کالم

اسماعیل ہنیہ کا فلسطین

شام میں ایرانی سفارت خانے پر اسرائیل کے حملے کے بعد ایران کی جانب سے جوابی کارروائی کا امکان بتایاجارھا ہے، امریکی اخبار کے مطابق ایران اگلے 24 سے 48 گھنٹوں کے دوران اسرائیل پر حملہ کر سکتا ہے، وال اسٹریٹ جنرل کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تا زہ ترین کشیدگی اس وقت سامنے آئی جب ایران نے دمشق، شام میں اپنے قونصل خانے پر حملے کا بدلہ لینے کے عزم کا اظہار کیا اور ایران کی جانب سے آئندہ 48 گھنٹوں کے اندر اسرائیل پر براہ راست حملہ کرنے کا امکان ظاہر کیا گیا،بھارتی ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ بھارت نے اپنے شہریوں کو ایران اور مشرق وسطی کا سفر کرنے سے منع کر دیا ہے، جبکہ بھارت نے اس حوالے سے ٹریول ایڈوائزری بھی جاری کی ہے،دوسری جانب امریکی صدرامریکی صدر جو بائیڈن نے تازہ ترین بیان میں کہا ہے کہ انہیں توقع ہے کہ ایران بہت جلد اسرائیل پر حملہ کرے گا ساتھ ہی انہوں نے ایران کو یو ڈونٹ کا جملہ استعمال کر تے ہوئے خبردار کیا کہ وہ اس حملے سے باز رہے ‘ہم اسرائیل کے دفاع کے لیے وقف ہیں اور انکی مدد کریں گے اور ایران کامیاب نہیں ہو گا،اس خبرسے یہ پتہ چلتاہے کہ یہودی صرف فلسطین کے لیے نہیں بلکہ امت مسلمہ کے خلاف متحد ہورہا ہے لہذا اب 51 مسلم ممالک کو اپنا محاسبہ کرنا چاہیے کہ ہم قاتل اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہیں یا اپنے فلسطینی بہن بھائیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے عملی اقدامات کے ذریعے فلسطین کو اسرائیل کے قبضہ سے چھڑوائیں گے، تمام اسلامی ملک قدرتی وسائل کی دولت سے مالامال ہیں اگر اپنی مصنوعات بشمول تیل دنیا کو دینا بند کر دیں اور یورپ کی مصنوعات کا کچھ عرصہ بائیکاٹ کر دیں تو اسرائیل سمیت کئی یورپی ممالک کی معیشت دیوالیہ ہو سکتی ہے، سات اکتوبر کو حماس کے اسرائیل پر حملے کے بعد سے اب تک اسرائیلی فورسز کے ہاتھوں 33000 کے قریب فلسطینی، جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل ہیں، ہلاک ہو چکے ہیں، اس جنگ سے فلسطین میں تجزیہ نگاروں نے جاں بحق ہونے والوں کی تعداد تخمینی لاکھوں سے زائد بتائی ہے اسرائیل کے غزہ پر حملے اب تک جاری ہیں، روئے زمین پر فلسطین میں رہنے والی عوام نے نہ جانے ظلم و ستم سہنے کی کتنی داستانیں رقم کی ہیں، ہر روز ان پر آتش و آہن کا نیا کھیل کھیلا جارھاہے، معصوم بچوں، جوانوں، بوڑھوں اور خواتین پر زیادتی، قتل و غارت گری کا ہر حربہ استعمال کیا جارہاہے ہر صبح ان کی زندگیوں میں خوشیوں کے بجائے افسردگی، اور مایوسی کی نوید لیکر آتی ہے، ہر طرف گولہ وبارود کی مہک ہے اب تک نہ جانے کتنے ہزارافراد لقمہء اجل بن چکے ہیں امریکی و اسرائیلی حکومتیں اور ان کا بھونکتا ہوا میڈیا یہ تو تسلسل سے کہتا رہا کہ حماس نے اسرائیل پہ حملہ کر کے جارحیت کی پہل کی ہے مگر یہ کہنے سے گریز کرتاہے کہ آخر فلسطینیوں نے یہ جارحانہ عمل کیوں اپنایا۔وجہ یہی ہے کہ اسرائیل نے اہل فلسطین کے علاقوں پہ پچھلے کئی عشروں سے قبضہ کر رکھا ہے پھر اہل غزہ کی تو اسرائیلی سیکورٹی فورسز نے زبردست ناکہ بندی کر رکھی ہے یہ فورسز اہل فلسطین پہ ہر ممکن ظلم وستم کرتی ہیں امریکا کا حکمران طبقہ سرعام اسرائیلی کی مدد کررہاہے انہیں اکسا رہاہے یوں کہاجائے کہ اس وقت امریکا اسرائیلی حکمرانوں کی ڈھال بناہواہے دنیا اس بات کوآخرکیوں نہیں سمجھ پارہی کہ اسرائیلی حکمران دنیا بھر میں جو مرضی کرتے رہیں، اہل فلسطین کے گھر گرائیں انہیں خون کہ آنسوں رلائیں بچوں کو قتل کریں انھیں گولیوں کا نشانہ بنائیں، غیر ممالک میں جا کر انھیں شہید کریں آخر اس بریت کہ انہیں کھلی چھٹی کیوں ملی ہوئی ہے صرف اس لیے کہ اکلوتی سپرپاور نے ان کو اپنی پناہ میں لے رکھا ہے۔ یہ انتہائی کرب ناک ہے۔ اسرائیل کی نہایت مضبوط اور جدید ہتھیاروں سے لیس فوج فلسطینی معصوم شہریوں، عورتوں اور بچوں کے خلاف جارحیت کررہی ہے،اگر اسرائیل اپنے ظلم اور جارحیت پر پردہ ڈالنے اور عالمی برادری کو دھوکا دیتے ہوئے یہ باور کرا رہا ہے کہ وہ فلسطینی حملوں کے خلاف فقط اپنادفاع کر رہا ہے، تو ہر کوئی جانتا ہے کہ اس تنازعہ کا اصل شکار کون بن رہا ہے مگر بدقسمتی سے جب اسرائیل اور فلسطین کی بات آتی ہے، عالمی برادری دہرے معیارات اختیار کرتی ہے حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اسرائیل صرف فلسطینی سر زمین پر ہی قابض نہیں بلکہ اس کی ریشہ دوانیوں اور عالمی طاقتوں کی ہلا شیری کی وجہ سے ہمسایہ ممالک شام، اردن، لبنان سمیت پورا خطہ عدم استحکام کا شکار ہے۔ 1947کی فلسطین جنگ اور1967کی 6روزہ جنگ سے لے کر 1993کے اوسلومعاہدے تک ذرا ایک نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اسرائیلی مظالم کم ہوئے نہ اس کے توسیع پسندانہ عزائم کی راہ میں کوئی رکاوٹ ڈالی جاسکی ہے۔ ہاں یہ ضرور ہواکہ مزید ممالک جن میں کچھ اسلامی ممالک بھی شامل ہیں، نے ناجائز ریاست کو جائز تسلیم کر لیا بلکہ اب تو امریکا سمیت کئی ممالک بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت بھی تسلیم کرچکے ہیں مسلم امت اگر ایک جسم کی مانند ہے اور ایک حصے کو تکلیف ہو تو سارا جسم درد محسوس کرتا ہے تو کیا فلسطینی عوام اس جسم کا حصہ نہیں ۔ پاکستان کو ایٹمی قوت ہونے کے ناطے مسلم دنیا کی قیادت کرتے ہوئے اسرائیل کے خلاف موثر آواز بننا ہوگا چند روز قبل حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ کے تین بیٹے غزہ کی پٹی میں اسرائیلی فضائی حملے میں مارے جاچکے ہیں اسرائیلی فوج نے حملے کی تصدیق کرتے ہوئے تینوں بیٹوں کے لیے کہا ہے کہ وہ حماس کے مسلح ونگ کے کارکن تھے،حماس نے کہا کہ غزہ کے الشاطی کیمپ میں ایک کار پر بمباری کے نتیجے میں ہانیہ کے تین بیٹے، حازم، امیر اور محمد ہلاک ہو گئے۔ یہ ہی نہیں ہے بلکہ اس حملے میں ہانیہ کے تین پوتے بھی مارے گئے اور ایک زخمی ہوا اسماعیل ہنیہ کا 2017 میں عسکریت پسند گروپ کے سربراہ کی حیثیت سے تقرر کیا گیاتھا ہانیہ محصور غزہ میں اسرائیل کی طرف سے عائد سفری پابندیوں سے گریز کرنے کے لیے ترکی اور قطر کے دارالحکومت دوحہ کے درمیان سفر کرتے رہتے ہیں
۔ صدر ایران نے اپنے تعزیتی پیغام میں اسماعیل ہنیہ کو برادر مجاہد کہہ کر مخاطب کرتے ہوئے لکھا ہے کہ الشاطی کیمپ پر حملے میں سفاک صیہونی حکومت کی جنون آمیز کارروائی میں آپ کے تین بیٹوں اور پوتے پوتیوں کی شہادت کی خبر سن کر مجھے اور ایران کے عوام کو دلی صدمہ پہنچا ہے۔ اسماعیل ہنیہ نے یہ پیغام دیاہے کہ ان کے خاندان پر حملہ اسرائیل کی ناکامی کو ظاہر کرتا ہے انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ اہل خانہ کو نشانہ بنائے جانے کے باوجود فلسطینی لیڈر پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ دوسری جانب صہیونی اخبار یدیعوت احارونوت نے کہا ہے کہ اسماعیل ہنیہ کے بچوں کی شہادت سے جنگ کا نقشہ نہیں بدلے گا جبکہ اس کے جواب میں حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ نے جواب میں کہا ہے کہ ہمارے خاندان اور اہلِ فلسطین کو شہادتوں سے نوازنے پراللہ تعالیٰ کے شکر گزار ہیں وہ وقت قریب ہے جب ہم مسجدِ اقصیٰ میں ایک ساتھ نماذ ادا کریں گے، سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ مسجد اقصی کی حفاظت کی ذمہ داری صرف اہل فلسطین یا اسماعیل ہنیہ کی ہی ہے کیا امت مسلمہ کی کوئی ذمہ داری نہیں بنتی، بس اس بے حسی پر یہ ہی کہاجاسکتا ہے کہ مفادات کے غلام مسلم حکمرانوں نے امت کی غیرت کا جنازہ نکال دیا ہے۔
القدس سے آتی ہے صدا مرد مسلماں۔
اٹھ مسجد اقصیٰ کی حفاظت کے لیے اٹھ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button