کالم

شفاالملت حضرت میاں نیک محمد نوشاہی شرقپوری قدس سرئہ العزیز

دین متین کی تبلیغ و اشاعت اور اس کے ذریعے مخلوق خدا کی دینی و دنیاوی معاملات میں رہنمائی صوفیاکرام کا مقصد حیات رہا ہے اس مقصد کے حصول کے لئے وہ ساری زندگی سراپا اخلاص رہے ان کی صاف گوئی ، خلوص نیت اور ارفع و اعلی اخلاق و کردار نے عوام الناس کو ان کے گرد جمع ہونے پر مجبور کر دیا۔ یوں ان پاکباز ہستیوں نے خانقاہی نظام کی ایسی مضبوط بنیاد رکھی جس نے اخلاقی اور روحانی سطح پر انقلاب برپا کر کے اللہ تعالی کی اطاعت اور محبت رسول ۖ کے چراغ چارسوروشن کردئیے۔ متلاشیان حق و صداقت ان خانقاہوں کی طرف کھنچے چلے آتے اور قلب و نظر کی صفائی کے ساتھ ساتھ سکون و اطمینان کی ابدی دولت سے بہر ہ یاب ہو کر واپس جاتے۔ یہ سچ ہے کہ فی زمانہ خانقاہی نظام میں بھی تبدیلیاں آ چکی ہیں اور خلوص کی جگہ ظاہر داری اور دکھاوا لے رہا ہے تاہم سلسلہ نوشاہیہ کی درگاہیں آج بھی اسی طرح اپنے بنیادی مقصد پر کاربند ہیں، آج بھی یہاں علم و حکمت ، تعلیم و تعلم ، فقرو درویشی اور کردار کی تعمیر کرنے والا خوشبودارماحول موجود ہے، شرقپور شریف میں قائم آستانہ سلسلہ عالیہ قادریہ نوشاہیہ اس کی روشن مثال ہے۔ آسمان ولایت کے آفتاب جہاں تاب ، شفاالملت حضرت میاں نیک محمد صاحب نوشاہی رحم اللہ علیہ کے روحانی و عرفانی مرکزمیں گذشتہ ساڑھے تین سو سال سے لے کر آج تک بڑے خوبصورت اور دل آویز طریقے سے بندگان خدا کی رہنمائی کا فریضہ انجام دیا جا رہا ہے ، حضرت میاں نیک محمد صاحب 13 اگست 1884 کو شرقپور شریف کے ایک صاحب حال اور ولایت و معرفت میں باکمال عارف حق حضرت میاں روشن دین رحم اللہ علیہ کے گھر پیدا ہوئے آپ اپنے نیک اعمال اور پاکیزہ افعال کی بنا پر حقیقتا اسم بامسمی ثابت ہوئے ، آپ بڑے صاحب علم، صاحب تقوی اور صاحب کشف و کرامات بزرگ تھے جدھر بھی نگاہ اٹھاتے آنِ واحد میں دلوں کی کایا پلٹ کر رکھ دیتے ملک کے گوشے گوشے سے لوگ آپ کی خدمت میں آتے اور منزل مراد حاصل کر کے واپس جاتے ، آپ کے حالات ان عقیدت مندوں کے لئے مشعل راہ ہیں جن کے تفصیلی ذکر کے لئے ان گنت اوراق کی ضرورت ہے ، آپ بلاشبہ اولیاکاملین میں سے تھے ، سیف زبان اورمنبع فیوض و برکات تھے ۔ آپ سے بے شمار کرامات کا ظہور ہوا جن کی تصدیق کرنے والے اور آپ سے فیض یاب ہونے والے درجنوں نفوس تا حال بھی زندہ و سلامت ہیں جنہیں حضرت صاحب علیہ الرحمہ کے قریب رہنے کے مواقع میسر رہے ، یہاں آپ کی شان ولایت کے بارے میں ان کی روایات اور تاثرات سیر و قلم کئے جاتے ہیں ، میاں امام علی ولد محمد حسین مرحوم نے جو اپنے والد کے بعد کافی عرصہ تک آپ کی حجامت بنانے کا شرف حاصل کرتے رہے اور آپ سے ہی بیعت تھے بتایا کہ ایک بار میں حضرت صاحب کی خدمت میں دوا لینے آیا ، آپ نے فرمایا سگریٹ پینا چھوڑ دو ان دنوں میں سگریٹ نوشی کا بڑا عادی تھا میں نے عرض کیا حضور ! میں آپ کے سامنے تو کہہ دوں گا کہ میں نے سگریٹ چھوڑ دیا ۔ لیکن عادتا جب یہاں سے اٹھ کر باہر جاں گا تو پھر پینا شروع کر دوں گا ۔ آپ نے دوبارہ فرمایا " میں کہتا ہوں سگریٹ چھوڑ دو۔" مجھ سے اسی روز سگریٹ اور دیگر منشیات کے استعمال کی عادت ترک ہو گئی یہ انقلاب آپ کی زبان مبارک کا اثر تھا ۔ میں بری صحبتوں کی وجہ سے جوا
کھیلنے کا بھی عادی تھا ۔ ایک شب خواب میں دیکھا کہ ہم لوگ جوئے کی بازی لگا رہے ہیں کہ اچانک پولیس کا چھاپا پڑ گیا ہے اور ہم گھیرے میں آگئے ہیں۔ میں عرض کرتا ہوں ۔ میرے سائیں مجھے بچا ، آئندہ ایسا برا کام نہیں کروں گا۔ " اچانک آپ نے خواب میں ہاتھ تھام لیا آپ کے ساتھ ایک بزرگ اور تھے بیدار ہوا تو دل سے اس قسم کی بری آرزو بھی مٹ گئی ۔ پھر میںکبھی اب تک ان برے کاموں کی طرف بھول کر بھی نہیں گیا ۔ امام علی صاحب کی زندگی کا نقشہ بدل گیا دینی امور کی طرف رغبت بڑھ گئی ۔ اکثر آپ کی خدمت میں حاضر رہنے لگے اور آخری وقت تک کسی غلط عادت کا تصور تک ذہن میں نہ آیاعبادت اور زکر عادت بن گئی ۔امام علی صاحب نے اپنی اہلیہ کی بیماری کے متعلق بتایا کہ میری اہلیہ بیمار تھیںایک دن میں اسے لے کر حضرت صاحب کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا ۔ ان دنوں ہمارے معاشی حالات بھی اتنے سازگار نہ تھے۔ آپ نے فرمایا۔ اہلیہ کو گھر کی لسی پلاتے رہو ۔ شفاہو جائے گی ۔ دوا کی ضرورت نہیں ۔ چنانچہ آپ کی زبان مبارک سے نکلے ہوئے الفاظ کی بدولت ہمارے گھر میں معاشی آسانیاں پیدا ہو گئی ۔اور قدرت نے ایسے اسباب پیدا کر دیے کہ بارہ مہنے ہم گھر میں لسی بنا کر پیتے دودھ حسب ضرورت روزانہ آجاتا آپ کی دعا سے روز افزوں زندگی کی ضروریات سہولت کے ساتھ پوری ہو رہی ہیں امام علی صاحب کی ساری اولاد اور گھر والے آپ کی عقیدت کے جذبے سے سرشار ہیںاور حضرت صاحب کے فیضِ نگاہ سے خوش ہیں ۔امام علی مرحوم نے مزید بتایا کہ ایک روز میں اور میاں برکت علی نوشاہی صاحب حاضر تھے۔ عرض کیا سرکار میں نے گرم حمام بنا رکھا ہے اگرآپ ادھر میرے حمام پر غسل فرما لیں تو مجھے برکت حاصل ہو جائے گی ۔ آپ نے فرمایا میں غسل تمہارے حمام سے ہی کروں گا ۔ چنانچہ آپ کا جب انتقال ہو اتو آپ کی حسب خواہش میرے حمام سے ہی گرم پانی کے ساتھ آخری غسل دیا گیا۔ وہ تولیہ وہ صابن وہ کنگھی (جس کے ساتھ آپ رحم اللہ علیہ کے بال مبارک تا حال لگے ہوئے ہیں ) ہم نے بطور تبرک سنبھال کر رکھے ہیں۔ اس کا اثر یہ ہے کہ آج تک ہمارے گھر سے برکت نہیں گئی ۔ مجھ فقیر کو لوگ اچھا کھانا تیار کرنے والا سمجھ کر دور دور لے جاتے ہیں ، مختلف تقریبات میں میرے کسب کو لوگ سراہتے ہیں ۔ یہ سب میرے شیخ کی روحانی التفات کا کرشمہ ہیں

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button