کالم

ایران،اسرائیل حملہ۔۔۔تیسری عالمی جنگ؟؟

قارئین محترم! ایران نے جونہی اسرائیل پر حملہ کیا ہے تو کئی خدشات منڈلانے لگے ہیں۔ایک طرف اقوام متحدہ اور سعودی عرب نے معاملے کی نزاکت اور شدت سے عالمی دنیا کو خبردار کیا ہے اور خطے میں قیام امن کی کاوشوں پر زور دیا ہے لیکن دوسری جانب اسلامی اور غیر اسلامی ممالک کی بحث اکثر دانشوروں اور نقادوں کا موضوع گفتگو بنی ہوئی ہے۔ یہیں پر اکثریت تیسری عالمی جنگ کے خدشات کو بھی سرا رہی ہے۔ ایک طرف روس اور یو کرین کی جنگ پہلے ہی موضوع گفتگو تھی اب ایک اور مصیبت نے دنیا بھر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ ہم چاہے اس معاملے کو کتنا ہی Liteکیوں نہ لیں لیکن دنیا بھر کی تمام انسانیت اس واقعے سے خوف و ہراس کا شکار ہے۔یاد رہے کہ امریکہ،کینیڈا،برطانیہ سمیت سب یورپی یونین نے ایران کے اس قدم کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے اور اسرائیل کی حمایت کی ہے۔قارئین! لکھنے کے حساب سے تو یہ معمولی لفاظی ہے لیکن جب دنیا کے طاقتور ترین ملک ایران کو قصور وار اور اسرائیل کو بے گناہ کہہ رہے ہیں تو اس کے پیچھے جو خطرات پوشیدہ ہیں ان کا ادراک شاید آنے والے چند ایام میں ممکن ہو سکے۔ ابھی کوئی تجزیہ کرنا قبل از وقت ہو گا لیکن یہ بات بالکل واشگاف انداز میں قلمبند کی جا سکتی ہے کہ مسلم اور غیر مسلم کی تفریق میں اضافہ ہو گا اور شاید یہی اضافہ خاکم بدہن گریٹر اسرائیل منصوبے کی تکمیل یا مسلم ممالک کی فتح پر متنج ہو۔ان دونوں صورتوں میں عالمی امن کو شدید خطرات درپیش ہیںکیونکہ گریٹر اسرائیل کا بننا یا ساری دنیا پر اہل اسلام کا غلبہ اتنا آسان نہیں کہ روٹی کے نوالوں کی طرح نگل لیا جائے۔ رب جانے کتنا خون خرابہ ہو گا اور کتنی انسانیت نعشوں میں تبدیل ہو گی؟یہ بات اظہرالمن الشمس ہے کہ 13اور14اپریل کی درمیانی شب ایران نے تقریبا 200کروز میزائل اور ڈرون اسرائیل پر داغیاور اس کی ذمہ داری بھی ایرانی پاسداران اسلام نے قبول کی تھی۔اب ایران نے نجانے کیا سوچ کر اتنا بڑا قدم اٹھایا؟؟؟ یہ لگ رہا ہے کہ ایران اکیلا یہ کام نہیں کر سکتا تھا،کئی اور ممالک بھی یقیننا ایران کی تائید میں ہوں گے جس کے باعث ایران نے موجودہ سپر پاور امریکہ کے حلیف ملک اسرائیل کے اوپر دیدہ دلیری سے نہ صرف حملہ کیا بالکہ اس حملے کو ایران جائز اور درست بھی تصور کرتا ہے۔ان حملوں میں اسرائیلی دفاعی تنصیبات اور فوجی ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ایرانی میڈیا کے مطابق اس حملے کی وجہ یکم اپریل کو دمشق میں اسرائیلی کارروائی کی وجہ سے ایرانی پاسداران انقلاب کے لیڈر سمیت 12افراد شہید ہو گئے تھے،اور اسی کے جواب میں یہ کارروائی کی گئی ہے۔دوسری جانب اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گور تریس نے حسب سابق ایران پر زور دیا ہے کہ وہ اور اسرائیل دونوں خطے میں قیام امن کی خاطر مزید جنگی کارروائیوں سے باز رہیں۔انہوں نے دونوں فریقین پر کشیدگی کو کم سے کم کرنے پر بھی زور دیا ہے۔اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے یہ بھی کہا کہ مشرق وسطٰی ایک اور جنگ کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ دوسری جانب اسرائیل نے حملے کے بعد اقوام متحدہ کے سیکورٹی کونسل کا اجلاس طلب کرنے کی درخواست دائر کر دی ہے۔ادھر سعودی عرب نے فوجی کشیدگی کو ختم کرنے پر شدت سے زور دیا ہے، بالکہ سعودی وزارت خارجہ نے دھمکی دی ہے کہ اگر حالات کو قابو میں نہ لایا گیا تو اس کے سنگین نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔چین کی وزارت خارجہ کی جانب سے اسرائیل کے خلاف ایران کی جانب سے ڈرون اور میزائل داغے جانے پر تشویش کا اظہار کیا ہے،اور اس بات پر زور دیا ہے کہ غزہ میں جنگ بندی کو یقینی بنایا جائے،اس حساب سے چین غزہ کی جنگ کو ہی ایرانی حملوں کا ذمہ دار قرار دے رہا ہے۔ہاں البتہ چینی حکومتی اہلکاران نے پریس سے بات چیت کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ اسرائیل اور ایران دونوں تحمل و برد باری کا مظاہرہ کریں،اور دنیا کے امن کو مزید خراب ہونے سے روکیں۔چین بار بار اس بات پر زور دے رہا ہے کہ غزہ کے اندر جنگ پر قابو پایا جائے۔ یاد رہے کہ گزشتہ سال چین نے ایران اور سعودی عرب کے درمیان ہونے والی جنگ میں ثالث کا کردار ادا کیا تھا۔چین نے ایران سے کہا تھا کہ وہ بحیرہ احمر میںایران کے حمایت یافتہ لوگوں کو قابو میں رکھے تا کہ کوئی نا خوشگوار واقعہ رونما نہ ہو۔ اس سے قبل اتوار کو چین نے ایران کے اندر چینی سفارتخانے کے عملے اور اہلکاران کو چوکس اور چوکنا رہنے کے ساتھ ساتھ احتیاطی تدابیر میں بھی اضافے کا مشورہ دیا تھا۔اسرائیل کے وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے کہا ہے کہ ہمارا دفاعی نظام مظبوط ہے اور ہم کسی بھی نا خوشگوار واقعے کا بھرپور جواب دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ہمارا اصول ہے کہ جو ہمیں نقصان پہنچائے گا ہم اسے لازمی نقصان سے دو چار کریں گے اور ہم کسی بھی خطرے کے خلاف اپنا دفاع کرنا بخوبی جانتے ہیں۔امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ میں نے ایران کے خلاف سلامتی کونسل سے مشاورت کی ہے اور ایران اور اس کے اتحادیوں کے خلاف ہم اسرائیل کا بھرپور ساتھ دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ اس موقع پر اسرائیل کو تنہا نہیں چھوڑیں گے۔ادھر برطانوی پی ایم رشی سنک نے ایران کی شدید مخالفت کی ہے اور ایران کے اقدامات کو دہشتگردانہ قرار دیا ہے۔انہوں نے کہا کہ ایران ایسی حرکات کے ذریعے سے عدم استحکام اور علاقے میں تنائو پھیلانا چاہتا ہے۔انہوں نے کہا کہ برطانیہ اسرائیل،اردن اور عراق سمیت اپنے تمام شراکت داروں کے تحفظ و سلامتی کے لئے ہر دم تیار رہے گا۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہم اپنے اتحادیوں سمیت مزید کشیدگی پر قابو پانے کی بھرپور کوشش کریں گے اور مزید خونریزی کے متحمل نہیں ہو سکتے۔بھارت نے اسرائیل پر ایران کی جانب سے ڈرون اور کروز حملوں کی مذمت کی ہے۔انہوں نے کشیدگی کو فوری کم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ بھارت نے ایران کے حملے کے بعد اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ خطے میں امن کو نقصان پہنچنے کا احتمال ہے،اس لئے فوری طور پر دونوں ممالک اس تنازعے کو جلد از جلد حل کرنے کی سعی کریں۔ بھارتی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ وہ خطے کے تمام معاملات پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہے اور کسی بھی بد امنی کی صورت میں وہ ہمہ وقت تیار ہے اور امن بحال کرنے میں اپنا کردار ادا کرے گا۔کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے بھی ایران کے خلاف شدید مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ ہم ہر حال میں اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہیں۔یہ حملے ایک بار پھر نائن الیون کی طرح خطے کے امن کو تباہ کرنے کی سازش ہے اور ہم نہیں چاہتے کہ امن میں خلل پیدا ہو۔اس کے علاوہ جرمنی ظ’،فرانس،یورپی یونین،ڈچ،ڈانش اور دیگر نے بھی ایرانی حملوں کی مذمت کی ہے۔قارئین! یہ تو میں نے اسرائیلی اتحادیوں کے خیالات قلمبند کئے جو مختلف جگہوں سے Collectکئے گئے۔ اب سوچنا یہ ہے کہ چھپن بھائیوں کی بہن یعنی ایران اور چھپن بھائی اس کے مسلمان ممالک کیا رد عمل دیتے ہیں۔بحرحال امن ہر حالت میں قائم رہنا چاہئے ورنہ ہم نے بے تحاشہ جنگیں کیں لیکن مسلم ممالک کو جنگوں میں نقصان کے علاوہ کسی جگہ بھی فائدہ نہیں ہوا۔ ماضی کے تجربات کو مد نظر رکھتے ہوئے اور نبی اکرمۖ کی سنت مطہرہ کے مطابق جب تک مدینے کی سٹیٹ مضبوط نہیں ہوئی تھی تو انہوں نے بھی صلح حدیبیہ کی طرز کا معاہدہ کیا تھا،جسے اس وقت کے لوگ کہتے تھے کے نعوذ باللہ نبی اطہرۖ نے دب کر معاہدہ کیا ہے ،لیکن تیرہ سالوں کے اندر اندر لوگ سورة النصر کے مصداق جوک در جوک مشرف بہ اسلام ہوئے اور مکہ فتح کر لیا گیا۔
یہ نبی اکرمۖ کی بہترین جنگی حکمت عملی کا نتیجہ تھا۔ آپ شائد اختلاف کریں ۔۔آپ کا حق ہے لیکن اس وقت مسلمان اس حالت میں نہیں کہ وہ جنگ کے متحمل ہو سکیں۔باقی جنگ بدر کا ایمان تو اس کے بعد والی جنگ میں نہیں رہا تھا جب نبی اکرمۖ خود موجود تھے،پھر بھی اگر آپ کسی معجزے کے انتظار میں ہیں تو معجزے نبیوں کے بعد ختم ہو گئے تھے۔لہذا تحمل و برد باری سے جہاد کیا جائے لیکن حکم عملی کے ساتھ۔جس طرح ایران نے بغیر سوچے سمجھے اسرائیل پر حملہ کیا میں اس کے بارے میں اپنی رائے محفوظ رکھتا ہوں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button