
بھارت میں مسلمانوں کیخلاف جونفرت پیداکی جارہی ہے اس کا سلسلہ توکئی برسوں سے جاری ہے لیکن بی جے پی کی حکومت برسراقتدارآئی تو پھر آرایس ایس کے ذریعے ایسے اقدامات اٹھائے گئے جن سے مسلمانوں کو تکلیف پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کی گئی۔.یاد رہے کہ بھارت میں ہندوانتہا پسندی عروج پر پہنچ گئی ہے، ہندو انتہا پسندوں نے مسلمانوں کے لئے بھارت کی سر زمین تنگ کردی ہے۔ ہندوانتہا پسندی سے بچنے کا واحد حل ووٹ کی پرچی ہے جس کا فیصلہ مسلم ,سکھ اور اقلیتی ووٹرز کو انتخابات میں اپنے ووٹ کا استعمال کرتے ہوئے کرنا ہے۔ بھارت میں مسلم ووٹرز کی ایک بڑی تعداد ہے جو بھارتی عام انتخابات ایک اہم کردار ادا کر سکتی ہے , ہندو، سکھ ،مسلم ،مسیحی نوجوان اس وقت مسلمانوں کے شانہ بشانہ ہیں , جموں اور کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور نچلے طبقے کی اقلیتیوں پر حملوں کے بعد ہندوانتہا پسندی کے سائے میں بھارتیہ جنتا پارٹی کا مستقبل بہت تاریک نظر آ رہا ہے بھارت میں 7 مرحلوں پر مشتمل عام انتخابات 19 اپریل سے شروع ہوں گے جس کے نتائج کا اعلان 4 جون کو کیا جائے گا۔رپورٹ کے مطابق بھارت کے الیکشن کمیشن نے 16 مارچ کو نئی دہلی میں 6 ہفتوں کیعام انتخابات کے شیڈول کا اعلان اعلان کیا تھا ۔ چیف الیکشن کمشنر راجیو کمار نے ووٹنگ کی تاریخوں کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم جمہوریت کو ملک کے کونے کونے تک لے جائیں گے، یہ ہمارا وعدہ ہے کہ انتخابات اس انداز میں کروائیں کہ ہم دنیا بھر میں جمہوریت کی مثال قائم کریں گے۔ اعداد و شمار کے مطابق بھارت میں تقریبا 97 کروڑ ووٹرز اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے کے اہل ہیں۔ پارلیمانی انتخابات کا پہلا مرحلہ 19 اپریل، دوسرا 26 اپریل، تیسرا مرحلہ 7 مئی، چوتھا مرحلہ 13 مئی، پانچواں مرحلہ 20 مئی، چھٹا مرحلہ 25 مئی اور ساتواں مرحلہ یکم جون کو ہوگا۔ بھارتی الیکشن کمیشن کے مطابق 15 لاکھ پولنگ ورکرز کے ساتھ ملک بھر میں 10 لاکھ سے زائد پولنگ اسٹیشنز ہوں گے۔وزیر اعظم نریندر مودی مسلسل تیسری بار وزیراعظم منتخب ہونے کیلئے پرامید ہیں اوراپنی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) پارلیمنٹ کے ایوان زیریں میں 543 میں سے 370 نشستیں حاصل کرنے کی کوشش کریں گے اور اتحادی جماعت نیشنل ڈیموکریٹک الائنس (این ڈی اے) کو بھی جیتنے کے لیے مجموعی طور پر 400 سے زیادہ نشستیں درکار ہیں۔2019 میں، بی جے پی نے 303 نشستیں حاصل کی تھیں جو کہ 1980 میں بننے والی ہندو قوم پرست جماعت کے لیے اب تک کی سب سے زیادہ ہے۔ نریندر مودی کے مدمقابل تقریبا دو درجن اپوزیشن جماعتیں ہیں جسے انڈین نیشنل ڈیولپمنٹل انکلوسیو الائنس کہا جاتا ہے جس کی قیادت انڈین نیشنل کانگریس کرتی ہے۔بھارتی وزیراعظم ملک کے مختلف شہروں کا دورہ نئے منصوبوں کا افتتاح اور اعلانات کر رہے ہیں، مذہبی تقریبات میں حصہ لے رہے ہیں اور سرکاری و نجی اجلاسوں سے خطاب کر رہے ہیں۔نریندر مودی کا مقبوضہ کشمیر کے ادھم پور میں سیاسی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ جلد ہی جموں و کشمیر کو ریاست کا درجہ دیا جائے گا۔انہوں نے آرٹیکل 370 پر بھی بات کی اور کہا کہ مذکورہ آرٹیکل کو سیاسی فوائد کے لیے نافذ کیا گیا تھا اور اس کے خاتمے کے بعد مقبوضہ کشمیر کی حالت تبدیل ہوئی ہیانہوں نے ریلی سے خطاب کرتے ہوئے وعدہ کیا کہ جلد ہی مقبوضہ کشمیر کو ریاست کا درجہ دے کر وہاں ریاستی انتخابات بھی کرائے جائیں گے۔خیال رہے کہ نریندر مودی کی جانب سے جموں و کشمیر کو ریاست کا درجہ دینے کا اعلان آرٹیکل 370 کی خلاف ورزی ہے، جسے مودی کی حکومت نے 5 اگست 2019 کو ختم کردیا تھا۔ بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کے تحت جموں و کشمیر نیم خود مختار ریاست ہے اور اسے خصوصی اختیارات حاصل ہیں لیکن نریندر مودی نے مقبوضہ کشمیر کی مذکورہ خصوصی حیثیت کو 5 اگست کو 2019 کو ختم کردیا تھا۔ نریندر مودی کی جانب سے آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد وہاں ریاستی انتخابات بھی نہیں ہوئے اور اب بھارتی وزیر اعظم نے مقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت کو تبدیل کرنے کا اعلان کردیا ہے۔بھارت میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف مہم جاری ہے۔ ماضی قریب میں بھارتی معاشرے میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی اور عدم برداشت کے خلاف احتجاج کا دائرہ وسیع ہوا جب کہ40 سے زائد ادیبوں اور فلمسازوں کی جانب سے اپنے قومی اعزازات واپس کرنے کا اعلان کیا تھا ہندوستان ایک ایسی سرزمین ہے جو مختلف مذاہب اور ثقافتوں کے طور پرجانا جاتا ہے، ہندو انتہا پسندی میں پریشان کن اضافہ دیکھ رہا ہے، ہندو انتہا پسندوں کا حتمی مقصد ہندوستان میں مسلم تہذیب کو منظم طریقے سے ختم کرنا ہے۔ یہ مہتواکانکشی منصوبہ قومی منظر نامے سے مسلم ثقافتی اثر و رسوخ کو مٹانے کا تصور کرتا ہے۔ مساجد کی تباہی اور ان کی جگہ ہندو مندروں کے ساتھ تاریخ کو دوبارہ لکھنے کی کوششوں کو اس مقصد کی طرف قدم کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
خاص طور پر نریندر مودی اور ان کی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے دور میں یہ نظریہ، جو پرجوش ہندو قوم پرستی میں جڑا ہوا ہے، ملک کے سیکولر تشخص اور اس کی مذہبی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لیے ایک اہم خطرہ رہا ہے۔ اس کے اہم پہلوں میں سے ایک مسلم مخالف بیان بازی کو معمول پر لانا ہے۔
نفرت انگیز تقریر، جو اکثر سوشل میڈیا اور دائیں بازو کے میڈیا آٹ لیٹس کے ذریعے پھیلتی ہے، مسلمانوں کو شیطان بناتی ہے اور انہیں باہر کے لوگوں کے طور پر پیش کرتی ہے یا قوم کے لیے خطرہ بھی۔
یہ نفرت انگیز بیانیہ تیزی سے عام ہو گیا ہے جس سے خوف اور دشمنی کا ماحول پیدا ہو گیا ہے۔
انڈیا ہیٹ لیب جیسی تنظیموں نے مسلم مخالف نفرت انگیز تقاریر کے واقعات میں تیزی سے اضافے کی دستاویز کی ہے، جس کا ایک اہم حصہ بی جے پی کی حکومت والی ریاستوں میں ہوا ہے۔ ان نفرت انگیز تقاریر میں اضافے کا وقت خاص طور پر تشویشناک ہے۔