چارج سنبھالا اور اپنی ملازمت کے دوران جنگلات کے تحفظ کے لیے نمایاں خدمات سرانجام دیں۔ والد محترم 1990میں جنگلات کی ملازمت سے ریٹائر ہوئے۔ریٹائرمنٹ کے بعد وہ ہمیشہ راجہ صاحب کے کارہائے نمایاں کو یاد کرتے رہے اور ان کی سالانہ برسی کے موقع پر قرآن خوانی کے انتظام میں پیش پیش رہتے تھے۔ راجہ صاحب مرحوم انتہائی بہادر اور طوفان کا رخ موڑنے والی محب وطن سیاسی رہنما تھے آپ دو مرتبہ آل جموںوکشمیر مسلم کانفرنس کے صدر رہے والد صاحب کا اظہار تھا کہ جب راجہ صاحب کی وفات ہوئی تو ہم زیارت سہیلی سرکار کے سجادہ نشین سید ذاکر حسین شاہ بخاری صاحب کے پاس بیٹھے ہوئے تھے جہاں جموں و کشمیر لبریشن لیگ کے بانی رہنما سردار رحمت اللہ خان صاحب بھی موجود تھے ۔ سردار رحمت اللہ خان مرحوم نے محترم راجہ صاحب کے انتقال کی خبر سن کر سخت رنجید ہوئے اور دھاڑیں مار کر روتے ہوئے کہنے لگے کہ آج ہم ایک قیمتی مخلص دوست اور سیاسی قائد سے مرحوم ہو گئے ہیں۔ بلکہ مظفرآباد سیاسی طور پر یتیم ہو گیا۔ راجہ صاحب کے نور چشم سیاسی جانشین فرزند ازجمند جناب راجہ محمد فاروق حیدر خان صاحب ان کے اوصاف حمیدہ کی جھلک بدرجہ اتم موجود ہے یہی وجہ ہے کہ جب ایک سابق حکومت دارلخلافہ مظفرآباد سے منتقل کرنے کی سازش میں مصروف تھی تو راجہ محمد فاروق حیدر خان نے ذاتی مفادات کو ریاستی مفادات پر قربان کرتے ہوئے حکمرانوں کو گھر پہنچا کر دم لیا۔ اس لیے راجہ محمد فاروق حیدر خان بھی اپنے والدم محترم کی طرح آزادکشمیر کے مختلف قبائل اور برادریوں کے علاوہ مختلف مکاتب فکر میں مقبول ہیں۔ جناب فاروق حیدر صاحب جب وزیراعظم آزادکشمیر تھے تو غالباََ 18ستمبر2019کو اسلام آباد سینٹ کے زیر اہتمام نیشنل پارلیمنٹرنیز کانفرنس میں تاریخی خطاب کیا ۔جس کا آزادکشمیر بھر میں جملہ سیاسی و مذہبی جماعتوں کے کارکنوں نے بھر پورخیر مقدم کیا۔ جناب فاروق حیدر صاحب نے تاریخی حقائق و واقعات کے ساتھ جس بے باکی ، دلیری اور صاف گوئی سے اس وقت کے حالات کے تناظر میں جو تقریر کی ہے وہ ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔ دعا گو ہیں کہ اللہ پاک راجہ محمد حیدر خان کو جوار آل محمدۖ میں بلند مقام عطا فرمائیں اور راجہ محمد فاروق حیدر خان کو ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔