کالم

نمازی کہاں ہیں؟

رمضان المبارک کا مقدس مہینہ گزر گیا اور شوال المکرم کامہینہ عید الفطر سے شروع ہو چکا ہے ۔ رمضان المبارک میں مسلمان عبادات میں نہایت پرجوش ہوتے ہیں ، صرف فرائض ہی نہیں نفلی عبادات میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ مگر شوال المکرم میں بھی کرنے کے کچھ کام ہوتے ہیں جن سے ہم اکثر غافل رہتے ہیں ۔ وہ کام یہ ہیں کہ سب سے پہلے تو شوال المکرم کے چھ روزے رکھے جائیں اگرچہ اتنا اہتمام نہ کیا جائے کہ وہ فرض معلوم ہونے لگیں مگر احادیثِ مبارکہ میں ان کے جو فضائل بیان کیے گئے ہیں انہیں مدنظر رکھتے ہوئے ان روزوں کو ضرور رکھنا چاہیے۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ۖ نے ارشاد فرمایا :” جس نے رمضان المبارک کے روزے رکھے، پھر اس کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے تو یہ پورے زمانے کے روزے رکھنے کی طرح ہے” (صحیح مسلم)۔ اس لیے شوال کے چھ روزے رکھے جائیں ۔یہ تو نفل عبادت تھی جس کی طرف مختصراً توجہ دلا دی گئی ہے اب آتے ہیں اصل کام کی طرف جس کا کرنا نہ صرف شوال بلکہ پورا سال ضروری ہے وہ یہ کہ جیسے مساجد کو ہم نے رمضان میں آباد رکھا ہوا تھا ویسے ہی پورا سال آباد رکھیں۔ اس مضمون پر تقریباً ہر سال ہی لکھتا ہو اور اپنے خطبہ جمعہ میں بھی ضرور بیان کرتا ہوں کہ رمضان المبارک میں مساجد میں اس قدر نمازی ہوتے تھے کہ بسا اوقات مسجدیں چھوٹی پڑ جاتی تھیں وہ لوگ کہاں سے آتے تھے ؟ کیا وہ کسی دوسرے شہر سے آئے تھے یا آسمان سے اترے تھے جو رمضان المبارک کے گزرتے ہی لوٹ گئے ہیں اور اب پھر جمعے کی نماز میں واپس آگئے ہیں۔ ایسا ہرگز نہیں ہے بلکہ وہ سب بھی اور جمعہ کی نماز میں حاضر تمام افراد بھی اسی محلے کے ہیںکہیں باہر سے نہ آئے تھے اور نہ ہی کہیں چلے گئے ہیں۔ ہم رمضان المبارک میں عبادات کرتے ہیں یہ سوچ کر کہ یہ رمضان کا مہینہ ہے اس میں عبادت کر لیں پھر چھٹی ہو جائے گی ، ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ اگر ایک مہینہ عبادت کی عادت پیدا ہو گئی ہے تو اسے پورا سال جاری رکھنا چاہیے۔ رمضان المبارک مشق کا مہینہ ہوتا ہے جس کے بعد پورا سال اس کے مطابق گزارنے کی کوشش کرنی چاہیے۔مفتی تقی عثمانی صاحب کے الفاظ نظر سے گزرے جس میں انہوں نے لکھا تھا کہ ” ہم لوگ رمضان میں تو اعمال کے اندر تھوڑا بہت اہتمام کرتے ہیں، چنانچہ ہوتا یہ ہے کہ جتنے نیک کام ہیں ، سب رمضان کے لیے اٹھا کر رکھ دیے ہیں، نفلیں پڑھیں گے تو رمضان میں ، تلاوت کریں گے تو رمضان میں کریں گے ، رات کو اٹھیں گے تو رمضان میں اٹھیں گے ، اور اشراق اور چاشت کے نوافل پڑھیں گے تو رمضان میں پڑھیں گے ، اس طرح ہم نے سارے کام اٹھا کر رمضان کے لیے رکھ دیے۔ اور ادھر جیسے ہی رمضان ختم ہوا ، ادھر سارے اعمال ختم، اب نہ تو تلاوت ہے ، نہ ذکر ہے ، نہ نوافل ہیں، نہ اللہ تعالیٰ کی یاد ہے، اور نہ گناہوں سے بچنے کا وہ اہتمام ہے۔ رمجان میں گناہ کرتے ہوئے ذرا شرم آ جاتی ہے کہ بھائی! رمضان کا مہینہ ہے ، ذرا آنکھ کی حفاظت کر لیں، ذرا کان کی حفاظت کر لیں، ذرا زبان کی حفاظت کر لیں لیکن رمضان گزرتے ہی گناہوں کی چھٹی مل گئی، اب نہ گناہوں سے بچنے کا اہتمام ہے اور جو نیک کام رمضان میں شروع کیے تھے ، نہ ان کو باقی رکھنے اہتمام ہے۔ ”مفتی صاحب نے اہم اصول بیان فرمائے مگر انہوں نے نوافل کا دکھ بیان کیا ہے میں تو کہتا ہوں ہمارے ہاں تو لوگ فرض چھوڑ بیٹھتے ہیں نوافل کا تو کیا ہی کہنا۔ لوگ فرض نماز کو بھی رمضان یا جمعہ کے ساتھ خاص سمجھتے ہیں فرائض بھی رمضان المبارک میں ہی ادا کرتے ہیں جیسے ہی رمضان گزرا تو فرض نماز بھی گئی اب پنچ وقتہ فرض نماز آئندہ سال رمضان المبارک میں ہی ادا کریں گے تب تک جمعہ کی نماز پر گزارا کرتے رہیں گے۔ مضان المبارک کا مہینہ آتے ہی مساجد آباد ہو جاتی ہیں جو کہ انتہائی خوشی کی بات ہے ۔ لوگ تمام نمازوں کے لیے مساجد کا رخ کرتے ہیں۔ آذان ہوتے ہیں مسلمان جوق در جوق مساجد میں آنے لگتے ہیں اور نماز کے بعد اگر پیچھے مڑ کر دیکھیں تو مسجد میں بیٹھنے کی بھی جگہ نہیں ہوتی ۔ مساجد کے ہال کے علاوہ برآمدے ،صحن اور چھت بھی نمازیوں سے بھرے ہوتے ہیں۔ مساجد کی اس آبادی کو دیکھ کر دل خوشی سے باغ باغ ہو جاتا ہے ۔ رمضان میں مساجد میں جانے کا بہت لطف آتا ہے کیوںکہ مساجد خوب آباد ہوتی ہیں لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ مسلمانوں کا یہ جوش فقط رمضان المبارک تک ہی محدود ہوتا ہے جیسے ہی عید کا چاند طلوع ہوتا ہے مساجد کی آبادی کا چاند غروب ہو جاتا ہے ۔ عید کے چاند کے ساتھ ہی مسلمان بھی مساجد کے لیے عید کا چاند ہو جاتے ہیں جو پھر سال بعد ہی نظر آتے ہیں۔ عید کے دن تو مساجد ایسے سونی ہو جاتی ہیں جیسے سارے محلے والوں کو جلا وطن کر دیا گیا ہے اور اب محلے میں امام صاحب اور صف اول میں نماز پڑھنے والے چند بزرگوں کے علاوہ کوئی باقی نہیں رہا۔لہٰذا ابھی رمضان المبارک گزرا ہے ہم نے جن عبادات کا اہتمام رمضان میںکیا تھا ان کا اہتمام اب بھی جاری رکھیں۔ فرض نماز کی تو کسی حال میں چھوٹ نہیں ہے ہاں نوافل اور ذکر و تلاوت کا اہتمام جو ہم رمضان میں کثرت سے کرتے تھے اب چلو اس حد تک نہیں تو کسی حد تک کرتے رہنا چاہیے ، بالکل چھوڑ کر نہیں بیٹھ جانا چاہیے کہ آئندہ رمضان آئے گا تو پھر ایک مہینے کے لیے یہ تمام عبادات کر لیں گے ۔ نہ جانے آئندہ رمضان نصیب ہو یا نہیں ، اس لیے پورا سال فرائض اور نوافل کا اہتمام جاری رکھنا چاہیے اور مساجد کو آباد رکھنے کا بھی خیال رہنا چاہیے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button