
آج کل لوگوں کو قیامت کی نشانیاں پوری ہونے کا شدت سے انتظار ہے اوپر سے رہی سہی کسر ہمارے یوٹیوبرز نے پوری کر دی ہے ، ہر واقعہ کو قیامت کی نشانی کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کی جاتی ہے اور ہر واقعہ کے بارے میں کہہ دیا جاتا ہے کہ یہ قیامت کی نشانی ہے اور اس کے بعد تباہی ہی تباہی ہے ۔ بہت سے لوگ تو زندگی سے مایوس ہونے لگے ہیں کہ اب تو قیامت کی نشانیاں پوری ہو چکی ہیں اب تو دنیا تیسری جنگ عظیم اور تباہی و بربادی کی طرف جا رہی ہے ، ایک بار پھر پتھر کا زمانہ لوٹ آئے گا لہٰذا زندگی میں کچھ کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے وہ ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھنے کے قائل ہو چکے ہیں ۔ یوٹیوب کھولیں تو ایسا ہی محسوس ہوتا ہے کہ یہ مہینہ آخری مہینہ ہے اس کے بعد تو بس پے در پے بڑے بڑے واقعات رونما ہوں گے اور ہر طرف تباہی و بربادی ہو گی جس کے بعد دنیا ختم ہو جائے گی۔ بہت سے یوٹیوبرز بڑے بھیانک تھمب نیل لگا کر لوگوں کو ڈرا رہے ہوتے ہیں، اتنے بھیانک تھمب نیل لگانے کا مقصد محض لوگوں کو اپنی ویڈیو کی طرف متوجہ کرنا ہوتا ہے ، یوں ان کے ویوز بڑھتے ہیں ان کی کمائی میں اضافہ ہوتا جس سے ان کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے اور پھر وہ دوسرے دن کوئی نئی قیامت کی نشانی تلاش کر کے لوگوں کو ڈراتے دکھائی دیتے ہیں۔جیسے آج کل یہ بھی مشہور ہے کہ مسجد اقصیٰ کو شہید کر کے وہاں پر یہودی ہیکل سلیمانی تعمیر کرنا چاہتے ہیں اور یہ ہو کر ہی رہنا ہے اب بہت سے لوگ اس بات پر یقین رکھے ہوئے ہیں کہ مسجد اقصیٰ ضرور بضرور شہید ہو گی اور ہیکل سلیمانی تعمیر ہو جائے گا اور پھر یہودی مغلوب ہوں گے اور مسلمان غالب آ جائیں گے اب یہ ضروری نہیں ہے کہ ایسا ہو کر ہی رہے گا یہ ضروری نہیں ہے کہ مسجد اقصیٰ کو شہید کی جائے گا اور اس کی جگہ ہیکل سلیمانی کو تعمیر کیا جائے گا کیونکہ قیامت کی وہ نشانیاں جن کا ذکر احادیث مبارکہ میں موجود ہے وہ تو پوری ہو کر ہی رہیں گی لیکن احادیث مبارکہ میں بھی جن نشانیوں کا تذکرہ ہے ان کا کوئی وقت متعین نہیں ہے کہ فلاں نشانی اپریل 2024میں پوری ہو گی بلکہ اندازے بتائے گئے ہیں اور اشارے دیے گئے ہیں حتمی اوقات کسی کو معلوم نہیں ہیں اس لیے کسی بھی واقعہ کے بارے میں سو فیصد یقین کے ساتھ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ وہ قیامت کی نشانی ہے جس کا ذکر فلاں حدیث میں موجود ہے ۔ جب 1857کی جنگ آزادی ہوئی تو اس وقت بہت سے لوگ اسے غزوہ ہند سمجھ بیٹھے تھے اور بہت سے لوگوں نے غزوہ ہند کے فضائل کے پیش نظر اس میں حصہ لیا ، احادیث میں اس کے بہت سے فضائل ملتے ہیںجیسا کہ مسند احمد بن حنبل میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا گیا ہے کہ ” رسول اللہ ۖ نے ہم سے غزوہ ہند کے بارے میں وعدہ فرمایا تھا ، سو اگر میں (ابوہریرہ) شہید ہو گیا تو بہترین شہیدوں میں سے ہوں گا ۔ اگر واپس آگیا تو میں آزاد ابوہریرہ ہوں گا”۔ سنن نسائی کی ایک روایت سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس کے شہداء افضل ترین شہداء اورزندہ بچ جانے والے جہنم سے آزاد ہوں گے۔ان فضائل کے مدنظر کچھ لوگ جو یہ سمجھ رہے تھے کہ یہ غزوہ ہند ہے انہوں نے اس جنگ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا لیکن اس وقت کے بزرگوںنے بھی سمجھایا اور بعد کے حالات سے بھی معلوم ہوا کہ وہ غزوہ ہند نہیں تھا بلکہ اس کے بعد دو سو برس کا طویل عرصہ مکمل ہونے کو ہے مگر اب تک ایسا کوئی غزوہ وقوع پذیر نہیں ہواجس کا خاکہ ہمارے اذہان میں ہے۔
بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ احادیث میں کسی واقعہ وغیرہ کا تذکرہ ہوتا ہے لیکن اس کی نوعیت کو ہم سمجھ نہیں پاتے اور اس سے ملتے جلتے کسی واقعہ کو بعینہ وہی قرار دیتے ہیں یا احادیث میں بیان کیے گئے حالات کو سمجھ نہیں پاتے اور خود سے اس کی اپنے اذہان کے مطابق غلط تشریح کر بیٹھتے ہیں جس کی وجہ سے بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جیسے غزوہ ہند کے بارے میں عام سوچ یہ پائی جاتی ہے کہ یہ کوئی بہت بڑی جنگ ہو گی لیکن بہت سے علماء کرام کا یہ مؤقف ہے کہ یہ کوئی خاص جنگ نہیں ہو گی بلکہ اس سے مراد اللہ کے دین کی سر بلندی کے لیے حتی الوسع کوشش کرنا ہے ۔ یعنی کسی بھی واقعہ کا تعین نہیں کیا جا سکتا نہ ہی اس کے زمانے کے اعتبار سے اور نہ ہی نوعیت کے اعتبار سے ۔ یہ مقاصد شریعت میں بھی شامل نہیں ہیںاس لیے ان کے پیچھے اس قدر پڑ جانا کہ اصل مقاصد کو پس پشت ڈال کر توانائیاں انہی کی پیشگوئیوں میں صرف کرنا کسی طرح درست نہیں ہے۔ ممکن ہے کہ اب جو حالات جاری ہیں یہ قیامت کی نشانیاں نہ ہوں بلکہ مسلمان کوشش کریں تو حالات درست ہو جائیں قبلہ اول پھر مسلمانوں کے قبضہ میں آ جائے دنیا پر مسلمانوں کی پھر سے حکومت قائم ہو جائے اس کے بعد پھر کوئی ایسا زمانہ آئے جس میں حالات خراب ہو جائیں اور تب قیامت کی نشانیاں رونما ہوں۔
لہٰذا مسلمانوں کو قیامت کے وقوع پذیر ہونے کا انتظار کیے بغیر جدو جہد کرنی چاہیے، مسجد اقصیٰ کی شہادت اور اس کی جگہ ہیکل سلیمانی کی تعمیر اور پھر یہودیوں کی من جانب اللہ پٹائی کا انتظار کرنے کی بجائے بیت المقدس کو یہودیوں کے قبضہ سے نکالنے کے لیے اپنی سی کوشش کرنی چاہیے ۔ اپنے اعمال کو درست کرنا چاہیے اور اللہ رب العزت کے احکامات کی طرف توجہ دینی چاہیے ، نماز ، روزہ تو کرنا ہی ہے ساتھ اللہ تعالیٰ نے ایسے حالات میں جہاد کا حکم بھی دے رکھا ہے اسے بھی بجا لانا چاہیے ۔ یوٹیوب اور سوشل میڈیا پر جہاد سے کبھی مسلمانوں کے حالات درست نہیں ہوں گے اور نہ ہی دوسروں کو جہاد نہ کرنے کا طعنہ دینے سے ہمارے ذمے سے یہ فریضہ ساقط ہو گا۔ اس لیے جہاں تک ہو سکے عمل کی طرح آئیں، قیامت نے جب وقوع پذیر ہونا ہوا وہ ہو جائے گی، اس کا علم صرف اور صرف اللہ رب العزت کو ہی ہے اس کی نشانیاں بھی ہمیں صحیح طرح معلوم نہیں ہیں اس لیے موجودہ حالات سے خوفزدہ ہو جانا کہ اب قیامت کا وقوع پذیر ہونا ضروری ہے اور عمل سے ہاتھ کھینچ لینا کہیںکی عقلمندی نہیں۔