کالم

اسماعیل ہنیہ،شیخ احمد یاسین ،ابو عبیدہ اور تحریک آزادی فلسطین

مسجد اقصیٰ قبلہ اوّل اور نبیوں کے وطن فلسطین کی آزادی کی جد وجہد میں شریک حماس تحریک مزاحمت کی دوسری شخصیات کے ساتھ ساتھ نمائیں تین حضرات، اسماعیل ہنیہ، شیخ احمد یاسین اور ابو عبیدہ کی قربانیاں یاد رکھنے کے قابل ہیں۔ عید الفطر کے روز فلسطین کے سابق وزیر اعظم،حماس تحریک کے سربراہ اور فلسطین کے سیاسی امور کے انچارج ،قطر میں مقیم اسماعیل ہنیہ، جن کا اصلی نام اسماعیل عبدالسلام احمد ہنیہ ہے۔ اسماعیل ہنیہ1962ء میں غزہ شہر کے جنوب مغرب میں شطی پناہ گزین کیمیپ میں پیدا ہوئے۔ آپ نے غزہ کی اسلامی یونیورسٹی1987ء میں عربی ادب کی ڈگری اور 2009ء میں ڈاریکٹریٹ کی اعزازی ڈگری حاصل کی۔ آپ نے خالد مشعل کے بعد2017ء میںحماس تحریک کے رائیس سیاسی مکتب منتخب ہوئے۔ اسرائیل نے آپ کو دودفعہ قید کیا گیا۔1988 ء میں حماس کے ایک گروپ کے ساتھ ان کو لبنان میں مرج الظہور میں جلاوطن کر دیا گیا۔ ان کا مشہور قول ہے” ہم تسلیم نہیں کریں گے۔ ہم تسلیم نہیں کریں گے۔ ہم اسرائیل کو تسلیم نہیں کریںگے” اسماعیل ہنیہ نے امریکہ کے صدر بش کے اسرائیل کے ساتھ مل کر فلسطینیوں کو گرانے کو سامنے رکھتے ہوئے کہا تھا کہ ” تم گرے بش لیکن ہمارے قلعے نہیں گرے۔ تم گرے بش لیکن ہماری تحریک نہیں گری۔ تم گرے بش ہمارا مارچ نہیں گرا۔ ہم وہ لوگ ہیں جو موت کو اس طرح پسند کرتے ہیں جیسے ہمارے دشمن زندگی سے پیار کرتے ہیں”۔ اپنا سارا خاندان شہید کرانے والے اسماعیل ہنیہ کے یہ الفاظ تاریخ میں سنہرے الفاظ میں لکھے ہوئے ہیں۔ عید کے دن ان کے تین نوجوان بیٹوں حاصم، عامر، محمد اور چار پوتے، پوتیوں مونا، امل، خالد اورافہان کو سفاک دہشت گردیہودی فوجیوں نے بمباری کر کے غزہ میں شہید کر دیا ۔ تحریر لکھتے وقت معلوم ہوا کہ چھوتی پوتی بھی زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے شہید ہو گئی۔ ان شہادتوں کی خبر اس وقت ملی جب وہ قطر کے دارلحکومت دوحہ میں زخمی فلطینی بچوں کی عیادت کر رہے تھے۔ اس سے پہلے مختلف تاریخوں میں ان کا ایک بیٹا، ایک پوتا، ایک بھائی اور ایک بھتیجا بھی شہید ہو چکے ہیں۔ اسماعیل استقامت کے پہاڑ نے اس شہادت پر بات کرتے ہوئے کہا کہ غزہ کے تمام خاندانوں نے اپنے بچوں کی قربانیاں دیں،میں بھی ان میں سے ایک ہوں۔میرے خاندان کے تقریباً ساٹھ افراد تمام فلسطینیوں کی طرح ساتھ شہید ہوئے ان میں کوئی فرق نہیں۔میرے بیٹوں کا خون بیت المقدس اور مسجد اقصیٰ کو آزاد کرانے کے راستے میں دوسرے فلسطینیوں کی طرح ہے۔ رفح پر اسرائیلی کی دھمکیاں ہمارے لوگوں یا ہمارے مجاہدین کو خوف زدہ نہیں کر سکتیں۔ ہم پیچھے نہیں ہٹیں گے اور بیت ا لمقدس اور مسجد اقصیٰ کو آزاد کرانے کے لیے اپنے راستے پر گامزن رہیں گے۔ اس سے ہمیں جد وجہد تیز کرنے میں مدد ملے گی۔ ہم اپنے مطالبات پر قائم ہیں،اس میں مکمل جنگ بندی اور غزہ سے اسرائیلی فوجوں کی مکمل انخلا شامل ہے۔ اسماعیل ہنیہ کو جماعت اسلامی پاکستان کی طرف سے نکالی گئی یکجہتی فلسطین ملی مارچ میں کئی دفعہ پاکستانی عوام کو آن ایئر سننے کا موقعہ بھی ملا۔اسماعیل ہینہ1997ء میں شیخ احمد یاسین کے دفتر کے سربراہ رہے۔ الیکشن میں کامیابی کے بعد20 فروری2006ء حماس نے اسماعیل ہنیہ کو وزیر اعظم بنایا۔ اسی سال اسرائیل نے وزیر اعظم کے دفتر پر بمباری کی۔ کچھ محافط زخمی ہوئے۔ اسماعیل ہنیہ دفتر میں موجود نہ ہونے پر بچ گئے۔ فلسطینی اتھارٹی کے پپٹ صدر محمود عباس نے اسماعیل ہنیہ کو وزیر اعظم کے عہدے سے برطرف کر دیا۔ اس عمل کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے فلسطینی عوام کی خدمت جاری رکھی۔
شیخ احمد یاسین بانی ِحماس 1938ء میں پیدا ہوئے۔ شیخ احمد یاسین نے عبدالعزیز کے ساتھ مل کر1987ء میں حماس کی بنیا رکھی۔ حماس جس کا نام تحریک مزاحمت اسلامیہ ہے۔حماس کی معنی جوش اور بدلے کے ہیں۔ اس کے جھنڈے پر” لا الہ اللہ محمد رسول اللہ” لکھا ہے۔ یہ آزادیِ فلسطین کی منظم ایک بڑی جہادی تحریک ہے۔ جلسے میں تقریر کرتے ہوئے شیخ احمد یاسین نے پیشن گوئی کی تھی کہ اسرائیل ان شاہ اللہ 2025ء میں ختم ہو جائے گا.شیخ احمد یاسین کا قول ہے کہ فلسطینیوں نے اُس راہ کا انتخاب کیا ہے جس کا اختتام فتح یا شہادت ہے۔وہ فلسطینیوں کے روحانی اور جہادی رہنما ہیں۔ شیخ احمد یاسین بچپن میں ایک حادثہ میں چلنے پھرنے سے معزور ہو گئے تھے۔ ان کی نظر بھی کمزرو تھی۔ ان کا عقیدہ ہے کہ فلسطین فلسطینیوں کا ہے۔ فلسطینیوں کی زمین کو کسی بھی عرب حکمران کو اختیار نہیں کہ دستبردار ہو۔اسرائیلی فوج کا ساتھ دینے والوں کے لیے شیخ احمد یاسن نے 1998ء میں قتل کافتوی جاری کیا تھا۔ اسرائیل نے شیخ احمد یاسین کو فلسطینیوں کا اسامہ بن لادن قرار دیا ہے ۔ اسرائیل نے ان کو عمر قید کی سزا سنائی۔1997ء میں شیخ کو دو اسرائیلی ایجنٹوں کی رہائی کے بدلے قید سے چھوڑایا گیا۔ا سرائیل نے شیخ پر قاتلہ حملہ کیا ۔ زخمی ہوئے مگر اللہ نے بچا لیا۔2004ء میں دہشت گرد اسرائیل نے معذور شیخ احمد یاسین پر گن شپ ہیلی کاپٹر سے راکٹ برسا کر شہید کر دیا۔ فلسطینی اتھارٹی نے تین دن کا سوگ بنایا۔ اسماعیل ہنیہ نے اس موقعہ پر کہا تھا کہ شیخ تو ہمیشہ شہادت کے لیے تیار رہتے تھے۔ہاں ایریل شمعون نے یہ کام کر کے اپنے لیے جہنم کا دروزہ کھول لیا ہے۔ غزہ میںان کے جنازے میں 2 لاکھ فلسطینی شریک ہوئے۔ اقوام متحدہ میں شہادت پر قراداد پیش کی گئی جسے مسلم دشمن شیطان ِکبیرامریکہ نے ویٹو کر دی۔شیخ کے جانشین عبدالعزیز کو بھی دہشت گرد اسرائیل نے شہید کر دیا۔ حماس کی جاری موجودہ جہادی تحریک شیخ احمدیاسین ہی جاری کردہ ہے۔
موجودہ جاری آزدایِ فلسطین کی جدو جہد کے روئے رواں کمانڈر ابو عبیدہ اور اس کے جہادی ساتھی ہیں۔ ابو عبیدہ حماس کی جہادی کاروائیوں کو کمانڈ کر رہا ہے۔ اپنی بہادری اور شجاعت کی وجہ سے وہ مظلوم فلسطینیوں کی آنکھوں کا تارا بنا ہوا۔غزہ کی سیکورٹی کو القاسم بریگیڈ نے سنبھالا ہوا ہے۔اس کی کمانڈ میں کئی جہادی تنظیمیں دہشت گرد اسرائیل کے مظالم کا مقابلہ کر رہیں ہیں۔دہشت گرد اسرائیل کو حماس کے جنگجوں سے بدلا لینے کی بجائے غزہ کے بے قصور نہتی آبادی ، بچوں عورتوں کوظلم و سفاکیت کا نشانہ بنا رہا ہے۔ اس وقت تک غزہ کے 35 ہزار لوگ کو شہید کر چکا ہے جس میں بچوں اور عورتوں کی اکثریت ہے۔ لاکھ سے زیادہ زخمی ہیں۔ ہزاروں عمارتوں کے ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔ نوے فی صد رہائشی عمارتوں کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا۔ غزہ کی ساری مساجد اور ہسپتالوں کو بمباری کر تباہ کر دیا ہے۔ لوگوں تک کھانے پینے کی چیزیں نہیں پہنچنے دیتا۔ بھوک کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔ عوام گھاس کھا کر پیٹ پال رہے ہیں۔ بچوں بھوک سے مر رہے ہیں۔ بارش کے پانی میں عوام میں راتیں گزار رہے ہیں۔اسرائیل نے دو ماہ سے روزانہ کی بنیاد پر جاری بمباری سے غزہ کی ساری آبادی کی نسل کشی کی ۔ بچ جانے والوں کو ختم کرنے کے لیے رفح کی طرف میں دکھیل دیا ہے۔ اب جنگی چال کے طور پر ان نہتے عوام پر بمباری کرنے کی دھمکیاں دے رہا ہے۔ سارے دنیا کے انسان پسند عوام فلسطین کے حق میں مظاہرے کر رہے ہیں۔ فلسطینیوں کی خود کشی بند کرنے اور جنگ بندی کے لیے پیش کردہ اقوام متحدہ کی کئی قراردادوں کو امریکہ ویٹو کر چکا ہے۔ عالمی عدالت نے اسرائیل کے خلاف فیصلہ دیا ہے۔
عرب ملکوں اور دنیا کے کسی بھی مسلمان ملک نے غزہ کے مظلوں کی مدد نہیں کی۔ ایران کی حمایت سے یمن کے حوثی قبائل اسرائیل ، برطانیہ اور امریکہ کے بحری جہازوں کو ریڈ سی میں اپنی حدود سے گزرنے نہیں دے رہا۔ ان پر حملہ آور ہورہا ہے ۔بحری جہازوں کو میزائیل مار کرسمند ر میں ڈبو چکا۔اسرائیل کو دھمکی دی ہے کہ جب تک غزہ میں جنگ بند نہیں کرتااس کے کسی بحری جہا کو اپنی حدود سے گزرنے نہیں دے گا، اس پر برطانیہ اور امریکہ نے یمن پر ہوئی حملے کیے ہیں۔ یمن نے اسرائیل پر میزائیل داغے مگر اردن اور سعودی عرب کی سر زمین پر اُنہیں گرا دیا گیا۔لبنان سے حزب اللہ بھی اسرائیل پر میزائیل داغ رہا ہے۔ ایران کے سفارتخانے پر اسرائیل نے بمباری کر ایران کے مرکزی کمانڈر کے ساتھ کئی افراد کو شہید کردیا۔ ایران نے اس کے بدلے اسرائیل پر 300 میزائیلوں اور ڈرائون سے حملہ کر دیا۔ مسئلہ اقوام متحدہ میں گیا۔ جی سیون نے ایران پر اقتصادی پابندیاں لگا دیں۔
ایک دفعہ حماس نے اسرائیلی جیل سے قیدیوں کے تبادلے میں25 سال سے قید 900 فلسطینی قیدیوں کے بدلے اسرائیل کے 40 قیدی رہا کیے تھے۔ رہائی کے بعد پہاڑ جیسے عزم والے ان قیدیوں میں سے کچھ نے غزہ کے اندر پندرہ سال میں خفیہ سرنگوں کا جال بسا دیا۔ ان سرنگوں کے اندر ٹینک شکن یاسین راکٹ تیارکیے۔ اس کے علاوہ دیگر اسلحہ بھی تیار کیا۔ القاسم بریگیڈ اور دیگر جہادی تنظیموں نے اسرائیل اور اس کے اتحادی امریکا اور یورپ کو ناکوںچنے چبوا دیے ہیں ۔حماس اب بھی غزہ سے اسرائیل پر یاسین راکٹوں کی بارش کرتا رہتا ہے۔دنیا جانتی ہے کہ بلفور معاہدے کے تحت دشمنوں نے ساری دنیا سے یہودیوں کو فلسطین میں آباد کیا۔ یہودی ہرتزل نے یہودیوں کو فلسطین میں قوم پرست متعصب وطن قائم کرنے کا سبق پڑھایا۔ اس پر عمل کرتے ہوئے آباد کاردہشت گرد یہودیوں نے رفتہ رفتہ فلسطین کے مقامی باشندوں کو فلسطین سے دہشت گردی کر کے نکال دیا۔ عربوں نے اسرئیل سے جنگیں کیں۔ اسرائیل امریکہ اورمغرب کے عیسائی ملکوں اسرائیل کی ان جنگوں میں مدد کی اور عربوں کو شکست دل کر ارد گرد کے عرب ملکوں کے کچھ حصوں پر قبضہ کر لیا۔ اپنے عزاہم بیان کرتے ہوئے اسرائیل کی پارلیمنٹ پر کندہ ہے”اے اسرائیل تیری سرحدیں دریائے نیل سے دریائے فرات تک ہیں”۔اس میں اُردن، عراق، شام کے علاقوں کے ساتھ سعودی عرب میں مدینہ بھی شامل ہے۔اسرائیل نے فلسطینی عرب ملکوں اور دنیا میں تتر بتر کر دیے گئے۔ باقیوں کو کیمپوں میں رہنے پر مجبور کر دیا۔کچھ اردن کے قریب مغربی کنارے اور کچھ اس سے دُور سمندری پٹی پر غزہ میںا باد ہوئے۔ اسرائیل نے فلسطینیوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کاپروگرام بنایا ہوا ہے۔ اس پر مرتے نہیں تو کیا کرتے کے مصداق، حماس نے پندرہ سال کی تیاری کے بعد اسرائیل پر بری، بحری اور سمندری راستے سے یک باریگی سے حملہ کر کے اسرائیل کے گرد کنکریٹ کی حفاظتی دیوار توڑ کر اندر گھس کر اس کے ناقابل تسخیر ہونے کے گھمنڈ کو خاک میں ملاتے ہوئے اور آئرن ڈوم کی سیکورٹی کو ناکام کرتے ہوئے 1200 یہودیوں جس میں فوجی بھی شامل ہیں کو ہلاک اور250 کو قیدی بنا لیا۔ آج چھ ماہ سے زیادہ وقت گزر چکا ہے۔ اسرائیل سارے غزہ کو تباہ برباد کر کے بھی اپنے قیدی نہیں چھڑا سکا۔ حماس نے حملہ آور مکافہ ٹینکوں پر یاسین راکٹ برسا کر سیکڑوں برباد کر دیے۔ کئی ڈروان اور اپاچی ہیلی کاپٹر گرا ئے۔ حماس کا مطالبہ ہے کہ وہ اسرائیل قیدی اس وقت تک نہیں رہا کرے گا جب تک اسرائیل مکمل جنگ بندی نہیں کرتا۔ غزہ سے ہمیشہ کے لیے نہیں نکل جاتا اور فلسطینی قیدی کو رہا نہیں کرتا۔ اللہ غزہ کے مسلمانوں کی حفاظت فرمائے آمین۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button