کالم

ماحولیاتی آلودگی

محکمہ ماحولیات کے حالیہ اعداد و شمار کے مطابق لاہور میں ایک بار پھر فضائی آلودگی میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ یعنی لاہور پہلے بھی فضائی آلودگی میں سرفہرست تھا اور وہ بدستور اپنے اس اعزاز کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔ عام طور پر فضائی آلودگی میں اضافہ اور سموگ کا مشاہدرہ لاہوریے موسم سرما کی آغاز پر کرنا شروع کردیتے ہیں جو نومبر کے آخر اور دسمبر کے شروع میں انتہا کو چھونے لگتا ہے تاہم امسال اضافہ مارچ میں دیکھنے کو مل رہا ہے۔ ماضی میں لاہور میں فضائی آلودگی کا اے کیوآئی 500سے بھی زائد دیکھا گیا ہے اور سردیوں میں یہ اوسطا 350 سے زائد رہتا ہے تاہم مارچ میں اس سال یہ 250 سے 300تک پہنچ چکا ہے۔ ماہرین کے مطابق 151سے200انڈیکس مضر صحت جبکہ 201سے 300تک انڈیکس انتہائی مضر صحت قرار دیا جاتا ہے۔ اس سے زیادہ فضائی آلودگی خطرناک قرار دی جاتی ہے۔ فضائی آلودگی کی وجوہات بہت سی ہیں تاہم ان میں سرفہرست بڑے پیمانے پر سبزے کا ختم ہونا،زرعی زمین کا خاتمہ، گاڑیوں اور فیکٹریوں میں غیر معیاری ایندھن کا استعمال اور اندھا دھند ہاسنگ سوسائٹیوں کا قیام ہے۔اگرچہ کہ لاہور میں بے ہنگم اور غیر قانونی تعمیرات اور پرائیوٹ سوسائٹیوں کے پھیلا کا اصل ذمہ دار لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کا ادارہ ہے جس کے افسران نے مختلف ادوار میں لاہور شہر اور اسکی فضا کی بربادی میں اہم کردار ادا کیا ہے تو وہاں ایک ادارہ جسے لوگ راوی ڈویلپمنٹ اتھارٹی(روڈا) کے نام سے جانتے ہیں، صوبائی دارالحکومت میں فضائی آلودگی اوروسیع ہاسنگ سوسائٹیز میں مزید اضافے کا باعث بننے جارہا ہے۔روڈا کے حوالے سے پہلے ہی جہاں بھاری تنخواہوں پر غیر قانونی بھرتیوں اور کرپشن کی داستانیں زبان ِ زد عام ہیں تو وہاں بھارت کی جانب سے دریائے راوی میں پانی کی بندش کے فیصلے سے اس میگا پراجیکٹ کا مستقبل بھیاندھیرے میں ڈوب چکا ہے۔ اربوں روپے کی لاگت سے بننے والے اس منصوبے کا بنیادی مقصد دریائے راوی میں بیراجوں کی تعمیر کے علاوہ لاہور شہر میں زیر زمین پانی کے لیول کو بہتر کرنا اور فضائی آلودگی کو ختم کرنا تھا۔ تاہم یہ پراجیکٹ بھی اسکے کرتا دھرتوں کی لالچ و حرص کی وجہ سے میگا ہاسنگ سکیم پراجیکٹ میں تبدیل ہوچکا ہے۔ یعنی نیا شہر مکمل طور پر ہاسنگ سوسائٹیز پراجیکٹ میں تبدیل ہونے جارہا ہے۔ جو نہ صرف لاہور شہر میں فضائی آلودگی میں اضافہ کا باعث بنے گا بلکہ اس سے وسیع و عریض زرعی رقبہ کا بھی خاتمہ ہوا ہے۔ وزیر اعلی پنجاب مریم نواز کی جانب سے پنجاب میں بڑھتی ہوئی فضائی آلودگی کا نوٹس لینا اور اسکے خاتمے کے لیے فوری اقدامات اٹھانے کے اقدامات صادرکرنا خوش آئند امر ہے۔تاہم انہیں روڈا جیسے ادارے جسے پاکستانی کی معیشت میں بہتری کے لیے ایک بڑا گیم چینجر قرار دیا جارہا تھا کی اتنی جلد تباہی کا فوری نوٹس لینا چاہیے تاکہ اس اہم ادارے میں کرپشن اور اقربا پروری کے بڑھتے ہوئے رجحان پر قابو پا کر اس کے مستقبل کو بچانے کی سعی حاصل کی جاسکے۔وزیر اعلی پنجاب مریم نواز کی حکومت کی ابتدا اچھی ہے۔ امید ہے کہ انتہا اور اختتام اچھا ہوگا۔ تاہم ان کے لیے مشورہ بھی ہے کہ وہ پنجاب پولیس کی موجودہ قیادت کے باتوں میں نہ آئیں جو انہیں چند تھانوں کی خوبصورت عمارتوں میں ہی گھماتے رہینگے اور یہ کبھی بھی نہیں بتائیں گے اور انہوں نے کیسے پہلے ہی عوامی خزانہ کا اربوں روپے ریوڑیوں کی طرح بانٹ کر ایک ایسی پولیس فورس تیار کر رکھی ہے جو آج بھی تھانہ کی روایتی غیر انسانی کلچر کی سب سے بڑی پناہ گاہ بنی ہوئی ہے۔ایسے میں اچھا لگا یہ جان کر کہ وزیر اعظم شہباز شریف اور انکی حکومت کو مسائل اور چیلنجز کا درست ادراک ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ ان کی حکومت کے اصل مقاصد اور پالیسی کا رخ کیا ہونا چاہیے۔ظاہر ہے کہ بیمار کی نبض پر ہاتھ نہیں ہوگا تو نہ ہی بیماری کی حقیقت کا ادراک ہوسکے گا اور نہ ہی اسکا علاج ممکن ہوسکے گا۔ یقیناپاکستانی قوم کے لیے اس وقت سب سے بڑا المیہ کمر توڑ مہنگائی ہے۔ ایک عام پاکستانی کی ننگی پیٹھ پر اس وقت ان گنت ناجائز ٹیکسوں کے ایسے آتش سوز تازیانے برس رہے ہیں کہ الامان الحفیظ۔ ایک جانب اشیا خورونوش سمیت عام ضرورت کی اشیا کی آسمان سے باتیں کرتی قیمتیں اور دوسری جانب گیس اور بجلی کے ہوشربا بل، کوئی جائے تو بھلا جائے کہاں، کوئی پناہ گاہ نہیں۔ یقینا سوختہ حال پاکستانیوں کی اکثریت کے لیے جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنا گویا جوئے شیر لانے کے مترادف بن چکا ہے۔تاریخ کی کتاب کے اوراق پلٹ کر دیکھ لیں، عوامی خونی انقلاب جہاں بھی آیا اسکی سرِفہرست وجہ بھوک اور نا انصافی تھی۔ جب حکمران اشرافیہ نے اپنے لالچ و حرص اور کوتاہ اندیش پالیسیوں کے باعث عوام کی اکثریت کو نا ختم ہونے والی بھوک اور معاشی پریشانیوں کے گرداب میں دھکیلا، مصیب زدہ اور محروم عوام نے بھی پلٹ کر ایسا وار کیا کہ اب کے غیض و غضب کے سامنے پھر کوئی بند نہ باندھ سکا۔ عوامی نفرت کا سیلاب حکمرانوں اور انکے بنائے نظام کو تنکے کی مانند بہا کر لے گیا۔ پاکستان کی صورت حال بھی ان دنوں زیادہ مختلف نہیں ہے۔ بے روزگاری اور مہنگائی کی چکی میں پسی عوام کی حالت ِزار کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے۔ ایک لاوا ہے کہ چار کھونٹ پک رہا ہے۔ بس ایک چنگاری کی ضرورت ہے پھر دیکھیں کیا ہوگا۔
وفاقی کابینہ کے تعارفی اجلاس سے خطاب میں شہباز شریف کا کہناتھا، ہمیں آپس میں نہیں غربت کیخلاف جنگ لڑنی ہے۔، اشیا کی مناسب قیمتوں پر دستیابی یقینی بنانے کیلئے ہر ممکن اقدامات کریں گے اور غریب آدمی کو ریلیف فراہمی کیلئے بھرپورکوششیں کریں گے۔تاہم ہنوز صورت حال یہ کہ رمضان المبارک کے دوران اشیا خوردنوش اور عام استعمال کی چیزوں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں اور حکومت کے اقدامات کے باوجود پاکستانی کو ریلیف ملتا نظر نہیں آرہا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button